از قلم:مولانا سیدمحمد امین
القادری صاحب(نگراں سنی دعوت اسلامی،مالیگاﺅں،انڈیا)
٭ غسل میت :میت کو نیم گرم پا نی سے غسل دینا مستحب ہے کیونکہ ٹھنڈے پانی
کے مقابلے میں گرم پانی جسم سے میل کچیل اور آسانی سے دور کرتا ہے ۔دورِرسا
لت میں بیری کے پتوں میں جوش دے کر نیم گرم پانی سے غسل دیا جا تا تھا
چنانچہ ام عطیہ رضی اللہ عنہاروایت فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی صاحب
زادی سیدتنا ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے تو حضور ﷺ نے فرما
یا :اسے تین مرتبہ یا اس سے زیا دہ مناسب سمجھو غسل دو ۔غسل بیری اور پانی
سے دینا آخر میں کچھ کا فور ملا ہوا پانی بہا نا (بخاری ،مسلم ،فتا ویٰ
رضویہ )۔ بہتر یہ ہے کہ میت کو غسل دینے وا لا میت کا سب سے قریبی رشتہ دار
ہو اگر وہ موجود نہ ہویاموجود تو ہو مگر نہلا نے کا مسنون طریقہ نہ جا نتا
ہو تو اس صورت میں کوئی پر ہیز گا رمتقی میت کو غسل دے ۔میت کے بالوں میں
کنگھی کر نا ناخن تراشنا مکروہ تحریمی ہے ۔(در مختا ر )۔ام المومنین سید
تنا عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے دیکھا کہ ایک عورت میت کو کنگھی کی جارہی
ہے تو آپ نے فرما یا :کیوں میت کو تکلیف پہنچا رہے ہو ۔(مصنف عبدالرزاق)
٭کفن کے احکام :کم علمی کی وجہ سے لوگ صاحب ِحیثیت ہو نے کے با وجود بہت
معمولی کپڑوں میں کفن دیتے ہیں حالا نکہ کفن اچھے قسم کا ہو نا چاہئے یعنی
میت عید ین ، جمعہ اور خاص محفلوں میں جیسے اچھے کپڑے پہنتی تھی اسی قیمت
کا ہو نا چاہئے (درالمختا ر )۔حضور سید عالم ﷺنے ارشا د فرما یا :اپنے
مردوں کوکفن دو تو اچھا دو (مسلم )دوسرے مقام پر فرمایا :مردوں کو اچھا کفن
دو کہ وہ آپس میں ملا قات کر تے ہیں (مرقاہ ،شرح مشکوٰة )۔اچھے کا مطلب یہ
نہیں کہ بہت مبا لغہ کیا جائے ۔حیثیت سے زیا دہ تکلف نہ کرو کیونکہ اسلام
افراط و تفریط سے پاک ہے ۔مولیٰ علی رضی اللہ عنہنے فرما یا کہ مصطفیٰ جا ن
رحمت ﷺنے کفن میں مبا لغہ کرنے سے منع فرما یا کیونکہ وہ جلد خراب ہو نے
والا ہے ۔
٭مردوں کو برا نہ کہو:مختا ر کائنا ت مصطفیٰ جا ن رحمت ﷺنے فرما یا :مردوں
کو برا مت کہو کہ وہ اپنے کیے کو پہنچ چکے (نسائی )۔ایک اور مقام پر فرمایا
:اپنے مردوں کو بھلا ئی کے ساتھ یا د کرو اگر وہ جنتی ہےں تو برا کہنے میں
تم گنہگا ر ہو ں گے اور وہ اگر دوزخی ہےں توانہیں عذاب ہی بہت ہے جس میں وہ
ہیں (فتاویٰ رضویہ )۔تر مذی شریف کی حدیث میں ہے :مردوں کو برا نہ کہو کہ
اس کے با عث زندوں کو ایذا دو ۔ابوداﺅد شریف میں ہے :ماں عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ رسول اعظم ﷺنے فرمایا جب تمھاراساتھی مر جا ئے تو
اسے معا ف رکھو اس پر طعن نہ کرو۔
٭تدفین کے احکام :قبر کی گہرا ئی انسان کے سےنے تک ہو اور زیا دہ گہری ہو
تو افضل ہے کیونکہ اس میں درندوں سے حفاظت ذیا دہ ہے ۔(شرح نقایہ )قبر دو
قسم کی ہو تی ہے ایک لحد یعنی بغلی دوسری صندوقی ۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے لئے
لحد یعنی بغلی قبر کو پسند فرما یا ارشاد فرما تے ہیں :ہمارے لئے لحد اور
دوسرے کے لئے مشق (صندوقی )ہے ۔ (ابوداﺅد )قبر میں اتارنے کیلئے قریبی رشتہ
دار ہو تو بہتر ہے ورنہ کو ئی متقی پرہیز گا ر اتا رے ۔میت کو دا ہنی کر وٹ
پر لٹا ئے اور یہ دعا پڑ ھتے ہو ئے بسم اللہ وعلی ملةرسول اللہ ۔(ترمذی
،ابن ما جہ ،درمختا ر )
٭مٹی دینے کے اداب :میت کو قبر میں رکھ لینے کے بعد قبر کو تختوں سے بند کر
دیں اور پھر قبر پر مٹی دی جا ئے ۔مستحب یہ ہے کہ اپنے دونوں ہا تھوں سے لپ
بھر کر تین مر تبہ قبر کے اوپرمٹی ڈالیں مٹی ڈالنے کی ابتدا ءسرہا نے کی
جانب سے کرنی چاہئے ۔(عالمگیر ی ،بہاری شریعت )
مٹی ڈالتے وقت کی دعا:قبر پر مٹی ڈالتے وقت مندرجہ ذیل ترتیب سے پڑ ھیں
۔پہلی مربتہ ڈالتے وقت :منھا خلقنکم (یعنی ہم نے تم کو اسی مٹی سے بنایا )
دوسری مرتبہ ڈالتے وقت :وفیھا نعید کم (یعنی اور اس میں تم کو لوٹا رہے ہیں
)تیسری مرتبہ مٹی ڈالتے وقت:ومنھا نخرجکم تا رة اخریٰ(یعنی اور اس سے تم کو
دوبا رہ نکا لیں گے ۔(فتاویٰ شامی ،بہا رشریعت )پیش کردہ:عطاءالر حمن
نوری،انڈیا۔ |