ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ اپنے آپ
کو جسمانی طور پرفِٹ بلکہ سُپر فِٹ رکھنا صرف اداکاروں اور اداکاراؤں کی
مجبوری ہے کہ اِس میں اُن کی روزی روٹی مضمر ہوتی ہے ۔ لیکن روزنامہ جنگ کے
معروف تجزیہ نگار محمد صالح ظافر نے یہ انکشاف کر کے ہمیں ورطہ حیرت میں
ڈال دیا کہ ہمارے رہبرانِ مُلک و مِلّت کی غالب اکثریت اپنے” بڑھاپے“ کو
سات پردوں میں چھپانے کی تگ و دو میں اکثر بیوٹی پارلر ز جانا پڑتا ہے جہاں
وہ پلکنگ ، تھریڈنگ اورفیشل کروا کر”ابھی تو میں جوان ہوں“ گُنگناتے
پارلیمنٹ سدھارتے ہیں۔
صالح ظافرکہتے ہیں کہ جنابِ آصف زرداری غیر مُلکی خصاب سے بال رنگتے ہیں۔
اُنہیں ایسا کرنے کا حق ہے کیونکہ سوئس مقدمات دوبارہ کھُلنے کی پندرہ سالہ
مدّت تمام ہو چُکی۔اب کوئی خط لکھے یا نہ راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔اگر
ساٹھ ملین ڈالر صاف بچ جانے پر بھی دیسی خصاب ہی استعمال کرنا ہے تو تُف ہے
ایسے ڈالروں پر۔۔۔ موصوف کہتے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی
دیسی خصاب استعمال کرتے ہیں۔راجہ صاحب تو یقیناََ ”دیسی نسخہ“ ہی استعمال
کرتے ہونگے کیونکہ نئے نویلے وزیرِ اعظم کو ”لمبا ہاتھ“ مارنے کا ابھی موقع
ہی نہیں ملا ۔رینٹل پاور کیس میں بھی لوگوں نے اُنہیں ”راجہ رینٹل“ توبنا
دیا لیکن وہ اپنے حصّے سے ابھی تک محروم ہیں اورامیدِ واثق ہے کہ محروم ہی
رہیں گے کیونکہ اب سب کچھ ”عصائے افتخار“ کی زد میں ہے ۔اِس لیے اُن کے
”دیسی نسخہ“ استعمال کرنے کی سمجھ تو آتی ہے لیکن گدی نشین تو ما شااللہ ”
MBBS“ (میاں ،بیوی ، بچے سمیت)دھن سمیٹنے میں اپنے ”بِگ باس“ سے بھی کئی
ہاتھ آگے نکل گئے۔وہ تو فرانسیسی جوتوں اور برطانوی سوٹوں اور ٹائیوں سے کم
پر سمجھوتا کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے
بالوں کو دیسی رنگ میں رَنگ لیں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ چھِن
جانے کے بعد وہ بھی سُگھڑ گھریلو خواتین کی طرح کچھ پَس انداز کرنے کے چکر
میں ہوں کیونکہ اب تو اُن کے ہونہار ”بروا“ بھی ایفیڈرین کیس میں بُری طرح
پھنس چُکے ہیں۔لیکن ”چور چوری سے جائے ، ہیرا پھیری سے نہ جائے“ کے مصداق
وہ بہرحال اپنے بالوں کو دیسی خصاب سے رنگ کر اپنے نام پہ بٹہ لگانا ہر گز
پسند نہیں کریں گے۔۔۔۔ خیبر پختونخواہ کے معمر ترین گورنر خصاب کا
فراخدلانہ استعمال کرتے ہیںلیکن اپنی جیب پر بوجھ کم ہی ڈالتے ہیں ۔قصّہ در
اصل یہ ہے کہ ہمارے گورنر پنجاب کے سَر پر گنتی کے چند بال ہیں ۔اُن کے پاس
استعمال کے بعد بہت سا خصاب بچ جاتا ہے جسے وہ گورنر خیبر پختونخواہ کو
بھیج دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”مُفت کی شراب تو ملّا کو بھی حلال ہے“اِس
لیے فراخ دلانہ استعمال تو ہو گا۔
رحمٰن ملک صاحب مجھے اسی لیے پسند ہیں کہ وہ ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں۔ اُن
کا ”بیوٹی بکس“ برازیل سے آتا ہے اور وہ اپنے چہرے کی مرمت دبئی کے ایک
بیوٹی پارلر سے کرواتے ہیں ۔ہم تو یہ سمجھتے رہے کہ موصوف نوٹوں کے بریف
کیس بھر کر ”نُکرے“ لگانے دبئی جاتے ہیں۔لیکن کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا۔وہ
بیچارے بم دھماکوں ،خود کش حملوں،بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی ٹینشن سے
اُجڑے چہرے کی مرمت کروانے جاتے رہے اور ہم اپنی کالمانہ پھُرتیوں سے اُن
کے سفر میں ظالمانہ رنگ آمیزیاں کرتے رہے۔۔۔۔ محترم امین فہیم کا سَر اور
مونچھیں جب کالی گھٹاؤں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو شرارتی بچے یہ آوازے
کستے ہیں کہ ”کی عمر اے تے کی روگ نیں“ جو ہمیں بالکل پسند نہیں کیونکہ
اپنے لیڈروں کے بارے میں ایسے بیہودہ تبصرے سُن کر بہت شرم آتی ہے۔کیا ہوا
جو ہمارے مہربانوں نے شرم نامی مشروب کو گھول کر پی لیا ہے لیکن پھر بھی
اطاعتِ امیر تو ہم پر فرض ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم بھی ساری شرم گھول
کر پی جائیں لیکن فی الحال قوم نے یہ فریضہ اراکینِ اسمبلی کے سپرد
کررکھاہے جسے وہ بطریقِ احسن سر انجام دے رہے ہیں۔
بن سنور کرپارلیمنٹ میں آنا پارلیمنٹیرین کا آئینی حق ہو گا اِس لیے ہمیں
اُن پر تنقیدکا توکوئی حق نہیں لیکن یہ سوال تو کر سکتے ہیں کہ بیوٹی پارلر
ز کے خطیر اخراجات کون برداشت کرتا ہے؟۔ہمیں پارلیمنٹیرین سے تو جواب کی
توقع نہیں اِس لیے اگر انصار عباسی صاحب کی تحقیقاتی ٹیم یہ ثابت کر دے کہ
اِن اخراجات کا بوجھ بھی حکومتی خزانے پر پڑ رہا ہے تو میں بِلا تاخیرجنابِ
چیف جسٹس آف پاکستان کو از خود نوٹس کی اپیل کر دونگی۔یہ الگ بات ہے کہ
میری اپیل کو محض اِس لیے در خورِ اعتنا نہ سمجھا جائے کہ چیف صاحب کے اپنے
گھنے بالوں میں بھی چاندی کے تار جھلکتے دکھائی نہیں دیتے ۔پھر از خود نوٹس
لینے میں یہ خطرہ بھی بہر حال موجود ہے کہ فیصل رضا عابدی جیسا بد لحاظ ،
مُنہ پھٹ اور بد زبان جعلی فائلوں کے پلندے لے کر ٹھک سے کسی ایسے چینل پر
پہنچ جائے جو پہلے ہی جنابِ زرداری کی عنایاتِ خسروانہ کے بوجھ تلے دباہوا
ہو اور ہماری معصوم عدلیہ کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔آخر وزارتِ اطلاعات کا
خُفیہ بجٹ دو سے چار ارب کرنے کا کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے۔اگر اِس بجٹ سے
کچھ اینکر اور چینل مالکان بھی نہیںخریدے جا سکتے تو پھر بجٹ بڑھانے کا
فائدہ؟۔
میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ لوگ عام انتخابات میں جماعت اسلامی جیسی ”صالح“
جماعت کو بھول کیوں جاتے ہیں ؟۔بھلا ہو جنابِ صالح ظافر کا جن کے انکشافات
کی بدولت یہ عقدہ وا ہوا اور ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ یہ جماعت اپنے
”بڑھاپے“ کے ہاتھوں مار کھا جاتی ہے ۔لوگ جب انتہائی محترم قاضی حسین احمد
اور جنابِ لیاقت بلوچ جیسے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو اُن کے دل سے یہ آواز
نکلتی ہے کہ یہ متقی اور پرہیز گار لوگ ہیںاِس لیے اِنہیں” دُعاو ¿ں“ کے
لیے رکھ کرووٹ کسی ایسے شخص کو دیا جائے جو اُن کے میٹرک پاس بیٹے کو OGDC
کا چیئر مین لگوا سکے اور ظاہر ہے کہ ایسا کام تو ”گدی نشیں “ اور ”راجہ
رینٹل“ جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں بیچارے سیاسی مولوی ”اتنے جوگے“ کہاں۔
میرے آقاﷺ نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی سی شباہت اختیار
کریں اور ایسی عورتوں پر بھی جو مردوں کی شباہت اختیار کرتی ہیں۔بناؤ
سنگھار کی دینِ مبیں صرف عورتوں کو اجازت دیتا ہے، وہ بھی گھر کی چار
دیواری کے اندر لیکن ہمارے ہاں تو سب اُلٹ ہو کے رہ گیاہے۔سچ ہے کہ جب کسی
قوم کی تباہی کا وقت قریب آلگتا ہے تو سب سے پہلے اُمراءہی بگڑتے ہیںاور
ہمارے حکمرانوں کا حال تو اب قیصر و کسریٰ کے اُن حکمرانوں جیسا ہو گیا ہے
جو بناؤ سنگھار میں صنفِ نازک سے کہیں آگے نکل گئے تھے ۔ ایسے ملکوں کو کسی
بیرونی حملہ آور کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ اُس کی تباہی اظہر من الشمس ہوتی
ہے۔فُرقانِ حمید تو پُکارپُکار کر کہتا ہے کہ ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا
لیکن جس دور میں ہم بس رہے ہیں اُس میں تو انسان شر ایسے مانگتا ہے جیسے
خیر مانگنی چاہیے ۔ایسے میں بھلا ربّ اُس قوم کی حالت کیوں بدلے گا جِسے
خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ |