چلو!!ستمبر 1965میں جائیں

1962میں چین انڈیا جنگ میں انڈیا کو امریکہ اورسوویت یونین کی سرپرستی ہونے کے باوجود منہ کی کھانی پڑی اور اگر چین خود جنگ بندی نہ کرتا تو انڈیا کا وہ برا حال ہونا تھا جو اس وقت صومالیہ کا ہے اپنی اس ذلت و رسوائی کو دھونے کی خاطر انڈیا نے پاکستان پر چڑھائی کرنے کا اراد کیا اور اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے لائن آف کنٹرول کے مختلف مقامات پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔1965میں بھارت نے رن کچھ کے مقام پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ایک بار پھر ذلت اٹھا نا پڑی اس مسلسل ذلت و رسوائی پر بھارتی وزیر اعظم سیخ پا ہوگئے اور اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کرکے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔چنانچہ اپنے اس عزم کو پورا کرنے کی خاطر بھارت نے چھ ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا انڈیا کا منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کر کے ساتھ ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کے پاس اسلحہ بھی کم ہے اور فوج بھی کم ہے اسلئے پاکستان کو شکست دینا آسان ہوگا بھارت کواپنی فوج اور اسلحہ پر گھمنڈ تھا اسی گھمنڈ کو لیکر میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھامگر یہ گھمنڈ اسوقت پاش پاش ہوگیا جب ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا ستلج رینجرز کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک انڈین آرمی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے اور ایک ایک کر کے سب جام شہادت نوش کر گئے مگر جذبہ جہاد سے سر شار ستلج رینجر کا کوئی جوان نہ پیچھے ہٹا اور نہ ہی کسی نوجوان نے بھارتی اسلحہ و فوج کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔

وہ انڈین آرمی جس نے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا پو پھٹنے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی لاہور میں داخل ہونے کےلئے باٹا پور کے پل پر قبضہ ضروری تھا چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا بھارتی فوج یہ بھی جانتی تھی کہ پاکستان باٹا پور کا پل تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا لہذا بھارتی فوج نے پل کے اطراف میں فائرنگ کرنا شروع کر دی تاکہ پاکستان اپنے اس ارادے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور بھارتی فوج آسانی سے پل پار کر کے لاہور میں داخل ہوسکے ۔پل تک دھماکہ خیز مواد پہنچانے کےلئے پاکستانی فوج کوشش کرتی رہی اسی کوشش میں ایک جوان شہید ہوگیا اس کے بعد چند رضا کاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا اس پر ریت ڈال کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑ ا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے اور اسطرح بھارتی امیدیں خاک میں شامل ہوگئی ۔

باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارتی فوج کو چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے کرچی کرچی خواب اٹھاتے اور واپس بھارت آجاتے مگر طاقت کے نشے میں بدمست بھارتی فوج نے بھینی کے محاذ پر دباﺅ سخت کر دیا یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے ۔اب دشمن نے اپنا ارادہ بدلہ اور ارادہ یہ بنایا کہ راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دیا جائے اپنے اس ارادے کی تکمیل کےلئے دشمن نے انیس حملے کئے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار گولے برسائے مگر اس بار بھی دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور دشمن کو پسپا ہونا پڑا۔

برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی دشمن نے دوبارہ صف بندی کی اور زیادہ طاقت اور زیادہ شدت سے حملہ کیا مگر پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپ خانوں کے گولوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئے ۔10ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کئے جنہیں پسپا کر دیا گیا 10اور 11ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا مگر اس بار میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں جوانوں نے وہ جواب دیا جسکی وجہ سے دشمن کو ایک بار پھر اپنی صف بندی کرنی پڑی رات بھر میجر عزیز بھٹی نے دشمن کو روکے رکھا صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاﺅں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا12ستمبر کی صبح میجر عزیز بھٹی نے ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔

بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کےلئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویژن فوج صف آراءکی اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاﺅں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کےلئے منتخب کیا گیا تھا اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آراء تھی ۔یہاں دشمن نے 14بڑے حملے کئے مگر پاکستانی جوانوں نے ایک انچ بھی دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا ۔قصور کے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہر کیا اور ساتھ ساتھ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آگئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی دشمن کے ساتھ ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی جس کی وجہ سے بھارتی آرمی بھاگ گئی تو آٹھ ستمبر کو پاکستان نے کھیم کرن پر قبضہ کرلیا بھارتی کمانڈ ر انچیف نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو مزید کمک بھیجی تاکہ کھیم کرن واپس لیا جاسکے مگر پاکستانی آرمی نے دشمن کی پیش قدمی کو انتظار کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر دشمن کے حوصلے پست کر دئے۔موضع نور کی چوکی صرف ایک ہی پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کر لی ان مقامات پر شکست کھانے کے بعد موضع پکا میں دشمن نے دفاعی پوزیشن لے لی اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود تھا پاکستانی فوج کی ایک کمپنی نے توپوں اور مشین گنوں کی اندھا دھند فائرنگ سے دشمن کی یلغار روک دی اور اس مقام پر بھی دشمن کو منہ پر کھانی پڑی ۔

لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریباً پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریباً نو ہزار جوان میدان میں آئے ۔بھارتی منصوبہ یہ تھا کہ جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے پر دو مقامات پر پاکستانی فوج الجھ جائے گی تو حملہ آور فو ج درمیان سے گزر کر پسرو ر سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر پہنچ جائے گی ۔جسٹر کے مقام پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈ پر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوادئے ۔8اور 9ستمبر کی درمیانی رات بھارتی فوج نے چونڈ ہ کے محاذ پر حملہ کردیا اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمرڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کو موجود تھیں جنگ کا میدان گرم ہوا تو پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیوہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ۔دشمن کا پروگرا م 24گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر اب 72گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اترا اور اسطرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا گولہ بارود سے فضاءدھواں دار تھی پاکستانی ہیڈ کوارٹر نے حکم دی تھا کہ جب تک آخری جوان باقی ہے اور ایک بھی گولہ موجود ہے چونڈہ کا دفاع کیا جائے۔

بھارتی جرنیلوں کے پاس تازہ دم فوج ، ٹینکوں اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی وہ سترہ ستمبر کو تازہ دم فوج میدان میں لے آئے اور چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے ۔ٹینکوں کے انجن بند کردئےے گئے تھے تاکہ دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہوسکے جب دشمن کی پوری جمیعت اپنی کمین گاہ سے نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دیا دشمن کے صرف 105سپاہی زندہ بچے جنہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔بھارت چاہتا تھا کہ پاکستانی فوج کو کارگل سے لیکر تھر پارکر تک تقریباً ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کر دیا جائے چنانچہ راجستھان کے محاذ پر بھارتی فوج کی ایک پیدل بٹالین نے ٹینکوں کے دواسکوارڈرنوں کی مدد سے گدرو پر حملہ کر دیا یہاں مٹھی بھر رینجرز نے دشمن کی یلغار کو تین گھنٹے تک روکے رکھا اور آگے بڑھ کر مونا باﺅ پر گولہ باری شروع کر دی اس اسٹیشن سے بھارتی فوج کو رسد پہنچ رہی تھی صرف سترہ گولے برسانے سے دشمن پسپا ہو گیا اور مونا باﺅ پر قبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی کٹ گئی ۔سندھ کے محاذ پر روہڑی ، کھاری ، جے سندھ اور متراکی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کر لیا حیدر آباد کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والی بھارتی فوج ایک ہزار دو سو مربع میل کا علاقہ گنوا بیٹھی ۔

لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد چھ سپر طیارے فضاءمیں ایک دم نمودار ہوئے اور پورے بیس منٹ تک دشمن پر بموں ، راکٹوں اور گولیوں کی بارش کرتے رہے پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کی رکھ دی اس کارنامے کے بھی سر خیل سجاد حیدر ہی تھے انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کی بارہ جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دئیے اسکے علاوہ اڈے کو مزید کام دینے کےلئے ناکارہ بھی کر دیا ۔فضائی معرکے کا ایک قابل تحسین معرکہ ایم ایم عالم کا ہے انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ طیارے گر اکر ریکارڈ قائم کر دیا ۔اسکے بعد بھارتی فضائیہ کو سرگودھا کی طرف جانے کی جرات نہ ہوئی ۔انبالہ کے دفاعی انتظامات کی بڑی کہانیا ں مشہور تھی اور یہ خطرات پاکستانی ہوا بازو ں کےلئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔21ستمبر کو سحر سے ذرا پہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان دو بی 57بمبار طیارے لیکر آسمان کی وسعتوں میں نمودار ہوئے انہوں نے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا دشمن نے بے پناہ گولہ باری کی مگر دونوں جوانوں نے کمال حوصلے اور شجاعت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کر دیاانبالہ کا دفاعی انتظامات کا غرور آن واحد میں خاک میں مل گیا سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرات مند ہوا بازوں نے 35طیاروں کو دو بدو مقابلے میں اور 43کو زمین پر ہی تباہ کر دیا 32طیاروں کو طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔بھارت کے مجموعی طور پر 110طیارے تباہ کردئیے گئے اس کے علاوہ ہماری فضائیہ نے دشمن کے 149ٹینک ، 200بڑی گاڑیاں اور 20بڑی توپیں تباہ کردیں اسکے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے ۔

پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یاد گار حصہ بن چکا ہے دوارکا کی تباہی کاچرچا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے پاس اسلحہ اور فوج بھارت کے مقابلے میں بہت کم تھی اور یہی وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے تمام دنیا حیران و ششدر تھی ۔لیکن دنیا کو کیا معلوم کہ جذبہ جہاد اور شہادت کے شوق نے پاکستانی افواج اور نہتے پاکستانی عوام کو طاقتور ترین دشمن کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ۔اس جنگ میں دشمن نے جہاں جہاں بھی حملہ کیا وہاں وہاں دشمن کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔اس جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے جس بہادری اور حب الوطنی کا مظاہر ہ کیا وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں لیکن ان افواج کو حوصلہ اور تقویت عطا کرنے میں پاکستان کی غیور عوام کا بھی نہایت اہم کردار ہے یہی وہ عوام ہے جس نے ڈنڈوں کے ذریعے جنگ میں شرکت کا ارادہ کیا اور ہر وقت اپنا سب کچھ اپنی فوج پر نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے اسی جذبے اور ہمت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی افواج بھارت کو ہر محاذ پر ناکوں چنے چبو ادئے۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.