قرآن مقدس کی روشنی میں انبیائے کرام کی عیدوں کا تصور

قرآن مقدس ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کے ہرراستے پر ہدایت کا سامان فراہم کرتی ہے۔یہ کتاب جہاںعبادت وریاضت کاحکم دیتی ہے وہیںاندازخوشی بھی عطا کرتی ہے ۔ خوشیاں منانے میں بھی مذہب اسلام ہمیں کسی اور کا مقلد نہیں بناتا ہے بلکہ قرآن مقدس کے ذریعے مکمل ضابطہ اور دستور فراہم کرتا ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں چار انبیائے کرام کی عیدوں کا ذکر فرمایا ہے۔عید سعید کے مبارک موقع پر قارئین کی خدمت میں اجمالاً ذکر کیا جاتا ہے۔

ملت ابراہیمی کی عید
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ملت کے لئے ایک عید تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:” پھر اس نے (حضرت ابراہیم علیہ السلام) ستاروں کودیکھا پھر کہا میںبیمار ہونے والا ہوں“۔(پارہ23،سورة الصافات،آیت۸۸)۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی قوم کی عید کا دن تھا۔وہ لوگ عید منانے شہر کے باہر نکلے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ان کے مذہب سے الگ تھلگ تھا۔ آپ ان لوگوں کے ساتھ( عید منانے) نہیں گئے اور بیمار بن گئے، جب لوگ شہر کے باہر چلے گئے تو آپ نے تیشہ(کدال) اٹھایا اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا اور اس کے بعد تیشہ بڑے بت کے کاندھے پر رکھدیا، جب قوم ابراہیم واپس آئی تو اس نے اپنے بتوں کی یہ درگت بنی دیکھی، انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ ہمارے بتوں کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟(اس کا پورا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے )حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے رب کی عزت کی خاطر جوش آیا اس لئے انھوں نے غصہ میں تمام بتوں کوتوڑ ڈالا اور رب العالمین کی محبت میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اس کے صلہ میں رب العالمین نے آپ کو اپنی دوستی سے نوازا۔ ان کے ہاتھوں سے مردہ پرندوں کو زندہ کرایا ان کی نسل میں انبیاءمرسلین پیدا فرمائے اور ان کو حضرت خیرالمرسلین محمد مصطفےٰ ﷺ کا جدّا علیٰ بنایا۔

امت موسی علیہ السلام کی عید
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:” مقابلہ کا مقرر شدہ دن تمھارے لئے یوم زینت ہے“۔ یوم زینت کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے دشمن فرعون اور قوم فرعون کو ہلاک کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کو زینت بخشی۔ فرعون اور قوم فرعون کے ساتھ 72 یا 73جادوگر میدان میں نکل آئے تھے۔ ان جادوگروں کے پاس سو لاٹھیاں تھیں۔ ان جادوگروں نے لاٹھیوں کے خول میں پارہ بھردیا تھا اور اوپر سے ان پر رسیاں لپیٹ دی تھیں، سب لوگ گرم ریت پر سورج کے نیچے کھڑے تھے ۔تیز دھوپ میں کھڑے تھے ۔جب دھوپ تیز ہوئی تو پارہ میںحرکت پیدا ہوئی اور رسیوں سے لپٹی ہوئی لاٹھیاں دوڑنے لگیں۔ لوگوں کو گمان ہوا کہ وہ سانپ ہیں ،دوڑ رہے ہیں۔ حالانکہ لاٹھیاں غیر متحرک تھیں ان کے اندر پارہ متحرک تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں اپنی قوم کے بارے میں یہ خطرہ محسوس کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ جادوگروں کی اس شعبدہ بازی کو دیکھ کر ان ساحروں سے مرعوب ہوجائیں اورصحیح راستہ سے بھٹک کے راندہ درگاہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تم بھی اپنا عصاءزمین میں ڈال دو جو کچھ انھوں نے جھوٹ بنایا ہے تمھاری لاٹھی اس کو نگل لے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی وہ فوراً اژدہا بن کر ایک بڑے اونٹ کی طرح دوڑنے لگا ۔اس کی دو آنکھیں آگ کی طرح دہکنے لگیں اس اژدہے کو دیکھ کر ایک قیامت برپا ہوگئی ان لوگوں نے جادو کے زور سے جتنے سانپ دوڑائے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس اژدہا نما عصا نے ان سب سانپوں کو یکبارگی نگل لیا اورا س کی حالت میں کچھ فرق نہیں آیا ،نہ پیٹ پھولا،نہ حرکت میں کمی آئی ،نہ اس کی لمبائی چوڑائی میں اضافہ ہوا۔ چنانچہ بے اختیار ہو کر تمام جادوگر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر گئے ان جادوگروں کے سردار کا نام” شمعون“ تھا۔ سب جادوگر بیک زبان ہو کر پکار اٹھے” ہم ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے رب پر ایمان لائے “۔سانپ فرعون کے لشکر اور اس کی قوم کی طرف بڑھا، لوگ ڈور کر بھاگ نکلے ۔روایت ہے کہ اس بھگدڑ میں تقریباً پچاس ہزار آدمی مرگئے۔ اسی دن کا نام ”یوم الزینہ“ رکھا گیا اور یہ امت موسوی کاعید کا دن ہے ۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی امت کی عید
اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی دعا نقل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔”اے اللہ اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلے پچھلوں کے لئے عید ہوجائے“۔(پارہ۷،سورة المائدہ،آیت114) واقعہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا آپ کا رب آپ کا یہ سوال پورا کر سکتا ہے کہ آپ اس سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تو کیا وہ یہ خوان نازل کر سکتا ہے؟ حضرت عیسیٰ السلام نے یہ سن کر فرمایا: اللہ سے ڈرو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو آزمائش میں پڑنے کا سوال نہ کرو کہ اگر خوان نعمت اتار دیا گیا اور تم نے پھر بھی اسے نہ مانا جھٹلایا تو تم پر عذاب نازل ہوجائے گا۔ حواریوں نے کہا کہ ہم بھوکے ہیں ہم اس میں سے کھانا بھی چاہتے ہیں اور ہمارے دلوں کو اس پر اطمینان ہوجائے جس پر آپ ایمان لانے اور تصدیق کرنے کو ہم سے کہتے ہیںاور ہم کو معلوم ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں۔ دوسرے لوگوں (بنی اسرائیل )کے سامنے جا کر ہم خوان نعمت نازل ہونے کی شہادت بھی دے سکیں گے۔ نبطی زبان میں حوارین کے معنی کپڑے دھونے اور سفید کرنے والے ہیں ان کی تعداد کل بارہ تھی۔ یہ حواری بیت المقدس میں کپڑے دھویا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :کون ہے جو کفر طغیان کے مقابلے میں میری مدد کرے اورد ین کو پھیلائے ؟ تاکہ میں ان کافروں کو اطاعت الہٰی اور اس کی وحدانیت کی طرف دعوت دوں ۔یہ سن کر حواریوں نے کہا ہم ہیں راہ خدا میں آپ کی مدد کرنے والے۔ حواری اپنا کاروبار چھوڑ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع اور پیروی پر آمادہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ ہوگئے ۔ انھوں نے جب ساتھ رہ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے سر زد ہونے والے عجیب معجزات دیکھے کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے اور اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو برابر معجزات دکھاتے رہتے مگر بنی اسرائیل آپ کا انکار ہی کرتے رہے آپ سے دور ہی ہوتے گئے اتباع اور تصدیق کی ان کو توفیق نہیں ہوئی یہاں تک کہ ایک دن ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزارجوان چلے اورانھوں نے حضرت عیسیٰ سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں اس طرح دعا کی۔ ”اے اللہ اے ہمارے پروردگار! آسمان سے ہم پر ایک خوان نعمت نازل فرمادے جو ہمارے لئے ہمارے زمانے کے لوگوں کے لئے بھی عید ہو اور آئندہ والوں کے لئے بھی اور تیری طرف سے میری رسالت کی نشانی بھی ہوجائے ہم کو رزق عطا فرما تو سب سے اچھا رزّاق ہے۔(پارہ۷،سورة المائدہ،آیت 114)

امت محمدیہ ﷺکی عید
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ترجمہ:بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی(پارہ30،سورة الاعلیٰ،آیت 15)اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ”ستھرا ہوا“سے مراد صدقہ فطر دینااور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔(تفسیر مدارک واحمدی)حضرت وکیع بن جراح نے فرمایا ہے کہ ماہ رمضان کے لیے صدقہ فطر کی وہ حیثیت ہے جو نماز کے لیے سجدہ ¿ سہو کی۔حضور ﷺ نے فرمایا:جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ فرماتا ہے ائے میرے بندو!تم نے میرے لیے روزے رکھے،میرے لیے نمازیں پڑھیں،اب تم اپنے گھر کو اس حال میں جاﺅ کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکی طرف اس دن فرحت وشادمانی کا باربار لاتا ہے یعنی عید وعود ہم معنی ہے۔عید کے دن اللہ کی طرف سے بندے کو منافع،احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں۔بعض علماءکا کہنا ہے کہ عید کو عید اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے اللہ پاک فرماتا ہے کہ اب تم مغفور ہوکر اپنے گھروں اورمقامات کو لوٹ جاﺅ۔حضرت وہب بن منبہ کا رضی اللہ عنہ کا قو ل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوم فطر کو جنت پیدا فرمائی اور اسی دن عرش پر درخت طوبیٰ لگایا،حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی کے لیے منتخب فرمایااور اسی دن فرعون کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے پیش ہونے والے ساحروں نے توبہ کرکے مغفرت پائی۔

(ماخوذ:قرآن مقدس ترجمہ کنز الایمان وتفسیر خزائن العرفان،غنیة الطالبین،ماہ رمضان کیسے گزاریں؟)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675252 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More