ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں
بجلی ہوا کرتی تھی۔ اور جب بجلی ہوتی تھی تو اُس کے جھٹکے بھی ہوا کرتے تھے۔
اب بجلی کم ہے اور اُس کے نرخوں سے لگنے والے جھٹکے زیادہ ہیں! کم و بیش
ایسا ہی معاملہ پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات آتش گیر ہوتی ہیں
مگر سچ یہ ہے کہ اب اُن سے زیادہ تو اُن کے نرخ آتش گیر ہیں اور اُن میں پے
در پے اضافے سے ملک بھر میں پائی جانے والی شدید تپش نے یہ بات ثابت بھی
کردی ہے!
پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے موٹر سائیکل چلانے والوں کو ”سائیکولوجیکل“
بنادیا ہے یعنی جیب پر پڑنے والے بوجھ کے باعث لوگ دوبارہ سائیکل کا آپشن
اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں!
مرزا تنقید بیگ کے خیال میں موٹر سائیکل سے سائیکل پر آنا تنزلی نہیں بلکہ
کسی حد تک ترقی کی علامت ہے! ہم یہ بات سُن کر ذرا بھی حیران نہیں ہوئے
کیونکہ مرزا مارکیٹنگ کا ہنر جانتے ہیں اور عموماً ایسی (اوٹ پٹانگ) باتیں
کرتے ہیں جنہیں سُن کر لوگ خواہ مخواہ متوجہ ہوں! مجمع سوگواروں کا ہو یا
کہیں باراتی جمع ہوں، مرزا اپنی مرضی کا راگ الاپتے ہیں اور بالعموم لوگوں
کی توجہ پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، زمانہ ہی کچھ ایسا ہے
کہ لوگ ہر اوٹ پٹانگ بات کو نہ صرف پوری توجہ سے سُنتے ہیں بلکہ اُس پر غور
بھی کرتے ہیں!
اب آپ سوچیں گے موٹر سائیکل چلانے میں ناکام رہنے پر سائیکل کو دوبارہ
اپنانے میں ترقی کا کون سا اشارہ چھپا ہوا ہے؟ مرزا کہتے ہیں ”چین ایک ترقی
یافتہ ملک ہے اور وہاں کروڑوں افراد سائیکل چلاتے ہیں۔ یورپ کے ترقی یافتہ
ممالک میں بھی لوگ چھوٹے فاصلوں کے لیے سائیکل کے استعمال کو ترجیح دیتے
ہیں۔ پڑوسی بھارت ہی کی مثال لیجیے جہاں لوگ سائیکل کو آج بھی زندگی کا حصہ
بنائے ہوئے ہیں۔“
ہم نے عرض کیا کہ حکومت پٹرولیم کے نرخ بڑھاکر ہماری موٹر سائیکلوں کو
ناکارہ بنانے اور ہمیں ”ری سائیکل“ کرنے یعنی دوبارہ سائیکل کے زمانے میں
بھیجنے پر تُلی ہوئی ہے اور آپ اِس اقدام کو ترقی کی علامت گرداننے پر کمر
بستہ ہیں۔ آپ کی یہ بات بھی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے!
مرزا پھر شروع ہوگئے ”ہمیں تو بس عادت پڑگئی ہے کہ حکومت جو کچھ بھی کرے
اُس میں کیڑے ہی تلاش کرتے ہیں۔ کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ حکومت کے
بیشتر اقدامات کی کوکھ سے چند ایک آسانیاں اور سہولتیں بھی جنم لیتی ہیں؟“
ہم نے حیران ہوکر کوئی مثال چاہی تو مرزا نے کمال بے نیازی سے وضاحت فرمائی
”غریبوں کو روزانہ، نہ چاہتے ہوئے بھی، دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا پڑتا
ہے۔ حکومت کی مہربانی سے کھانے پینے کی اشیاءاب اُس مقام پر پہنچ گئی ہیں
کہ اُن کے نرخ پوچھنے پر بھی پیٹ کچھ بھرا بھرا سا محسوس ہونے لگتا ہے!
ایسے میں کوئی ایک وقت کی روٹی کا اہتمام بھی کر پائے تو بڑی بات ہے۔ یعنی
حکومت نے غربیوں کو صرف ایک وقت پیٹ بھرنے کی فکر میں غلطاں رہنے کا راستہ
سُجھایا ہے! اب اگر کوئی خواہ مخواہ دو یا تین وقت پیٹ بھرنے کا سوچے تو یہ
اُس کے ذہن کا ٹیڑھا پن ہے!“
ہم نے عرض کیا اگر یہی حال رہا تو لوگ ایک وقت کی روٹی کے بارے میں سوچنا
چھوڑ دیں گے!
”یہ بھی حکومت کی مہربانی ہی ہوگی۔
جگہ دِل لگانے کی دُنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
روحانیت کا ایک بلند درجہ یہ بھی ہے کہ انسان کھانے پینے کی فکر سے بہت حد
تک آزاد ہو جائے۔ حکومت ہمیں بلند روحانی درجات تک لے جانا چاہتی ہے مگر ہم
ہیں کہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں!“
ہم نے عرض کیا محترم! یہ بھی مہنگائی ہی کا چمتکار ہے کہ لوگ خود کشی پر
مجبور ہیں۔ جن کے گھر میں چولھا نہیں جل پا رہا وہ خود کو سُلگا کر موت کا
چراغ روشن کرکے زندگی کا اندھیرا دور کر رہے ہیں!
مرزا کب ماننے والے تھے (اور ہیں!)۔ جب وہ کسی کی بات نہ ماننے پر تُل
جائیں تو اُن کے منہ سے دلائل کا سیلاب اُمڈا آتا ہے! حکومت کے دفاع پر
مزید کمر بستہ ہوکر فرمایا ”چند عاقبت نا اندیش لوگوں نے حکومت کو اِس
مغالطے میں مبتلا کردیا تھا کہ غربت ختم کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے
کہ غریبوں ہی کو ختم کردیا جائے! (یہ سوچ شاید بھارت میں کسانوں کی خود کشی
سے اخذ کی گئی تھی!) حکومت کے اہل دانش کو جلد اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی
مقبول و محبوب روش نہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ غریب خود کشی کا خیال اپنے
دل سے نکال دیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی ایک غایت یہ بھی ہے
کہ غریب خود کشی کا خیال تک دل میں نہ لائیں۔“
ہم نے ایک بار پھر حیران ہوکر پوچھا کہ خود کشی کا سلسلہ روکنے سے پٹرولیم
نرخوں میں اضافے کا کیا تعلق ہے؟ مرزا نے فخر سی تنی ہوئی گردن گھماکر ہمیں
دیکھا اور ہماری ”سادگی“ اور ”کم فہمی“ پر (بے کہے) لعنت بھیجتے ہوئے وضاحت
فرمائی ”مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ مٹی کا تیل اپنے جسم پر چھڑک کر خود کشی
کرلیا کرتے تھے۔ اُن کی یہ روش حکومت کو دنیا بھر میں بدنام کرتی تھی۔ اب
یہ حل نکالا گیا ہے کہ مٹی کا تیل اِتنا مہنگا کردیا جائے کہ غریب جل مرنے
کا خیال بھی دل میں لاتے ہوئے خوف محسوس کرے اور صرف زندہ رہنے کے بارے میں
سوچے! حکومت غریبوں کو زندگی دینا چاہتی ہے مگر اِس معاملے میں بھی اُسے شک
کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔“
مرزا سے بحث فضول تھی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں
حالیہ ریکارڈ اضافے کو بھی وہ کسی نہ کسی طرح مثبت قرار دے کر دم لیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ اُن کے ذہن میں یہ بات ہو کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کو زیادہ
سے زیادہ مہنگا کرکے لوگوں کو پیدل چلنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے تاکہ صحت
کا معیار بلند ہو! مرزا کو اِس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ جب وہ اپنی
کسی بھی (ظاہر ہے بے ڈھنگی!) بات کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل پر دلائل
دیتے جاتے ہیں تو لوگ خود پر مٹی کا تیل چھڑکے بغیر ہی پورے وجود کو آگ کی
لپٹوں میں گِھرا ہوا محسوس کرتے ہیں! |