ذوالقعدہ
وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔ یہ پہلا مہینہ ہے جس میں جنگ و
قتال حرام ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی
بیٹھنے کے ہیں۔ اور اس مہینہ میں بھی عرب لوگ جنگ و قتال سے بیٹھ جاتے تھے۔
یعنی جنگ سے باز رہتے تھے۔ اس لئے اس کا نام ذُوالقعدہ رکھا گیا۔ ذُوالقعدہ
کا مہینہ وہ بزرگ مہینہ ہے ، جس کو حُرمت کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ
تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط یعنی بارہ مہینوں
میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں سے پہلا حرمت والا مہینہ ذُوالقعدہ
ہے۔
ذوالقعدہ کی اہمیت:
ذوالقعدہ کے خصائص میں سے ایک بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا ہوئے ، سوائے اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے حج سے ملا ہوا تھا پھر بھی آپ نے اس عمرے کا احرام ذوالقعدہ ہی میں
باندھا تھا لیکن اس عمرے کی ادائیگی آپ نے ماہِ ذوالحجہ میں اپنے حج کے
ساتھ کی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں
سب سے پہلا عمرہ عمرہ حدیبیہ کہلاتا ہے جو پورا نہ ہوسکاتھا بلکہ آپ حدیبیہ
کے مقام پر حلال ہوکر واپس تشریف لے آئے تھے۔ پھر اس عمرے کی قضاء اگلے سال
فرمائی تھی (یہ آپ کا دوسرا عمرہ کہلایا) تیسرا عمرہ ، عمرہ جعرانہ کہلایا
جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ادا فرمایا ۔ جس وقت حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی
تھیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ شوال کے آخر میں ہوا تھا۔ لیکن مشہور قول یہی
ہے کہ یہ ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ چوتھا اور آخری
عمرہ حجۃ الوداع میں ہوا تھا جیسا کہ اس بارے میں نصوصِ صحیحہ دلالت کرتی
ہیں اور جمہور علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
اسلاف کی ایک جماعت جن میں ابن عمر رضی اللہ عنہما، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا اور عطاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں روایت کرتے ہیں کہ ذوالقعدہ اور
شوال کا عمرہ رمضان المبارک کے مہینے پر فضیلت رکھتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم ا
نے ذوالقعدہ میں عمرے ادا فرمائے ہیں جبکہ حج کے مہینوں میں فضیلت اس لئے
بڑھ جاتی ہے کہ حاجی پر اپنے حج کی وجہ سے قربانی واجب ہوجاتی ہے اور ھدی
(قربانی کا جانور) ایسی چیز ہے جو مناسک حج میں ایک منسک ہے تو حج میں منسک
عمرہ اور منسک ھدی دونوں جمع ہوجاتے ہیں ۔
ذوالقعدہ کی ایک اور فضیلت ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ یہی وہ تیس دن
تھے جن کا وعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاتھا ۔
لیث نے مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے اس قول:
وَوٰعَدْ نَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً
''اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس ٣٠ رات کا''
کے بارے میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد ذوالقعدہ ہے ۔
وَاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ
''اور پورا کیا ان کو اور دس سے''
اس سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ
ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ کو اللہ جل شانہ، نے سیدنا حضرت موسیٰ علی نبینا
علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتاب دینے کے لئے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَواعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ
فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِِّہ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج وَقَالَ مُوْسٰی
لِاَخِیْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ
سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا
وَکَلَّمَہ، رَبُّہ،۔ (پ ٩، سورۃ اعراف،آیات ١٤٢۔١٤٣)
اور ہم نے موسیٰ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے تیس ٠ ٣ رات کا وعدہ فرمایا۔
اور ان میں دس ١٠ ا ور بڑھا کر پوری کیں۔تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس
رات کا ہوا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے اپنے بھائی (حضرت
ہارون علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے کہا کہ میری قوم پر میرے نائب
رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا ۔ اور جب (حضرت
)موسیٰ(علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہمارے وعدے پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب
نے کلام فرمایا ۔(کنزالایمان)
سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا کہ جب
اللہ تعالیٰ ان کے دشمن فرعون کو ہلاک فرمادے تو وہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ
کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا تو سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے اپنے رب سے اس کتاب کے نازل فرمانے کی درخواست کی۔ تو حکم ہوا
کہ تیس روزے رکھیں۔ جب آپ وہ روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں
ایک طرح کی بو معلوم ہوئی تو آپ نے مسواک کی۔ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ
کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم
کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہِ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں ۔ اور
فرمایا کہ اے موسیٰ! ( علیہ الصلوٰۃ والسلام)کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے
دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک خوشبو مشک سے زیادہ اطیب ہے۔
جب سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے
طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طور ِ سینامیں حاضر ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار
فرسنگ ڈھانپ لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتیٰ کہ رہنے والے فرشتے تک
وہاں سے علیحدہ کردیے گئے۔ اور آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا۔ تو آپ نے
ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف
دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سُنی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے
آپ سے کلام فرمایا ۔ آپ نے اس کی بار گاہ میں معروضات پیش کئے۔ اس نے اپنا
کلامِ کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے ساتھ
تھے ۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت موسیٰ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے فرمایا وہ انہوں نے کچھ نہ سُنا۔ ( فضائل ایام والشہور ، صفحہ
٤٥٢ بحوالہ تفسیر خازن وغیرہ)
بیتُ اللہ شریف کی بنیاد
اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیدنا حضرت ابراہیم خلیل
اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے کہ :
وَاِذْیَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ
وَاِسْمَاعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ o رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ
ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا وَتُبْ
عَلَیْنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (پ ١، سورۃ
بقرہ،آیات ١٢٧۔١٢٨)
اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) اس گھر کی نیویں۔ اور
اسماعیل(علیہ الصلوٰۃ والسلام ) یہ کہتے ہوئے ۔ اے رب ہمارے ہم سے قبول
فرما بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا ۔ اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن
رکھنے والا ۔ اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں
ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو
ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (کنزالایمان)
پہلی مرتبہ کعبہ معظمہ کی بنیاد سیدنا حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے رکھی تھی اور بعد طوفانِ نوح پھرسیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمائی۔ یہ تعمیر آپ کے دست
اقدس سے ہوئی اور اس کے لئے پتھر اٹھاکر لانے کی خدمت اور سعادت سیدنا حضرت
اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میسر ہوئی۔ دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا
کی کہ یا رب عزوجل ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔
سیدنا یونس علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مچھلی کے پیٹ سے باہر
تشریف لانا
ماہِ ذو القعدہ کی چودہویں تاریخ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا حضرت
یونس علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی
تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے کہ:
وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ o اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ
الْمَشْحُوْنِoلا فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ o فَالْتَقَمَہُ
الْحُوْتُ وَھُوَ مُلِیْمٌ o فَلَوْ لَا اَنَّہ، کَانَ مِنَ
الْمُسَبِّحِیْنَo لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o
فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیْمٌo (پ٢٣، سورۃ صافات،آیات ١٣٩ تا
١٤٥)
اور بے شک یونس (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام )پیغمبروں سے ہیں۔ جب کہ
بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔ تو قرعہ ڈالا تو ڈھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے
مچھلی نے نگل لیا ۔ اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے
والا نہ ہوتا تو ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔
پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔ (کنزالایمان)
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور وہب کا قول ہے کہ سیدنا
حضرت یونس علی نبیناعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا
تھا ۔ اس میں تاخیر ہوئی تو آپ ان سے چھپ کر نکل گئے اور آپ نے دریائی
سفرکا قصد فرمایا ۔ کشتی پر سوار ہوئے۔ دریا کے درمیان میں کشتی ٹھہر گئی ۔
اور اس کے ٹھہر نے کا کوئی سبب ِظاہر موجود نہ تھا ۔ ملاحوں نے کہا کہ اس
کشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے۔ قرعہ ڈالنے سے ظاہر ہوجائے
گا۔ قرعہ ڈالا گیا تو آپ ہی کا نام نکلا تو آپ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں تو آپ کو پانی میں ڈال دیا گیا۔
کیوںکہ اس وقت کا دستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ
کردیا جائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی ۔ بحکمِ الٰہی مچھلی نے آپ کو نگل
لیا آپ مچھلی کے پیٹ میں ایک دن یا تین دن یا سات دن یا چالیس دن رہے۔ آپ
علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکرِ الٰہی کی کثرت کی اور مچھلی کے پیٹ
میں ''لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ'' پڑھناشروع کر دیا تو اللہ جل شانہ، نے مچھلی کو حکم دیا تو
اس نے سیدنا حضرت یونس علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دریا کے کنارے
ڈال دیا ۔
مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث آپ ایسے ضعیف اور نازک ہو گئے تھے جیسا کہ
بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے ۔ جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی۔ بدن پر کوئی بال
باقی نہ رہ گیا تھا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے کدو کا درخت اگا دیا ۔ جو آپ پر
سایہ کرتا تھا اور مکھیوں سے محفوظ رکھتا تھا ۔ اور بحکمِ الٰہی ایک بکری
روزانہ آتی اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دودھ پلا جا تی ۔ یہاں تک کہ
جسم مبارک کی جِلد شریف یعنی کھال مضبوط ہو گئی اور اپنے موقع سے بال جمے
اور جسم مبارک میں توانائی آئی ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ o یعنی ہم نے اس پر
کدو کا درخت اگا دیا۔
یہ کدو کا درخت آپ پر ذوالقعدہ کی سترہویں تاریخ کو اگایا گیا تھا۔ (فضائل
الایام والشہور ، صفحہ ٤٥٧، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
ذوالقعدہ کے روزے:
ہر ماہ ایام بیض یعنی قمری مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ میں روزے
رکھنا تمام عمر روزہ رکھنے کے برابر شمار کیا جاتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص
٤٩٨)حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے
تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے
کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے
مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس مہینہ کے
اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایاکہ اس
مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ (فضائل
الایام والشہورصفحہ ٤٥٧ بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)
ذوالقعدہ کے نوافل:
حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار کعات نفل پڑھے
اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریفکے بعد ٣٣ دفعہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ
پڑھے تو اس کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا
اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ،
جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دو ٢ رکعات نفل
پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تین بار
پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار٤ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں
الحمد شریف کے بعد اکیس٢١ بارقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھے تو اللہ تعالیٰ
اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔
اور فرمایا کہ جو کوئی پنج شنبہ (جمعرات) کے دن اس مہینہ میں سو ١٠٠ رکعات
پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریفکے بعد دس ١٠مرتبہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ
اَحَدٌپڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٥٧،
٤٥٨ ، بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)
ماہِ ذی القعدہ کی چاند رات کو تیس رکعات پندرہ سلام کے ساتھ پڑھے ہر رکعت
میں سورہئ فاتحہ کے بعد سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ ایک مرتبہ پڑھے
بعد سلام کے عَمَّ یَتَسَا ءَ لُوْنَ ایک مرتبہ پڑھے۔ نویں تاریخ ماہ ذی
القعدہ کو ترقی درجات کے واسطے دو رکعات نفل پڑھے اور دونوں میں سورہئ
فاتحہ کے بعد سورۃ مزمل پڑھے اور سلام کے بعد تین بار سورہئ یٰسین کا ورد
کرے اس مہینے کے آخر میں چاشت کے بعد دورکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں
سورۃ القدر تین تین بار پڑھے اور سلام کے بعد گیارہ بار درود شریف اور
گیارہ بار سورہئ فاتحہ پڑھ کر سجدہ کرے اور جناب الٰہی میں دعا مانگے تو جو
کچھ مانگے گا ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (لطائف اشرفی حصہ دوئم، صفحہ
٣٥٢) |