ٹماٹرنے زندگی اجیرن کردی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج پڑوسن نے پھربیگم صاحبہ کوٹماٹر کا طعنہ دیا تھااور وہ میرے انتظارمیں ٹماٹر ہورہی تھی۔جوں ہی میں نے گھر کی دہلیزپر قدم رکھا،بیگم صاحبہ فوراً آگے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

دیکھو جی۔آج یا توتم ٹماٹر خرید کر لاؤگے اوریامیں ہمیشہ کے لیئے اس گھرکو خیرباد کہہ دونگی۔کیونکہ اگر اگر آج میں نے ٹماٹرکے درشن پڑوسن کو نہ کروائے تو محلے میں میری ناک کٹ جائیگی۔وہ آج پھر کہہ رہی تھی کہ آپکے گھر میں مہینوں ٹماٹرکی صورت نظر نہیں آتی۔بس اب کچھ بھی ہو آج آپکو ٹماٹرخریدکرلانے ہونگے۔۔۔۔بیڑہ غرق ہواس ٹماٹرکا۔ان دنوں اس منحوس کی وجہ سے میری زندگی جہنم بن گئی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ80روپے فی کلو ہے۔جو میری اوقات سے بڑھ کر ہے۔اس لیئے ایک طویل عرصہ سے گھر کی دہلیزپر اسکے مبارک قدم نہیں پڑے۔ترکاریوں میں اس کی طویل غیرکا چرچہ محلے کے گھر گھر میں پہنچ گیا ہے۔لیکین پھر بھی ہم دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اس پر خوب بحث کرتے ہیں جیسے کہ ٹماٹر کی منڈی ہمارے گھر میں لگی ہو۔لیکین آج بیگم نے ایک عجب مشکل میں ڈال دیا تھا۔کہہ رہی تھی کہ اگر آج اسکے درشن نہ ہوئے تو گھر چھوڑ کر چلی جاونگی۔اب یہ بھی کوئی بات ہے بھلا؟اگر ٹماٹرنہیں آتے تو بیگم میکے جانے کا کہہ رہی ہے۔اب لوگ کیا کہیں گے کہ بابائے ٹماٹر کی بیگم ٹماٹر کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلی گئی۔یہ سوچتے ہی ہم میں بھی ایک پٹھان کے خون نے جوش مارا۔اور ہم نے ارادہ کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو،آج ترکاری میں ٹماٹر کا انقلاب ضرور آئیگا۔بس پھر کیا تھا۔کمرے میں جاکر کپڑے تبدیل کیئے،بالوں کو کنگھی کیا،اور شہرجانے کے لیئے گھر سے روانہ ہوا۔سڑک پر آکر ایک گاڑی کو اشارہ کیا جو لوگوں سے کھچاکچ بھری ہوئی تھی۔یہ لوگ بھی شائید شہر جارہے تھے۔خیرمیں نے اپنے لیئے جگہ بنالی اور بڑی مشکل سے اپنے اپکو لوگوں میں اٹکالیا۔ابھی میں پوری طرح سے اپنے اپکو سھنبال بھی نہیں پایا تھا۔کہ کندھے پرایک فوجی بوٹ نے فوجی سیلوٹ مارا۔اور میں درد سے بلبلا اٹھا۔ابھی گرنے کو ہی تھا کہ کنڈیکٹر نے سھنبالا اورڈانٹ بھی پلا دی۔جب اپنے آپکو سنبھال نہیں سکتے تو کیوں چڑھتے ہو گاڑی پر۔خیراسکی ڈانٹ پر تو ہم نے کچھ نہیں کہا۔کیونکہ اس نے تو ہمیں گرنے سے بچایا تھا۔لیکین غصہ تو ہمیں اس وقت اس شخص پر آرہا تھا جس نے میرے کندھے پر مارچ پاسٹ کیا تھا۔اور جس نے میرے سفید اور صاف ستھرے کپڑوں پر مہر سفر لگادی تھی۔جب اس بوٹ کے جنرل کی طرف دیکھا تو وہ ہمارے گاوں کے تورگل ماما تھے۔مجھ پر نظر پڑتے ہی اپنی بتیسی نکال دی اور کندھے پر لگے ستاروں کے بارے میں پوچھنے لگا۔جو اسکی مہربانی تھی۔میں غصے سے آگ بگولا ہورہا تھاکہ ایک تو نشان امتیاز سے نوازا۔اور اوپر سے لاتعلقی کااظہارکررہا ہے۔میں نے اپنے غصے کو قابو میں کیااور کہنے لگا۔تورگل ماما۔یہ ٹماٹر کے انعامات ہیں جو کندھے پر لگے ان ستاروں کی صورت میں مجھے مل رہے ہیں۔تورگل ماما میری بات کو سمجھنے سے سے قاصر رہے اس لیئے سر کھجاتے رہ گئے۔

ابھی تورگل ماما کے دیئے ہوئے زخم مندمل تھے کہ کسی نے میرے قمیص پرخط استوا کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ میں خود بھی چند لمحوں کے لیئے دنگ رہ گیا۔اور حیران حیران نظروں سے اپنے سب سے پسندیدہ کپڑوں کودیکھنے لگا۔جس پر کسی نے نسوار پھینک کر اس کی دھار سے آرٹ کو میرے دامن پر آشکارا کیا تھا۔اس آرٹسٹ کو ڈھونڈنے کے لیئے نگاہ دوڑائی تو وہ شمریزکاکا نکلے جو معذرت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے تھے۔خیر عمر کا لحاظ کرتے ہوئے میں نے مسکراکراسکی غلطی معاف کردی۔لیکین دل ہی دل میں اسے ہزاروں بددعائیں دی۔خدا تعالیٰ کرے کہ تمہارا منہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوجائے اورتو نسوار ناک سے لیا کریں۔نہ جانیں کون کونسے عذابوں کے لیئے ہم نے اس وقت اپنے خدا سے دعا کی تھی کہ وہ شمریز کاکا پر نازل ہوجائے جس نے میرے کپڑوں پر دنیا کے نقشے کو بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔خیراللہ اللہ کرکے ہم منڈی پہنچ گئے۔گاڑی سے اتر کر میں بغیر وقت ضائیع کیئے ایک ٹھیلے والے کے پاس پہنچ گیا۔آج ٹماٹر کا بھاو بھی پانچ روپے مزید بڑھ گیا تھا۔لیکین چونکہ ہم آج فیصلہ کرکے گھر سے نکلے تھے کہ آج ٹماٹر کا مصافحہ آلو سے ضرور کروائینگے۔ اس لیئے85روپے فی کلو کے حساب سے ٹماٹر کی رقم ادا کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک مدت کے بعد ترکاری میں ٹماٹرکا انقلاب آجائیگا۔لیکین شائید میں بھول گیا تھا کہ ٹماٹر کو اپنانے میں ابھی مزید زخم کھانے باقی تھے۔ابھی تو کپروں پر مزید تمغے لگنے تھے۔اچانک منڈی میں بھگدڑ مچ گئی۔کچھ گاہکوں اور دکانداروں کے بیچ نرخوں پر لڑائی چڑھ گئی تھی۔میں نے سوچا چلو بیچ بچاو کراتے ہیں اسلیئے ٹماٹر ٹھیلے والے کے حوالے کرکے صلح کی غرض سے ابھی آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک بڑے مونچوں والے خان صاحب نے ایک زوردار ڈھنڈا میرے سر پر رسید کیا۔۔میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔سر پر ہاتھ رکھا تو پتہ چلا کہ خون کا فوارا بھی ابل پڑاہے۔بمشکل اپنے آپکو سھنبالا ہی تھا کہ کسی نے ایک زوردار لات کمر میں رسید کی اور میں منہ کے بل کچہرے کے ڈھیر میں جاگرا۔اتنے میں پولیس کی گاڑی سائیرن بجاتے ہوئے وہاں پہنچ گئی اور بے دھڑک لوگوں پر لاٹھی چارج شروع کیا۔پولیس کے آنے سے لڑائی ختم ہوگئی اور پولیس والے کچھ لوگوں کو پکڑ کر لے جارہے تھے۔کہ اتنے میں ایک موٹے سے حولدار کی نظر مجھ پر پڑی ۔اس نے آکر مجھے کچہرے کی دھیر سے نکالا ۔میں نے اللہ کا شکرادا کیا کہ بروقت حولدار صاحب نے میری مدد کی۔کہ اتنے میں حولدار صاحب نے ایک سپاہی کو اواز دی۔او شیرے ! اس بندے کو بھی لے جاو۔پولیس سے چھپ رہاتھا۔مجھے تو اس ساری فساد کی جڑ یہ لگ رہا ہے۔میرے پیروں تلے سے زمین کسکنے لگی۔حولدار صاحب تو مجھے گرفتار کرکے لے جارہے تھے۔یہ تو بھلا ہو اس ٹھیلے والے کا جس سے میں نے ٹماٹر خریدے تھے۔اس نے آکر حولدار صاحب کے سامنے میری حقیقت بیان کی۔تب جاکر مجھے پولیس کی گرفت سے رہائی نصیب ہوئی۔میں نے ٹھیلے والے کا شکریہ ادا کیا اور منڈی سے سیدھا گاوں جانے والی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی راہ لی۔گھر کی چوکٹ پر قدم رکھتے ہی بیوی نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔ٹماٹر لائے ہو یا آج پھر خالی ہاتھ آئے ہو۔ٹماٹر تو میں لایا تھا لیکین اس کے لیئے جو قیمت میں نے چکادی تھی اسے سوچ کرٹماٹر کے نام سے بھی نفرت ہونے لگی تھی مجھے۔میں نے بیگم کے سوال پر تو کچھ نہیں کہا البتہ ٹماٹر اسکے ہاتھ پر رکھ کر خود چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔میری حالت دیکھ کروہ بھی تھوڑا سا پریشان ہوئی اور میرے پاس آکر مجنوں جیسی حالت بنانے کی وجہ پوچھنے لگی۔وجہ پوچھنے پرمیں نے اسے ساری روداد الف سے ی تک سنادی۔قصہ سنتے ہی وہ مجھ پر ہنسنے لگی اور مشورہ دیا کہ اس کہانی کو کسی اور کے سامنے نہ دھراﺅ تو گھر کی عزت کے لیے اچھا ہوگا۔میں اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔سوچا تھا کہ میری حالت دیکھ کر بیگم آئیندہ ٹماٹر کا نام تک نہیں لے گی۔لیکین اس پر تو میری حالت زار کا کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ہاں البتہ ٹماٹر کے آنے سے گھر میں خوشی کی ایک لہر ضرور دوڑ گئی تھی۔بیگم صاحبہ اس وقت پڑوسن سے کہہ رہی تھی کہ ڈا کٹرنے مجھے ٹماٹر کھانے سے منع کیا ہے لیکین کیا کروں؟بچے ترکاری بغیر ٹماٹر کے کھاتے ہی نہیں۔چیکو کے ابو آج پھر ایک کریٹ ٹماٹر لائے ہیں۔بیگم صاحبہ کی باتوں پرمیں سوچ رہا تھا کہ کاش بیگم صاحبہ جو کہہ رہی ہے وہ سچ ہوتا۔لیکین اچانک خیال آیا کہ جب ایک کلوٹماٹر کے لیئے اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تو پھر ایک کریٹ ٹماٹر کے لیئے کیا کرنا ہوگا۔توبہ توبہ۔یہ خیال آتے ہی میں نے فوراً استغفار پڑھا تاکہ میرا خیال کہیں حقیقت کا روپ نہ دھار لیں۔

رات کو سب گھر والے مزے سے اس آلو کو کھارہے تھے جس میں ٹماٹر کے مبارک قدم پڑے تھے۔اور میں چارپائی پرپڑا درد سے کراہ رہا تھا۔منہ سے نکلنے والی ہر آہ ٹماٹر کے ظلم وستم کی داستان سنا رہا تھا اور میرے گھر والے ٹماٹر کو اس کے ہر ظلم کا جواب دے رہے تھے۔جس طرح میرے گھر والوں نے ٹماٹر کا احتساب کیا۔اگر اس طرح سے اس ملک کے غداروں کا احتساب شروع ہوجائے۔تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ کل ہمارا ہوگا۔مستقبل کے ویٹو ہم ہونگے۔
شکریہ کے ساتھ
Shah Faisal Shaheen
About the Author: Shah Faisal Shaheen Read More Articles by Shah Faisal Shaheen: 8 Articles with 7436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.