حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے:رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی
بارگاہ میں پیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں
نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری
شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے
گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں
قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں
بہتر اجر سے نوازے گا۔
چاند رات فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر
جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتا ہے کہ بتاو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے
تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد ﷺکے روزہ داروں
کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام
کی رات کے نام سے مشہور ہے۔ ایک لمحہ رک کر سوچیں!ہم میں سے کتنے ہیں جو اس
رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے
ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور
نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔
اور فرماتا ہے:اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم
کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے
مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی
سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے
اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین
کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے
مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ
بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔
عیدالفطر کا تہوار اس امر پر خوشی کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے
دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فصل اکٹھی کی ہے۔ اس مبارک مہینے کے دوران جو
تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس اور اپنے اوپر ضبط حاصل کیا جاتا
ہے، اسے سال کے باقی مہینوں میں برقرار رکھا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی
میں بھی اسے استعمال میں لایا جائے۔ عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں
نےرمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر
کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے
ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں
ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے : لیس العید
لمن لبس الجدید۔۔۔۔نما العید لمن خاف الوعید "عید اس کی نہیں جس نے نئے اور
زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔" یعنی رمضان
المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری
کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن
حکیم کے الفاظ میں: کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و
خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی
ہوگی (سورہ عبس)۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ
تعالی نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہذا اس دن وہ خوش ہوں گے اور
یقینا ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی
ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و
صیام کے بارے میں اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن
وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت
پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا
وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی
عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے
شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن
کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا
ہے۔ اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر
___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں
اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے
ولا اعلان اذان اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے
سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت
عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! اللہ اکبر ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا
ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ
تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان
ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جاﺅ: اللہ اکبر، اللہ اکبر،
لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالی کے ساتھ جڑے
تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان
ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے
بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو
معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم
ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و
جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں
قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس
صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں
گے۔اللہ تعالی سورہ محمد ﷺ میں فرماتے ہیں: ”اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت
پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی
عطا فرماتا ہے“۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری
رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔
لہذاللہ اور اسکے حبیب ﷺکے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔
امت محمدیہ ﷺ کا ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ایمان ہے۔ اسے ایمان
کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت
کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالی پر ایمان کے
جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین امت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی
رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے
بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولیدؓ، طارق بن زیادؒ اور صلاح
الدین ایوبی ؒکا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس امت کے دشمن
خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ امت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔
نبی کریم ﷺنے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح
ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسول
اللہ ﷺفرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت
اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو
کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی
بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں
کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن
المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ ان پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا
اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔اس امت کے
لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن و سنت رسول ﷺ ہی ہے، انسانوں کے وضع
کردہ قوانین نہیں۔ کتاب و سنت ہی اسے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر
یہ فرض ہے کہ ہم ان کی طرف واپس آئیں اوران کی ہدایت پر چلیں۔
آج ہمارا عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد ومدارس، ہماری جان
ومال اور عزت وآبرو سب خطرے میں ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر سطح پر مسلمانوں
کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے سستی چیز مسلمان کی جان ہے۔
خون مسلم کی ارازانی کا ہم برما، عراق، شام، فلسطین، افغانستان ، چیچنیا،
صومالیہ، مالی ،آسام اور دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔ غور کریں کہ
آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس واسطے ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم
میں اتفاق واتحاد نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہو جانے کے بعد مسلمانوں
کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں۔ آج ان کی کوئی اجتماعی فوج اور طاقت نہیں۔
ان میں کوئی رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ
سے الگ ہو جانے والی بکری کی طرح باری باری انسان نما بھیڑ یوں کا شکار
ہورہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ "و لینصرن اللہ من ینصرہ"، ) اور جو شخص اللہ کی مدد
کرتا ہے یقینا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے)۔رب العالمین تاکید کے ساتھ فرماتا
ہے کہ اگر تم اس کی مدد کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا؛ اگر معمولی اور
مادی نگاہوں سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ یہ غیر ممکن نظر آئے؛ لیکن بہت سی
چیزی بعید از قیاس نظر آتی تھی جو واقع ہوئیں۔دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں
نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جدوجہد کی اللہ نے ان ظلم سے نجات دی۔ مصر،
لیبیا، تیونس، مراقش، ترکی اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ کیاکچھ عرصہ قبل تک یہ
تصور کرسکتے تھے کہ ساری دنیا کی باطل طاقتوں کی پشن پناہی کے باوجود یہ
وہا ں کے مسلمانوں کے عزم اور جہد مسلسل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ اور راہ فرار
اختیار کرلی اور ذلت کا نمونہ بن گئے۔ بقول شاعر : جہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں
پناہ ۔۔اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں۔
عیدالفظر کا پیغام شوکت و عروج کا پیغام ہے۔ یہ عروج ہمیں صرف رجوع الی
الاسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہی ہمیں اندھیروں
سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے غیروں کی پیروی کی، تقلید کی
، نقالی کی۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی
فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی
میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی،
اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔اللہ تعالٰی فرماتے
ہیں۔”اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے
ہرگز بھی قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے
ہوگا۔“
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی ﷺ طریق ہائے کار اور عظیم ورثہ
موجود ہے۔ لہذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز
ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے
قرآن، آسمانی ہدایت اور نبوی ﷺ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں
ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول ﷺاللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔
ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے
کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی
مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں
اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ
جدوجہد عزم و ہمت اور ارادوں کی جدوجہد ہوگی۔ جس فریق یا عزم و ارادہ زیادہ
قوی ہوگا غلبہ اسی ہوگا، غالب وہی ہے۔ جس کا دل اللہ تعالی پر بھروسے اور
توکل سے مالامال ہے، وہی غالب ہے۔ ارشاد ہے: "ِن ینصرم اللہ فلا غالِب"؛
(اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا)۔
عظیم فیصلے اور عظیم ارادے عظیم دنوں میں ہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو
عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب
سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ ؓنے عرض
کیا: فرشتوں کا۔ آپؓ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب
کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپ ﷺنے فرمایا: وہ کیوں
نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض
کیا: تو پھر ہمارا۔ آپؓ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں
تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ
عجیب ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی
ایمان لے آئیں گے۔
اللہ کے رسولﷺ کی بشارت ہمارے ساتھ ہیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ اسباب
کی دنیا کے سارے وسائل بروئے کار لائیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں علوم اور
ٹکنولوجی کو مسخر کریں۔اپنے آپ کو ایمانی اور مادی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔
اللہ تعالی ضرور ہماری حالت بدلیں گے، امت مرحوم کودوبارہ عروج نصیب
ہوگا۔ساری دنیا دوبارہ امن کا گہوار بنے گی۔ عیدالفطر ہمیں موقعہ فراہم
کررہا ہے کہ ہم تجدید عزم کریں اور تازہ دم ہوکر جہد مسلسل کے لئے تیار
ہوجائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما
بانفسہم (الرعد)ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب
تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ربنا اتنا من لدنک رحمت وھیی لنا من
امرنا رشدا (الکہف)ترجمہ :خدایا! ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا
معاملہ درست کر دے۔ |