سب خطوں کی مائیں ایک جیسی ہی
ہوتی ہیں۔ نامور ادیب احمد عقیل روبی نے اپنی ماں کی رحلت کے بعد ایک کتاب
کے انتساب میں اپنی ماں کو یوں خراج تحسین پیش کیا کہ
کاش وہ وقت بھی آئے کہ میں اپنے گھر میں
لوٹ کے آﺅں تجھے سامنے بیٹھا دیکھوں
منیر سیفی مرحوم نے اپنی ماں کو یوں یاد کیا کہ:
پھر اک روز میرا بیٹا میری مسند پہ آ بیٹھا
جب تک میری ماں زندہ تھی میں گھر میں شہزادہ تھا
دنیا کے کسی جابر سے جابر شخص کو بھی ٹٹولا جائے تو وہ اپنی ماں کی محبت
میں سرشار دکھائی دیتا ہے۔ مائیں ہی انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہیں اور
سنوارتی ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر جارج بش کی بھی یقینا ایک ماں ہے۔ کاش وہ
کبھی جارج بش سے پوچھتی کہ اس نے صرف اپنے ایک ایڈونچر کی خاطر ہزاروں
انسانوں کی جانیں کیوں ضائع کروا دیں۔ لگتا ہے جارج بش کی ماں کا نہ کوئی
کنٹرول اپنے بیٹے پر تھا اور نہ ہی اس نے اپنے خاوند پر کبھی کوئی دباﺅ
ڈالا وگرنہ سنیئر بُش نوے کی دہائی میں عراق پر حملہ آور ہو کر کویت کے تیل
کے کنوﺅں پر قبضہ نہ کرتا۔ امریکہ آج بھی کویت کے کنوﺅں کی حفاظت کے چکر
میں وہاں بیٹھا ہوا ہے۔ تیل میں کشش ہی ایسی ہے کہ کوئی بھی سپر پاور وہاں
ڈیرے ڈال سکتی تھی۔ سو امریکہ یہ حرکت کیوں نہ کرتا۔ بہرکیف سینئر بش کے
بعد ان کے فرزند ارجمند نے نائن الیون کو بہانا بنا کر افغانستان پر حملہ
کر دیا۔ اور نائن الیون کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ کو
ٹھہرایا۔ سچ پوچھئے تو جنوبی ایشیا کے خطے کے لوگوں نے القاعدہ کا نام پہلی
مرتبہ سنا تھا۔ بین الاقوامی طاقتوں کو تو ایک نام چاہئے تھا جس کو استعمال
کر کے وہ اس خطے کے مسلمانوں کی درگت بنا سکتے۔
بہرکیف ایک امریکی خاتون مرینہ بکلے کا بیٹا بھی اسی بین الاقوامی مقصد کی
تکمیل کے لئے افغانستان میںپوسٹ کیا گیا جس کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں فوجی
افغانستان بھیجے گئے۔ مرینہ بکلے آج بھی اپنے بیٹے کی ہلاکت کے غم میں
نڈھال ہے کہ وہ اسے زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کی بلائیں
لینا چاہتی تھی۔ اس سے اس کے تجربات بارے جاننا چاہتی تھی۔ لیکن قدرت کو
کچھ اور ہی منظور تھا کہ واپسی سے چند روز قبل اس فوجی کو افغانستان میں
ہلاک کر دیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ ہلمند کے قریب
واقع ایک بیس کے اندر دو امریکی میرینز کو ہلاک کر دیا گیا۔ حملہ آور کے
بارے میں مبینہ طور پر بتایا گیاکہ وہ امریکی آرمی کا تربیت یافتہ اور
افغان نیشنل آرمی کا اہلکار تھا۔ ان میرینز میں سے ایک اہل کار امریکی
خاتون مرینہ بکلے(Marina Buckley) کا بیٹا تھا جس نے کچھ عرصہ قبل اپنی
والدہ کو وطن واپس آنے کی خوشخبری سنائی لیکن واپسی سے ایک آدھ دن قبل ہی
وہ اپنے ہی تربیت یافتہ افغان اہلکار کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ مائیں سب
کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ امریکی ماں کا غم بھی اپنے بیٹے کے لئے وہی ہے جو
پاکستان میں مارے جانے والے 40ہزار شہریوں کی ماﺅں کا غم ہے۔
اس خطے کی مائیں تو آئے روز اس غم سے دوچار ہوتی ہیں ۔ایک ماں عافیہ صدیقی
کی بھی ہے۔ امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے حال ہی میں عافیہ
صدیقی کے معاملے پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی
بنا کر ایک خاتون کی زندگی تباہ کر دی گئی۔ افغانستان میں ہلاک ہونے والے
لانس کارپورل بکلے کی ماں کو تو شائد صبر آ ہی جائے کہ وہ اب اس دنیا میں
نہیں رہا اور ہر کسی نے اس دنیا سے جانا ہے لیکن عافیہ صدیقی کی ماں کا غم
تو کہیں بڑا ہے کہ وہ روز جیتی اور روز مرتی ہے۔ اُسے آج بھی بیٹی کی واپسی
کی امید ہے۔ لوگ نہیں مرتے انتظار انہیں مار دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر
لانس کارپورل بکلے کی ماں کوئی پلے کارڈ لے کر وائٹ ہاﺅس کے سامنے عافیہ
صدیقی کی رہائی کے لئے پرامن درخواست کرے۔ جب تک پوری دنیا کی مائیں اکٹھی
نہیں ہوں گی ماﺅں کے بچے مرتے رہیںگے۔ سلالہ میں شہید ہونے والے جوانوں کی
مائیں بھی ان کے انتظار میں ہیں۔ گیاری میں تودے تلے دب کر شہید ہونے والے
140سپوتوں کی مائیں بھی تو خوابیدہ آنکھیں لئے اپنے پیاروں کے لئے بیٹھی
ہیں ۔
مصر میں کسی خاتون کا پروفیشن تھا کہ لوگ اسے بھاری رقوم دے کر کسی فوتگی
پر لے جاتے وہ وہاں غم کے گیت گا کر محفل کو آبدیدہ کر دیتی ایک دن لوگوں
نے سنا کہ اس کا اپنا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ لوگ جوق درجوق اس کے گھر پہنچے
کہ آج دیکھتے ہیں وہ ماں اپنے بیٹے کے لئے کیا انداز اور کیا لفاظی استعمال
کرتی ہے۔ لوگ وہاں گئے توخاتون کہیں نظر نہیں آئی۔ تھوڑی تلاش کے بعد وہ
خاتون گھر کے ایک کونے میں غم سے نڈھال بیٹھی تھی اس کی زبان گنگ تھی اور
وہ آنے جانے والوں کو ساکت آنکھوں کے ساتھ دیکھے جا رہی تھی۔ یہ ہوتا ہے
کسی اپنے کا غم۔ امریکہ کے افغانستان میں صرف 2ہزار فوجی مارے گئے پاکستان
اپنے ہزاروں سپوت کھو چکا ہے۔ پاکستان کی ماﺅں کے غم کی شدت کہیں زیادہ ہے۔
امریکی فوجی کی ماں کا غم بھی ایک ماں ہی کا غم ہے۔ جن کی مائیں دنیا سے جا
چکی ہوتی ہےں وہ بھی ہمیشہ ان کے پاس ہی ہوتی ہے۔ میری ماں ستمبر 2001میں
خالق حقیقی سے جا ملیں میں آج بھی ان کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ انکی آہٹ آج
بھی مجھے ان دیکھے لمحوں سے دوچار کرتی ہے۔ بے قراری ہمیشہ رہتی ہے۔ میری
پنجابی غزل کا ایک شعر
اپنے پنڈ نوں جاوں کیکن
ٹر جاواں تے آواں کیکن
ماں باہھوں ہن کجُھ نئیں لبھدا
کٹھیاں کراں دعاواں کیکن
مائیں اٹھتے بیٹھتے اپنے بچوں کو یاد کرتی ہیں اور ان کے لئے دعائیں مانگتی
ہیں۔ امریکی فوجی کی ماں کے آنسو بلاشبہ کسی بھی انسان کو نم دیدہ کرنے کے
لئے کافی ہیں۔ اب ضروری ہے کہ امریکی مائیں بھی دنیا بھر بالخصوص افغانستان
اور پاکستان میں ہلاک ہونے والے شہریوں (چاہے وہ امریکہ کے ہاتھوں مارے جا
رہے ہوں یا شدت پسندوں کے ہاتھوں) کے غم کو محسوس کرتے ہوئے بین الاقوامی
سطح پر آواز اٹھائیں۔ امریکی مائیں اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے
لئے دوسرے خطوں کے بچوں کی حفاظت کے لئے تدابیر کریں وگرنہ ہر روز دنیا کی
کوئی نہ کوئی ماں اپنے لخت جگر کھوتی رہے گی۔ |