کیا دنیا میں، بالخصوص اپنے
پیارے پاکستان میں کوئی ایسا شخص ہوگا جو پکوڑے جیسی لذیذ نعمتِ خداوندی سے
منہ موڑے ؟ بھاویں کوئی بچہ ہو دو سال کا یا بابا ہو دو سو سال کا، چاہے
منہ میں دانت ہوں یا نہ ہوں۔ بیسن، آٹے، میدے ، آلو، پیاز ، مصالحوں وغیرہ
سے بنے اور گھی یا تیل میں تلے ہوئے اس متنجن کو کھانےسے کوئی کافر انکار
نہیں کر تا۔ ابھی پچھلے چند روز پہلے پاکستانی قوم نے اگر چہ اولمپکس میں
تو ایک جھنجنا بھی نہ جیتا پر ہر سال کی طرح اس سال بھی روزوں میں پکوڑے
کھانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرے گولڈ میڈل ضرور جیت لیا۔ وہ یوں کہ کسی بھی
خاتون سے پوچھو تو کہتی ہیں کہ جی پکوڑوں کے بغیر کھانا نیچے ہی نہیں اترتا
اور یہ کہ جی پکوڑوں کے بغیر بھی بھلا کیا افطار۔؟مرد سے پوچھو توکہتے ہیں
کہ یار منہ چر چرا کرنے کو پکوڑے لازمی چاہییں۔ بچوں کی کیا پوچھتے ہیں کہ
آدھے پکوڑے تو یہ مخلوق پکتے پکتے ہی ڈکار جاتی ہے۔ اور تو اور ڈیڑھ دو سال
کے چھوٹے منے میاں کو بھی اسکا ذائقہ خوب بھاتا ہے کہ ماں کا دودھ چھوڑ کر
کچن میں پکوڑے لینے پہنچ جاتا ہے۔
دیکھ پکوڑے منا بھی منہ نہ لگائے ہے دودھ کو
ذرا اسکی عمر تو دیکھو ، اور ذائقہ زبان کا
اور پھر سی سی کر تا سب سے مم مم مم کرتا پانی مانگتا پھر تا ہے پر پکوڑے
کھانا نہیں چھوڑتا ۔ بعض خواتین اور حضرات کو تو ہم نے سحری بھی پکوڑوں سے
کر تے دیکھا، وجہ تسمیہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سحری میں بھی روٹی بغیر
پکوڑوں کے حلق سے نہیں اترتی، جیسے روٹی نہ ہو ئی کوڑتمبا یا کچا کریلا ہو
گیا اور یہ کہ روزہ اور پیاس زیادہ لگنے کو پکو ڑوں سے روزہ رکھتے ہیں۔
بلکہ کئی ایک حضرات تو روزہ رکھتے ہی صرف پکوڑے کھانے کو ہیں یا پھر دنیا
میں کہیں بھی ہوں، روزہ ہو کہ نہ ہو ، افطار پر پکوڑے کھانے ضرور پہنچ جاتے
ہیں۔ اگرہم کسی پانچ سات ممبر والی ایک فیملی کا پکوڑوں کا حساب کتاب کریں
تو میرے خیال سے ایک گھر میں مہینہ بھر میں ایک من پکوڑے تو لازمی پکے
ہونگے اور اسی حساب سے پھر آلو پیاز اور دیگر معاون اشیا ءکا بے درییغ
استعال ۔ نمکین آلو اس بار بھی سیب سے مہنگا رہا۔ ویسے اگر پکوڑوں میںبھی
آلو کی جگہ سیب ڈا لتے تو کیسا رہتا ؟۔ ُپکوڑوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ
اسے دس کھانوں کے بیچ رکھ دیا جائے تو لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہلے اسی پر
ٹوٹ کے پڑتے ہیں کہ جیسے پکوڑا نہ ہوا آب شفا ءہو گیا اور یہ کہ غریب اور
امیر ہر آدمی ہی اسے شوق اور ذوق سے کھاتا ہے۔ غریب دس روپے کے پکوڑے اور
دس کی دو روٹیاں لیکر بیس روپے میں اپنا پیٹ بھر لیتا ہے تو امیر بھی پیچھے
نہیں رہتا چائے کے ساتھ پکوڑے ضرور سوتتا ہے ۔ سنا ہے کہ ہمارے کچھ فربہ
سیاستدان بھی یہ متنجن بڑے شوق سے نوش فرماتے ہیں۔ اسکے علاوہ مساجد میں
آئے افطاری کے سامان میں سے اکثر مولوی صاحبان پکوڑے صرف اپنے لیے الگ سے
ہی نکال کر حجرے میں چھپا دیتے ہیں!
اگر ہم اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک کروڑ پاکستانیوں کی آدھا پاﺅ
فی بندہ پکوڑے کھانے کی اوسط لگائیں اور پکوڑوں کا بازار کاریٹ دوسو چالیس
روپے کلو، گھر کے پکوڑے تقریبا ایک سو بیس روپے کلو۔ اوسط فی بندہ آدھا پاﺅ
پکوڑے روزانہ کے حساب سے صرف پندرہ روپے لگائیں پھر پندرہ روپے کو تیس سے
ضرب دیں تو ماہانہ ایک بندے نے چارسو پچاس روپے کے پکوڑے کھائے۔ پھر چار سو
پچاس کو ایک کروڑ سے ضرب دیں تو ہماری قوم اس مبارک ماہ میں قریبا ساڑھے
چار ارب روپے کے تو صرف پکوڑے کھا گئی ، باقی کے لوازمات مثلا سموسے، چکن
رول، پیٹس، پیزا، چاٹ، دہی بھلے، پھلکی چھو لے ، مشروبات وغیرہ علاوہ ہیں۔
جی ہاں یہ وہی قوم ہے جسکا جمدا بچہ بھی تقریبا پچاس ہزار روپے کا مقروض ہے۔
رمضان میں اکثر لوگ تو گھروں میں ہی پکوڑے بنا نا پسند کرتے ہیں، پر ایک
کثیر تعدار باہر سے بھی خریدتی ہے اور اور ان دکانوں پر ایسا رش ہو تا ہے
کہ جیسے وہاں سب کچھ فری میں بٹ رہا ہو۔ یا پھر یہ کہ سموسے پکوڑے دوبارہ
زندگی میں کبھی نہیں ملیں گے۔
ہمار ے للو میاں کے ساتھ اس رمضان میں کیا گزری آئیے جانتے ہیں۔ رمضان شریف
شروع ہونے سے قبل ہی للو میاں کی بیگم نے پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کی طرح
انتہائی سخت آرڈر جاری کیے کہ رمضان کے پکوڑوں کے لیے کم از کم دس کلو گھی
،دس کلو بیسن اور دیگر مصالحہ جات الگ سے حاضر کیے جائیں اور ساتھ تڑی بھی
لگائی کہ انکے بغیر میں روزے نہ رکھوں گی اور احتجاجا گھر کے باہر ٹینٹ گھر
بنالونگی اور پھر سارا عذاب آپکے سر ہوگا ۔ بیچارے للومیاں نے جیسے تیسے
مانگ تانگ کر بیگم کی یہ ڈیمانڈ پوری کی ورنہ ا نہیں پتہ تھا کہ گھر میں
داخلہ ایسے ہی ممنوع ہو جاتا جیسے کہ کچھ وکلا ءحضرات کا بار میں داخلہ
ممنوع ہو تا ہے لہذا چارو ناچار انہیں پورا رمضان بھی آلو ،پیاز ، مرچ
مصالحہ جات اور دیگر اشیاءہر حال میں ادھار شدھار کر کے پیدا کرنی پڑیں۔
ایک روز للو میاں کام سے گھر پہنچے تو دن میں ہی کچن سے پکوڑوں کی خوشبو
سونگھ کر لگا کہ شاید آج روزہ دوپہر کو کھل رہا ہے یا پھر نظر اور ناک
دونوں ہی خراب ہو گئی ہیں۔ انکوائری پر پتہ چلا کہ آج ڈبل پکوڑا پروگرام ہے
کہ بچے کہتے ہیں کہ آج ہم دوپہر میں بھی روٹی پکوڑوں سے ہی کھائیں گے اور
یہ کہ بیگم کی بجائے بچے خود ہی تجربے کر کر کے الٹے سیدھے پکوڑے بنا بنا
کر بیسن اور گھی بر باد کر رہے تھے اور بیگم صاحبہ حسبِ معمول سپارہ پڑھنے
میں مصروف تھیں (جو کہ وہ سال میں صرف ایک ہی بار پڑھتی ہیں) ۔ قبل اس کے
کہ گھی اور بیسن کی بربادی کا رونا بیگم سے روتے، بیگم پہلے ہی پل پڑی کہ
میں نے خود بھیجا ہے بچوں کو کچن میں کہ مجھ سے گرمی میں وہاں کھڑا بھی
نہیں ہوا جاتا اور کچن کے پنکھے کی ڈیمانڈ دیے آپ کو دوسال ہو چکے ، پروہ
ڈیمانڈ حکمرانوں کے وعدوں کی طرح آجتک پوری نہ ہو سکی ہے۔ یہ رام کہانی
سنکر بیچارے للو میاں اپنا سا منہ لیکر وہاں سے کھسک لیے۔
پھر ایک روز گھر پہنچے تو تما م بچے بمعہ بیگم کے ایک جگہ جھکے ہوئے پائے
جیسے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں کی لکیروں پر پھوٹی قسمت تلاش کر رہے ہوں یا
جیسے کہ سیاستدانوں کا کوئی اکٹھ ہو ۔ پر پتہ چلا کہ پکوڑوں کی کی مختلف
اقسام ایک کھانے کی کتا ب میں تلاشی جا رہی ہیں مثلا: بیسن کے پکوڑے، آلو
کے پکوڑے، بینگن کے پکوڑے، پالک کے پکوڑے، انڈے کے پکوڑے، قیمے کے پکوڑے،
کیلے کے پکوڑے، سبزی کے پکوڑے، پنیر کے پکوڑے، بریڈ کے پکوڑے، چکن کے پکوڑے
و غیرہ وغیرہ تاکہ لذت کام و دہن کا سلسلہ مزید تیزتر ہو سکے۔ بس پھر کیا
تھا اگلی صبح صبح بیگم صاحبہ نے کتاب میں لکھی تما م اشیا ءکا بھی ارجنٹ
پرچیز آرڈر جاری کرتے ہوئے تاکید کی کہ سامان جلد آنا چاہیے کہ انہیں بنانے
میں ٹائیم لگے گا، ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ نہ تو بیچارے للو میاں کر نہیں سکتے کہ
ورنہ پہنے کپڑے اتار کر نیکر پہنا کر گھر سے باہر ہونے کا ڈر ہمیشہ کھائے
رہتا ہے۔بیچارے کہیں شکایت درج بھی نہیں کرا سکتے کہ انہیں حکمرانوں کی طرح
نہ خط لکھنا آتا ہے اور نہ ہی ان بیچارے جورو غلام ، بیگم کے ستاﺅں کی
ہندوستان کی طرح پاکستان میں کوئی یونین ہے کہ مظاہرہ کر کے دل کی بھڑاس ہی
نکال سکیں۔لہذا بیگم کے تھلے لگ کر ہی رہنا پڑتا ہے۔للو میاں اپنی حالت
دیکھ کر اکثر سوچتے تھے کہ یار مجھ سے ا چھی تو ایوانِ صدر کی گائیں ،
بھینسیں، بکرے اور گھوڑے ہیں کہ جنہیں وی آئی پی ماحول میں سب کچھ ملتا ہے۔
خیر جناب ! رمضان المبارک سے پہلے اور درمیان میں ڈاکٹروں کی لاکھ ہدایات
کے باوجود کہ تلی ہوئی اشیاءاستعمال نہ کریں، ہماری قوم نے کسی ڈاکٹر ،
حکیم کی ایک نہ سنی اور ٹھنڈے ٹھار مشروبات کے ساتھ تلے ہوئے پکوڑے، سموسے
، رول اور دیگر لوازمات کا کھا کھا کر خوب بیڑا غرق اور ستیا ناس کیا۔ پر
مجال ہے کہ رمضان المبارک کی برکت سے جو کسی کو چھینک بھی آئی ہو۔ پر میرے
پیارے پاکستانیو ! رحمتوں کا مہینہ جاچکا اب پکوڑے ذرا احتیاط سے کھانا!!! |