پاکستان کے قبائلی علاقوں میں
امریکی ڈرون طیاروں کے حملے کا سلسلہ سابق مشرف دور سے جاری ہے اوران حملوں
میں تحریک طالبان کے متعدد اہم کمانڈر ہلاک ہوئے ہیں۔ان میں ایسے کمانڈر
بھی ہلاک ہوئے جو پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین حملوں میں ملوث تھے۔اس کے
ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ان ڈرون طیاروں کے حملوں پر پاکستان
کے مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے اور اسے پاکستان کی خود مختاری
اور حاکمیت کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان بھی ان ڈرون حملوں پر
متعدد بار امریکی حکومت سے ”احتجاج“ کر چکی ہے اور اب عید الفطر کے دن سے
جاری مسلسل حملوں پر بھی پاکستان نے احتجاج کیا ہے ۔تاہم اس کے باوجود
امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور مسلح گروپوں کے کمانڈر اور ارکان
مارے جا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے تعلق رکھنے والا ایک شخص
احسان عزیز اپنی اہلیہ کے ہمراہ 18اگست کو شمالی وزیر ستان میںامریکی ڈرون
طیارے کے ایک حملے میں ہلاک ہو ا۔ڈرون حملوں سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی
ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ سے فضائی دیکھ بھال کا
نظام بہتر بنانے کے’سسٹم‘ حاصل کرنا چاہتا ہے جس میں ابھی تک کامیابی نہیں
ہوئی دوسری طرف دہشت گردوں کے مہران ایئر بیس اور کامرہ میں حملوں میں
فضائی دیکھ بھال کے طیاروں کی تباہی سے پاکستان کی اس صلاحیت کو شدید نقصان
پہنچا ہے۔
یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میں
امریکہ کااہم اتحادی ہے اور پاکستان کے تعاون سے امریکہ کو اس جنگ میں کئی
اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔اس کے باوجود اسی موضوع سے متعلق کئی امور
ایسے ہیں جن پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے اور کشیدگی
دکھائی دیتی ہے۔امریکہ پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ افغان حقانی گروپ کے
خلاف فوجی کاروائی کی جائے جن کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ
ٹھکانے موجود ہیں۔اسی حوالے سے امریکہ شمالی وزیر ستان میں فوجی کاروائی
کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ فوجی حلقوں کی طرف سے واضح کیا جاتا ہے کہ فوج
پاکستانی علاقوں میںخود کاروائی کرے گی ۔
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کی ابتداءامریکہ و یورپ پر حملے کی
صلاحیت رکھنے والے گروپوں کے خلاف جنگی کاروائیوں سے ہوئی ۔اب افغانستان
اور پاکستان میں یہ لڑائی ایک الگ ہی صورتحال لئے نظر آتی ہے جس میں
افغانستان پر حکومت کا عوامی حق مخصوص عناصر میں محدود کرنا بھی ایک اہم
امر ہے۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ افغانستان میں روسی مداخلت کے
خلاف مسلح جدوجہد کے لئے امریکہ کے تیار کردہ عسکری گروپ اب افغانستان اور
پاکستان میں حکومتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔اب تک یہ بڑے راز ہیں کہ کئی
ملکوں کی اتحادی افواج اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار گروپوں کو کون
’سپورٹ‘ کر رہا ہے؟ جدید و موثر امداد کے بغیر یہ گروپ کچھ بھی نہیں کر
سکتے۔سابق مشرف دور میں جب تحریک طالبان نے پاکستان میں اپنی دہشت گرد
کاروائیاں تیز کیں تو اس دور میں ان گروپوں کی وڈیو فلموں میں ان کے نئے
کالے لباس،نئے چمکتے ہتھیار نمایاں طور پر محسوس ہوتے تھے۔بدقسمتی سے ہماری
حکومت بھی ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں کرنے والے
گروپوں کو کون کون سپورٹ کر رہا ہے جن کی مدد سے یہ عناصر اہم سے اہم
مقامات پر بھی حملے کرتے ہوئے نقصان پہنچا دیتے ہیں۔افغان اور قبائلی امور
کے ماہر پاکستان کے کئی تجزیہ نگار تحریک طالبان پاکستان کی اس بات کو
دہراتے ہیں کہ ” اگر افغانستان میں مسلح حملے جائز ہیں تو پاکستان میں کیوں
جائز نہیں؟“۔ یہ تجزیہ نگار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان
مسلح گروپوں کے گڑھ ہیں لیکن وہ وہاں فوجی کاروائی کے بجائے پالیسیوں میں
تبدیلی لانے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔اگر پاکستانی علاقوں میںامریکہ ڈرون
حملوں کا سلسلہ ختم کرانا ہے تو ہمیں ملک کے تمام علاقوں میں حکومتی ”رٹ“
کو مضبوط بنانا ہو گا۔اگر بھارت بنگلہ دیش سے ملحقہ سرحدی علاقے سے لیکر
کشمیر و کرگل تک خار دار تاروں کی باڑ اور جدید نظام نصب کر سکتا ہے تو
پاکستان کو بھی افغانستان سے ملحقہ تمام سرحد پر اپنا مضبوط ”چیک“ قائم
کرنا چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اشد ضروری ہے کہ پاکستان کے ارباب
اختیار ایسے خفیہ ایجنڈوں پر کام نہ کریں جن کے متعلق وہ عوام کو کچھ بھی
بتانے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
افغانستان پاکستان کے لئے بہت اہم ہے لیکن متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے
باشندے اس بات پہ حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان کی شہہ رگ کی طرح کی اہمیت کے
حامل مسئلہ کشمیر پر اتنی توجہ نہ دی گئی جس طرح افغانستان سے متعلق
”گمنام“ قومی مفادات کے لئے پاکستان کو تباہی و بربادی کی راہ پہ ڈالتے
ہوئے سنگین ترین خطرات سے دوچار کر دیا گیاہے۔ حکومت عوام سے دہشت گردی کے
خلاف بھرپور حمایت کی خواہاں ہے لیکن اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیا
جاتا ہے کہ اس خفیہ امور پر مبنی معاملے میں قومی مفادات و پالیسی کے تعین
کے بغیر عوام ان پالیسیوں کی قومی مفادات کے حوالے سے حمایت کیسے کر سکتے
ہیں؟خصوصا اس صورتحال میں کہ جب عوام کو حقائق ہی نہیں پالیسیوں سے بھی بے
خبر رکھے جانے کا چلن عام ہے۔ |