پاکستان کی سیاسی غزل بھی کیا
تقدیر لے کر آئی ہے کہ ہر بار مقطع میں سُخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے! فرید
جاوید مرحوم نے کہا تھا۔
گفتگو کِسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے
بس کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل ہمارے ہاں کِسی بھی سیاسی موضوع پر چھڑنے والی
بحث کا ہے۔ بات خواہ کہیں سے چلی ہو، گھوم پھر کر .... بلکہ سیر حاصل سیر
کرکے خط کی منزل پر پہنچ کر دم توڑتی ہے!
ہم وہ قوم ہیں جو کسی بھی کام کے آغاز کے لیے کِسی چیز کے پورا ہونے یا وقت
کا ایک خاص دورانیہ ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مثلاً رمضان المبارک میں
کوئی کام آ پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ ذرا عید گزر جائے، پھر دیکھیں گے! کرکٹ
ورلڈ کپ سر پر ہو تو سارے کام فائنل کی آخری گیند پھینکے جانے تک موخر
کردیئے جاتے ہیں! اب یہ حال ہے کہ تمام معاملات ایک خط کے لِکھے جانے تک
موخر ہوکر رہ گئے ہیں!
خط کا معاملہ بھی عجیب ہی ہوا کرتا ہے۔ اردو ادب میں خط کے تذکرے جا بہ جا
بکھرے پڑے ہیں۔ شُعراءنے خط کے بارے میں ایسے ایسے مضامین باندھے ہیں کہ
قارئین کا ذہن بندھ کر رہ جاتا ہے! کہیں خط کے نہ آنے کا شِکوہ ہے تو کہیں
خط کے آنے سے پیدا ہونے والے بحران کا ماتم! خط کا جواب نہ آئے تو انتظار
جاں گُسل ثابت ہوتا ہے اور کبھی جواب کچھ اِس انداز سے آتا ہے کہ مکتوب
الیہ دِل تھام کر رہ جاتا ہے!
خط کے پُرزے ہیں دستِ قاصد میں
ایک کیا، سو جواب لایا ہے!
غالب کا تو یہ حال تھا کہ انٹ شنٹ خط لکھنے کے بعد پریشان ہوکر مکتوب الیہ
یعنی محبوب سے کہتے تھے۔
تُجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم!
میرا سلام کہیو اگر نامہ بَر مِلے!
اور پھر ایک دھڑکا یہ بھی لگا رہتا تھا کہ خط کہیں کِسی غیر کے ہَتّھے نہ
چڑھ جائے! کبھی کبھی ایسا ہو بھی جاتا تھا! اِس کیفیت کو غالب نے یوں بیان
کیا۔
غیر پھرتا ہے لئے یوں تِرے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے!
اور کبھی کبھی دِل کے ہاتھوں مجبور ہوکر خط لکھنا ہی پڑتا تھا، خواہ ذہن
میں کچھ نہ ہو!
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے!
جب ابھی خط بنوانے کے دِن ٹھیک سے وارد نہیں ہوئے ہوتے تب تقریباً ہر
اِنسان پر خط لِکھنے کا زمانہ گزرتا ہے! کبھی ہم پر بھی خط کا زمانہ گزرا
تھا۔ جوانی کے آغاز میں ہم بھی تھوڑے تھوڑے وزیر اعظم تھے یعنی ہماری سمجھ
میں بھی نہیں آتا تھا کہ خط کِسے لکھیں اور اُس میں کیا لکھیں! اور اِس سے
بھی بڑی ذہنی اُلجھن یہ لاحق ہوتی تھی کہ خط کیوں لکھیں! آج کل وزیر اعظم
کو مختلف حلقے تحریک دے رہے ہیں کہ خط لکھ ہی ڈالیں اور عدلیہ کی بھی اِس
حوالے سے زوردار فرمائش و تاکید ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے دل کا
بھی تھا جو ہمیں ہر وقت خط لکھنے پر اُکساتا رہتا تھا۔ مگر اُس بے عقلی کے
دور میں بھی ہم میں اِتنا شعور ضرور تھا کہ خط کب، کِسے اور کِس طور لکھنا
چاہیے! اُس دور میں ہم نے بہتوں کو سوچے سمجھے بغیر خط لِکھتے دیکھا اور
پھر یہ بھی دیکھا کہ کِس اہتمام سے اُن کی ”خط بنوائی“ ہوئی! خط لِکھنے پر
اُکسانے والا زمانہ یقیناً یوسف رضا گیلانی پر بھی گزرا ہوگا تبھی تو وہ
دُنیا کی باتوں میں نہ آئے اور پارٹی پر منصب قربان کر ڈالا! ایسے جیالے ہی
پیپلز پارٹی کے انجن کا ایندھن ہیں۔
اور اب راجہ پرویز اشرف کو مختلف حلقے طرح طرح کے لارے لَپّے دے رہے ہیں۔
اُنہیں یقین دلایا جارہا ہے کہ خط لکھ کر وہ تاریخ رقم کریں گے۔ کچھ لوگوں
کا خیال ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جب پانی و بجلی کے وزیر تھے تب ”مثالی“ لوڈ
شیڈنگ اُن کے حصے میں آئی اِس لیے اُن کے ذہن میں بھی تھوڑی بہت تاریکی
ضرور ہوگی۔ یقین جانیے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب اپنے معاملات پر غور مقصود
ہو تو اہل سیاست کے دِماغ کی بَتّی خوب جلتی ہے۔ راجہ پرویز اشرف بھی
یقیناً اُس دور کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں جب دِل ہر وقت خط لکھنے پر
اُکساتا رہتا تھا! تھوڑی بہت دُنیا تو اُنہوں نے بھی دیکھی ہے اور اچھی طرح
جانتے ہوں گے کہ کوئی بھی ایسا ویسا خط لکھنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور اگر
خط غلط ہاتھوں میں جا پڑے تو کیسے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے! یہ تو غالب
تھے جو کِسی کے نام کے عاشق ہونے پر بغیر مطلب کے (یا مطلب سمجھے بغیر) بھی
خط لکھ بیٹھتے تھے۔ راجہ پرویز اشرف کو معلوم ہے کہ اب کِسی کے نام کا عاشق
ہونا اِس بات کا متقاضی ہے کہ خط نہ لکھا جائے! یہی سبب ہے کہ وہ خطِ
مُستقیم میں سفر کر رہے ہیں یعنی اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے وزیر اعظم
ہاؤس کی مُنڈیر سے صرف ایوان صدر کی طرف دیکھتے ہیں! اُنہیں اچھی طرح معلوم
ہے کہ سیاسی طلسمات آج کل پورے جوبن پر ہے۔ ایسے میں اگر نظر بھٹکی اور
کِسی کی پُکار پر پلٹ کر دیکھا تو پتّھر کا ہو جانے کا امکان ہے!
”چکوری“ میں ندیم نے گایا تھا
لِکھے پڑھے ہوتے اگر تو تم کو خط لِکھتے
راجہ پرویز اشرف یہ بہانہ نہیں تراش سکتے کیونکہ گریجویٹ اسمبلی سے تعلق
رکھتے ہیں، مگر ہاں اِتنا اُنہیں ضرور معلوم ہے کہ جس طرح کمان سے نکلا ہوا
تیر واپس نہیں آتا بالکل اُسی طرح اُن کے قلم سے لکھا ہوا خط بھی خود اُنہی
پر قیامت ڈھا سکتا ہے!
سادگی اُن لوگوں پر ختم ہے جو اب بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ راجہ پرویز
اشرف سوئس حکومت کو خط لکھ کر صدر کے خلاف کیسز ری اوپن کرنے کی سفارش کریں
گے۔ گیلانی گدّی نشین تھے جنہوں نے وزارتِ عُظمٰی کی قربانی دیکر اپنے آبرو
بھی بچائی اور راجہ پرویز اشرف کو بھی، کم از کم سیاست کی حد تک، گدّی نشین
کردیا! اب عالم یہ ہے کہ وہ سب سے بڑے وزیر کی گدّی پر بیٹھے ہیں مگر خط کا
معاملہ اُن کی گُدّی پر چڑھ بیٹھا ہے!
کرشن بہاری نُور کہتے ہیں
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خُدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے!
راجہ پرویز اشرف اقتدار کی میٹھی نیند میں ہیں۔ سُندر سپنا چل رہا ہے۔ وہ
کیوں چاہیں گے کہ اقتدار کی فلم کے دی اینڈ میں ہیرو کی پٹائی ہو؟ ایک
چھوٹے سے خط کے چَِکّر میں پڑ کر وہ وزارتِ عُظمٰی کے منصب سے ہاتھ دھونا
یقیناً پسند نہیں کریں گے! |