میاں برادران کی اہلیت کیس کے فیصلے اور پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے
بعد سے پورے ملک میں مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے پنجاب
اور پورے ملک میں مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں تک کہ اندرون
سندھ لاڑکانہ اور نوابشاہ جیسے شہر جو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں
وہاں بھی احتجاج کیا گیا اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ بہت سی جگہوں پر
مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔ راولپنڈی شہر
جہاں کے عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں وہاں احتجاج
کے دوران مبینہ طور پر مسلم لیگ کے کارکنوں پر بےنظیر بھٹو کی جائے شہادت
کو نقصان پہنچانے کا الزام بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ
بےنظیر بھٹو کی جائے شہادت پر ایک یادگار تھی جس کو نقصان پہنچایا گیا ہے
جبکہ بعض ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں کسی قسم کی کوئی یادگار تعمیر ہی
نہیں کی گئی تھی اور وہاں پہنچنے والے مظاہرین میں خفیہ ایجنسیوں کے لوگ
شامل تھے تاکہ سیاسی منافرت کو ہوا دے کر پکڑ دھکڑ اور جوابی مظاہروں کا
جواز نکالا جاسکے۔ چنانچہ اسی جواز کے تحت ملک میں اور خصوصاً اندرون سندھ
اور کراچی میں جوابی مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اسی سلسلہ
میں کراچی میں ایم کیو ایم کی طرف سے پیپلز پارٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے
طور پر ایک بہت بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ایم کیو ایم کے قائد
الطاف حسین نے ٹیلیفونک خطاب بھی کیا۔ الطاف حسین نے اپنے خطاب میں نواز
شریف کو پیشکش کی ہے کہ اگر ان کو وکلاء میسر نہیں ہیں تو ایم کیو ایم کے
وکلاء اور آئینی ماہرین سپریم کورٹ میں نواز شریف کا کیس لڑنے کو تیار ہیں۔
اس وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پاکستان کی دیگر تمام سیاسی
جماعتیں میاں برادران کی نااہلیت اور گورنر راج کی کھلے الفاظ میں مذمت
کرتی نظر آتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کیوں پیپلز پارٹی
سے اظہار یکجہتی کررہی ہے؟ وہی ایم کیو ایم جو ایک سال پہلے تک مشرف کے حق
میں ریلیوں کا اہتمام کرتی تھی اور جس پر الزام ہے کہ اس نے 12 مئی کو
کراچی کو خون میں نہلا دیا اور وکلاء اور سیاسی جماعتوں کو چیف جسٹس افتخار
محمد چودھری کا استقبال تک نہ کرنے دیا، وہی ایم کیو ایم جس کے اقدامات کی
توثیق میں آرمی ڈکٹیٹر سرعام (بلٹ پروف باکس میں بیٹھ کر)مکے لہرایا کرتا
تھا، اب وہی ایم کیو ایم صدر زرداری کے حق میں ریلیوں کا اہتمام کیوں کررہی
ہے اور جس پیپلز پارٹی کے بے شمار ورکر 12 مئی کو شہید کئے گئے اور ان کا
الزام بھی براہ راست ایم کیو ایم پر لگایا گیا، ایم کیو ایم اسی پیپلز
پارٹی کے شریک چئیر مین کے صدقے واری کیوں جا رہی ہے؟ وہی ایم کیو ایم جو
بےنظیر بھٹو کی بہیمانہ شہادت کے وقت ان کے جنازے میں بھی نہ گئی اور بعد
ازاں جب اظہار تعزیت کے لئے وفد گیا بھی تو پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگایا
گیا کہ ایم کیو ایم کو پروٹوکول نہیں دیا گیا وہی ایم کیو ایم اب بےنظیر
بھٹو کی جائے شہادت کی مبینہ طور پر بےحرمتی پر اتنا کیوں تڑپ رہی ہے۔ اس
کا یقینی مطلب مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل نہیں؟ ایم کیو ایم کے قائد الطاف
حسین جو تقریباً 10 سال سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کئے ہوئے ہیں اور
پاکستان آنے کو تیار نہیں ان کی طرف سے نواز شریف کو پیشکش کہ اگر نواز
شریف کو وکلاء نہیں مل رہے تو ایم کیو ایم کے آئینی ماہرین ان کا مقدمہ
سپریم کورٹ میں بلا معاوضہ لڑنے کو تیار ہیں کیا معنی رکھتی ہے؟ جو شخص
اپنے لئے کسی عدالت میں وکلاء کو پیش نہ کرسکتا ہو وہ اپنے سب سے بڑے مخالف
کے لئے ایسا کیسے کر سکتا ہے! اگر ایم کیو ایم کے آئینی ماہرین اتنے ہی
”ماہر“ ہیں تو پہلے وہ ”قائد تحریک“ کے خلاف مقدمات کو ختم کرالیں اور ان
کو پاکستان بلالیں پھر نواز شریف بھی شائد ان کی ”مہارت“ سے مستفید ہونے کا
سوچ لیں۔
دوسری طرف وکلاء کی طرف سے اعلان کردہ لانگ مارچ اور دھرنے کے پروگرام کے
بارے میں وکلاء کے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں۔ مسلم لیگ (ن)،
جماعت اسلامی، تحریک انصاف، اے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں پہلے ہی لانگ
مارچ اور دھرنے میں بھرپور شمولیت کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ اب تو قاضی حسین
احمد، میاں برادران اور عمران خان بھی وکلاء کے ساتھ مل کر دوسری سےاسی
جماعتوں، سٹوڈنٹس اور لیبر تنظیموں، تاجروں وغیرہ سے رابطہ کررہے ہیں اور
لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کی یقین دہانیاں حاصل کررہے ہیں۔ صدر زرداری
نے ایک غیر متوقع آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت موبائل عدالتیں قائم کردی
گئی ہیں۔ یہ آرڈیننس اپنی ہیئت میں ہی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے کہ جس
وقت اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو کوئی آرڈیننس جاری نہیں کیا جاسکتا،
آرڈیننس کے مطابق موبائل عدالتوں کے لئے صوبائی حکومتیں مجسٹریٹس بھرتی
کریں گی اور مجسٹریٹ کو سرسری سماعت کے بعد چھ ماہ تک قید کی سزا دینے کا
اختیار ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ متذکرہ آرڈی ننس صرف اور
صرف لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے کےلئے جاری کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ ان عدالتوں میں پیپلز پارٹی سے وابستہ وکلاء کو بطور مجسٹریٹ بھرتی
کیا جائے گا اور پھر لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاء کو ”سرسری سماعت“ کے بعد
سزائیں دی جائیں گی تاکہ وکلاء کے ”لانگ مارچ اور دھرنا شو “ میں کم سے کم
گنتی دکھائی جاسکے اور اس کو فیل قرار دیا جا سکے لیکن اس کے اثرات کیا ہوں
گے؟ ایک عام سی عقل و دانش رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح کے
فیصلوں اور ان پر عملدرآمد سے پورے ملک میں جنگ کا بازار گرم ہوجائے گا، وہ
”جنگ“ جو اسلام آباد میں ہونے والی تھی اب شائد ملک کے ہر چوک اور ہر سڑک
پر شروع ہوجائے گی کیونکہ جب لانگ مارچ کے پر امن شرکاء کو بزور بازو روکا
جائے گا تو مزاحمت تو ہوگی!اور وہ مزاحمت پہلے سے انارکی کے شکار اس ملک کو
کہاں لے جائےگی اس پر سوچنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں۔ وکلاء اپنے موقف سے
ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، پوری اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتیں (ماسوائے
ایم کیو ایم اور فضل الرحمن ) ججز کی بحالی کے حق میں ہیں، صدر زرداری تین
بار وعدہ کر کے مکر چکے ہیں اور اپنے ”اصولی“ موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار
نظر نہیں آرہے۔ ذہن رسا رکھنے والوں کو جوتوں کی دھمک سنائی دے رہی ہے
کیونکہ اگر کالی وردی والوں کو روکنے کی کوشش کی گئی تو خاکی وردی والوں کے
آنے کا امکان بڑا روشن ہے |