اللہ رب العزت نے اپنی لاریب
کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذالک فلیفرحوا(پارہ نمبر ١١سورہ یونس آیت نمبر ٥٨)
تم فرماؤ اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسکی رحمت پرخوشی کیجیے
عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جسکا معنیٰ ہے'' خوشی''اور'' لوٹنا''کیونکہ یہ
دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے اور ان کے درمیان خوشیاں بکھیرتا ہے۔
المفردات میں حضرت علامہ راغب اصفہانی رقم کرتے ہیں کہ لفظ عید لغت کے
اعتبار سے اس دن کو کہا جاتا ہے جو باربار لوٹ کر آائے ۔اور اصطلاح میں عید
الفطر اور عید الضحیٰ کو کہا جاتا ہے یہ دن شریعت میں خوشی منانے کے لئے
مقررکیاگیا ہے ۔جسطرح حضور نبیؐ نے اپنے فرمان میں اس پر متنبہ کیا ہے کہ
ایام منیٰ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات کے دن ہیں (غیر حجاج کے
لئے)۔چنانچہ عید کا لفظ خوشی اور مسرت حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتا
ہے۔(المفردات)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی ارشادفرماتے ہیں کہ''عید کو عید اس لئے کہا
جاتا ہے کہ ہرسال اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں پر انواع و اقسام کے
انعامات و احسانات لوٹاتا ہے ۔اس دن فرخ و سرور اور نشاط و انبساط منانا
لوگوں کی عادت ہے ''نیز آپ فرماتے ہیں کہ ''نیک شگون کے طور پر اس دن کو
عید کہاجاتا ہے''۔
قارئین گرامی قدر:۔
رمضان المبارک کا مہینہ رحمت ومغفرت اور آزادی جہنم کا مہینہ ہے
۔لہذامسلمان اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات و احسانات کی خوشی میں عید کا دن
مناتے ہیں۔
عید کا دن وہ دن ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ یہ دن
مسلمانوں کے لئے خوشی و مسرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن اللہ کی رضا اور
خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے۔ عید کے دن سارا سال غموں کی چکی میں پسنے والے
عوام خوشیاں مناتے ہیں۔عید کا دن بچوں،بوڑھوں،جوانوں اور عورتوں کے لئے
یکساں طور پر شگفتگی و تازگی اور معاصیوں کے لئے مغفرت الغرض اھل اسلام
کےلئے جنت کا پیغام لے کر آتا ہے۔
حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ
''ماہ رمضان المقدس کی ہر شب طلوع صبح تک ایک منادی کرنے والا نداء کرتا ہے
کہ اے بھلائی کے طلب گار نیکی کو پورا کرو اور خوش ہو اور شر کے طلب گاروں
گناہوں سے رک جاؤ اور عبرت کےلئے غور سے دیکھ۔اور ہے کوئی مغفرت طلب کرنے
والا جس کی مغفرت کی جائے ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کی جائے
ہےکوئی دعا کرنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ہے کوئی سوالی (سائل) جس کا
سوال پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب ٦٠ہزار آدمیوں کو
آزادی جہنم سے نوازتا ہے اور جب شوال المکرم آتا ہے تو جس قدر سارے ماہ
میںلوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے اس کے برابر عید کے دن لوگوں کو جہنم
سے آزاد کیا جاتا ہے''۔
( زواجر جلد ١ ص ١٠١)
قارئین گرامی قدر:۔
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہااللہ تعالیٰ رمضان المعظم کے ہر دن ساٹھ
ہزار افراد کو جہنم سے آزادی عطاء فرماتا ہے اگر اسلامی مہینہ کبھی انتیس
دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دنوں کا ہوتا ہے اگر ہم انتیس دن ہی لیں اور
انتیس کو ساٹھ سے ضرب دیں تو معلوم ہو گا کہ'' ١٧٤٠٠٠٠''افرادکو آزادی جہنم
کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے اور اگر تیس دنوں کا ہو تو پھر اٹھارہ لاکھ
افراد بنیں گے لہذا معلوم ہوا کہ عید کے دن اس تعداد بلکہ اپنے فضل و کرم
سے اس سے زائد افراد کو اللہ تعالیٰ آزادی دوزخ سے نوازتا ہے اسلئے اسے
''لیلۃ الجائزہ''اور'' لیلۃ الانعام'' کہا جاتا ہے ۔
حضورنبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون ومکاں ؐ نے ارشاد
فرمایا کہ
'' جس نے عیدین کی رات کو قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن لوگوں
کے دل مر جائیں گے''۔
( سنن ابن ماجہ جلد ٢ ص ٣٦٥)
جناب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم
کچھ اس طرح ہے کہ''وہ افراد جو پانچ راتوں کو قیام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی
عبادت کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس انعام و اکرام ہیں اللہ ان کے
لئے جنت کو واجب کرتا ہے اور جہنم کو حرام کرتا ہے اور پانچ راتیں یہ ہیں
ماہ ذوالحج کی آٹھویں،نویں اور دسویں رات ،عید الفطر کی رات اورپانچویں رات
شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے(شب برات)''۔
(الترغیب والترھیب جلد٢ ص٩٦)
عید کے دن شیطان بڑا روتا ہے واویلے کرتا ہے جسطرح حضرت وہب بن منبہ فرماتے
ہیں کہ ابلیس (دشمن انسان) عید کے دن نوحہ زاری کرتا ہے تو شیطان کی ساری
ذریت اس کے سامنے جمع ہوجاتی ہے تو دشمن انسان گویا ہوتا ہے کہ آج کے دن
اللہ تعالیٰ نے امت مصطفیٰ کو بخش دیا ہے لہذا اے میری ذریت تم انہیں
دوبارہ گناہوں اور خواہشات نفسانیہ میں مشغول کرو''۔
(درۃالناصحین ص ٢٧١، مکاشفۃ القلوب ص ٦٥١)
کیا ہمارے ساتھ اسی طرح نہیں ہوتا کہ کچھ افراد اسے ہوتے ہیں کہ رمضان
المبارک کی عزت کا لحاظ نہیں رکھتے رمضا ن المبارک کی بے حرمتی کرتے ہیں اس
کے گواہ ہمارے اخبارات ہیں صرف ایک اخبار کی ایک خبر لیتے ہیں کہ جناح
٢٠٠٥ء رمضان المبارک (آٹھ اکتوبر کو زلزلہ آیااس کے دو تین دن بعد)جناح
اخبار میں بمع تصاویر یہ خبر شائع ہوئی کہ''رمضان المبارک میں دن کے وقت
لڑکے لڑکیاں اکٹھے مشروبات پی رہے ہیں اور بوس کنار اور خوش گپیوں میں
مشغول ہیں''یہ حرکت سرعام اسلام آباد کے ھاٹس سپاٹ ہوٹل پر ہو رہی تھی جناح
کی ٹیم نے چھاپہ مارا گاڑیوں کے نمبروں کی تصاویر بھی کھینچیں جن گاڑیوں پر
وہ آئے اور بھاگے اور اخبارات میں شائع کیں ۔اس قسم کی خبریں رمضان
المبااارک کے مقدس اور متبرک مہینے میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔یہ ہمارے
اسلامی ملک کا حال ہے۔ جہاں ہر طرف فحاشی اور عریانی کا بازار گرم ہے۔ جو
کہ ماہ مقدس میں گرم رہتا ہے۔
یہی عناصر عید کے دن اور بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ بے حیائی اور فحاشی
میں شامل ہوتے ہیں۔ہر طرف رقص وسرود کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔جہاں تک ہمارے
گھروں کی عورتیں(ہمارہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں)کی بات ہے تو وہ سرعام
مردوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں ان کی عادات و اطوار ان کا لباس شرم ناک
ہوتا ہے ۔سنبھلیے اور سوچیئے اور فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد کیجیے ۔
حضورنبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون ومکاں ؐ نے ارشاد
فرمایا کہ
''جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے سامنے اپنے بندوں کی
عبادت پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ اس مزدور کا کیا
بدلہ ہے جو اپنی مزدوری پوری پوری ادا کرے ؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اس کا بدلہ
یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری پوری ادا کی جائے تو اللہ تعالیٰ فراماتا ہے کہ
اے میرے ملائکہ میرے غلاموں اور میری باندیوں نے میرا فریضہ پورا کیاپھر
دعا کے لئے چلاتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں میری عزت و جلال اور بلندی
مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گاپھر فرماتا ہے اے لوگوں واپس
جاؤ میں نے تمہارے گناہ بخش دیے ہیں اور تمہاری بدیوں کو نیکیوںسے بدل دیا
ہے''۔
قارئین گرامی قدر:۔
عید الفطر اور عید الضحیٰ ہمارے لیئے عید سعید ہیں ہم ان عیدوں کو وعید بنا
رہے ہیں ارے اللہ کے بندو:۔عید میٹھا کھانا کھانا ،نئے کپڑے پہننے کا نام
نہیں ۔دین اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے سب کے ساتھ بھلائی کرنے
کا درس دیا ہے اس میں امیر وغریب گورا یا کالا رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں
ہے اس نے عید سعید کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونے کی اجازتصرف محود طبقہ کو
نہیں دی ہے بلکہ اپنے تمام پیروکاروں کو اس نعمت عظمیٰ کے ہنگاموں سے لطف
اندوز ہوں گے مگرجو غربا ء و مساکین ہیںوہ عید سے کس طرح لطف اندوز ہوں گے
؟
اسلام نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور اس نے امراء کو یہ درس
دیا ہے کہ تم خوشیاں ضرور مناؤ مگر اپنے قرب و جوار کے غرباء کو دیکھو ان
کا جائزہ لو ان کا مشاہدہ کرو مذہبی لحاظ سے وہ تمہارے بھائی ہیں مگر غریبی
و مفلسی کی بنیاد پر اس نعمت کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں نئے کپڑے خود
پہننے سے قبل ان کو پہناؤ ان کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤمیرے بھائیو ! تم خود
تو اچھے کپڑے پہنو اچھے کھانے کھاؤ مگر تمہارا بھائی ان نعمتوں سے محروم ہو
تو اس صورت میں تم ہی محفل کے روح رواں ہو گے مگر تمہرا بھائی عید کے جشن
میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہو سکے گا۔
عید وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ کہ جس کے بارے میں حضورنبی کریم روؤف الرحیم باعث
تخلیق دوجہاں مختار کون ومکاں ؐ نے ارشاد فرمایا کہحضورنبی کریم روؤف
الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون ومکاں ؐ نے ارشاد فرمایا کہ''عید کے دن
اللہ تعالیٰ زمین پر فرشتوں کا نزول کرتا ہے جو منادی کرتے ہیں کہ اے
غلامان محمد(ؐ)چلو اور اپنے رب کے حضور میں آؤ جو کہ لازوال ہے تھوڑے سے
تھوڑا عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑے سے بڑا گناہ معاف بھی کرتا ہے پھر سب
لوگ میدان عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں رب کریم خوش و خرم ہو کر ملائکہ سے
فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو دیکھا کہ امت محمد یہ پر میں نے رمضان کے روزے
فرض کیے انہوں نے مہینے بھر کے روزے رکھے مسجدوں کو آباد کیا اور میرے کلام
مجید کی تلاوت کی اپنی خواہشوں کو روکا شرمگاہوں کی حفاظت کی اپنے مال کی
زکوٰۃ ادا کی اب اظہار تشکر کے لئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کو
بہشت میں ان کے اعمال کا بدلہ دوں گا تم عیدگاہ سے پاک صاف ہو کر نکلو گے
تم مجھ سے خوش رہو میں تم سے راضی ہوں اور یہ ارشادات سن کر ملائکہ خوش و
خرم ہوجاتے ہیں اور اسکی امتیان محمد ؐ کو بشارت سناتے ہیں ۔
(تذکرۃ الواعظین ص٣٦٢)
عید کے دن نئے نئے کپڑے پہننا ،اچھے اچھے کھانے کھانا یہ مفہوم عید
نہیںبلکہ نادار لوگوں کو بھی اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کرنا اللہ کی رضا و
خوشنودی حاصل کرنا دراصل یہی اصل خوشی ہے کہ اللہ ہم سے راضی و خوش ہو جائے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملاحظہ کریں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیض پہنے دیکھا تو
رو پڑے بیٹے نے کہا کہ ابا جان آپ کس لئے روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے
بیٹے مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پھٹے پرانے کپڑوں میں
دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا بیٹے نے جواب دیا دل اس کا ٹوٹے گا جو
رضائے الہی کو نہ پا سکا یا اس کا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی اور مجھ کو
امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپکی رضامندی کے طفیل مجھ سے راضی ہے یہ سن کر حضرت
عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور بیٹے کو گلے لگا لیا اور اس کےلئے دعا کی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
قالوا غدا العید ماذا انت لا بسہ قلت خلعۃ ساق عبدہ الحرعا
فقر و صبر ثوبان بینھما قلب یریٰ ربہ اعیادا والجمعا
العید لی ماتم ان غبت یا اقلی والعید ان کنت لی ترا مستمعا
انہوں نے کہا کہ کل عید ہے تم کیا پہنو گے؟ میں نے کہا ایسی پوشاک جس نے
رفتہ رفتہ بندے کو بہت کچھ دیا فقر اور صبر دو کپڑے ہیں ان کے درمیان دل ہے
جس کو اس کا مالک عیدوں اور جمعوں میں دیکھتا ہے تب میری عید نہیں ہو گی اے
امید اگر تو مجھ سے غۤئب ہو جائے اور اگر تو میرے سامنے اور کانوں کے قریب
ہو ئی تو میری عید ہے۔
( مکاشفۃ القلوب مترجم ص٦٥٢ ،ص ١٠٤)
عید الفطر ایک متبرک دن ہے یہ دلوں کی کدورتیں اور نفرتیں دور کرنیکا دن ہے
عید ہمیں عالمگیر اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے ۔عید کے دن دشمنیاں
،نفرتیں ،کدورتیں محبت والفت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
برادران اسلام:۔ ہماری زندگیوں کا مقصد کیا ہے ؟ ہماری زندگیوں کا مقصد بڑی
بڑی ڈگریاں حاصل کرنا نہیں کھانا پینا سونا نہیں بلکہ ہماری زندگی کا مقصد
قرآن بتاتا ہے کہ
''وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون''میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر
عبادت کے لئے۔
اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے کونسا شخص زیادہ مطیع و
فرمانبردار ہے ؟کونسا زیادہ مخلص اللہ کی عبادت کرنے والا ہے کون اللہ کی
رضا کی خاظر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا ہے کون اللہ کی رضا کی خاطر
دوسروں کو دوست رکھتا ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر دوسرے افراد سے دشمنیاں
رکھتاہے؟
لہذا میرے بھائیو:۔ بے حیائی فحوشی و عریانی اور خرافات کا ارتکاب کر کے
عید کو یوم وعید نہ بنائیں۔
شاعر نے کہا ہے کہ
لیس العید لمن لبس الجدید انما العید لمن خاف الوعید
عید اسکی نہیں جس نے نئے کپڑے پہنے عید اسکی ہے جو عذاب الہی سے ڈر گیا۔
آج ہم اپنے نہایت برے اعمال کے سبب عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں آج پھر
کسی محمد بن قاسم کی ضرورت ہے کسی محمود غزنوی کی ضرورت ہےہمیں بے حیائیوں
کے خلاف اٹھنا ہو گا ہمیں اپنی ماؤں،بہنوںاور بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت کرنا
ہو گی ان کے ننگے سروں کو ڈھاپنا ہو گا ان کے ننگے سروں کو ڈھاپنے کے لئے
کوئی آسمان سے نوری پیکر نہیں ائے گا بلکہ اس بار کو ہمیں اپنے کندھوں پر
اٹھانا ہو گا اگر ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو ہمیں ڈوب مرنا چاہیئے جب کسی
قوم کی بیٹیاں ننگے سر ہو جائیں تو اصل میں بیٹیاں ہی ننگے سر نہیں ہوتیں
بلکہ اس قوم کی غیرت کا جنازہ نکل جاتا ہے خداراہ عید کو عید ہی رہنے دیں
وعید نہ بنائیں ۔
آجکل کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے عید الفطر کے چاند کا مذاق بنا دیا ہے ۔سب
سے الگ تھلگ ہو کر ہمیشہ الگ عید منانے کا شوق ہے اگر کسی کو بھی چاند نظر
نہ آئے تو ان نہ ہنجاروں کو چاند نظر آجاتا ہے مگر یہ معلوم نہیں کونسا
چاند؟ انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی ہوئی ہے ۔ جس کو کسی چیز
کا علم نہیں بولتے ہو ئے زبان لڑکھڑاتی ہے جس نے ریلوے کو تباہ کیا وہ اس
کے چیرمین بنے بیٹھے ہیں خدا راہ ایک عید منائیں جب ایک ادارہ بنا ہوا ہے
تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد لازمی بنا کر مسلمانوں کو انتشار کا شکار کرنا
ہے ؟اسلام کو بدنام کرنا ہے ؟عید الفطر ہی الگ کیوں ؟عید الضحیٰ کیوں نہیں
؟ ْسرف ایک ہی مسجد والوں کو مسئلہ ہوتا ہے جبکہ باقیوں کو نہیں باقی صوبوں
کو نہیں ؟محکمہ موسمیات اور فلکیات والے باربار کہتے ہیں کہ چاند نظر نہیں
آسکتا اسکی عمر ہی پوری نہیں مگر پوپلزئی تو اس کی عمر بھی پوری کر لیتے
ہیں۔جب پورے جنوبی ایشیا میں چاند نظر نہ آئے تو مسجد قاسم میںچاند نظر
آجاتا ہے۔کبھی تو ٢٨ روزے رکھ کر نئی روایت رقم کی جاتی ہے جبکہ اسلامی
مہینہ ٢٩ یا ٣٠ کا ہوتا ہے کبھی یہ روزے پہلے رکھ لیتے ہیں کبھی عید پہلے
کر لیتے ہیں ایک اسلامی ملک میں ٣،٣ عیدیں منائی جا رہی ہیں۔ آخر ان کو
مسئلہ کیا ہے؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟خداراہ ایک ہو جائیں ۔اکٹھی عید منائیں
اورخوشیاں بانٹیں ۔پہلے ہی بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔
یااللہ پاکستان کی حفاظت فرما۔ پاکستان کو دشمنوں کے ناپاک عزائم سے بچا
یا۔ اللہ پاکستان کو استحکام عطا ء فرما ۔یااللہ پاکستان میں اسلامی حکومت
کا نفاذ فرما۔ اور ہماری غیرت ایمانی کو زندہ کر۔ اور ہمیں شیطان کے جال سے
بچا ۔یااللہ پاکستان کی نظریاتی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرما۔اور
ہمیںایک اور نیک بنا۔ یااللہ برما کے مسلمانوں پر رحم فرما ۔یااللہ
مسلمانوں کو ہنود و یہود کے ناپاک عزائم سے بچا۔ ہم سب کو اکٹھی عید کرنے
اور اسکی برکتیں لوٹنے کی تو فیق عطاء فرما ۔یااللہ ہمیں غیرت مند حکمران
عطا فرما۔
آمین ثم آمین |