اس میں کوئی شک نہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹر وے میاں نواز شریف کا وہ عظیم کارنامہ اور
پاکستانی عوام کے لئے تحفہ ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم نہ بنتے تو شائد موٹر وے
بھی کہیں ’’کاغذکی ناؤ‘‘ ہی ہوتی۔’’کھلے ڈھلے ‘‘ منصوبے کو لین اور لائن کا
فرق سمجھتے ہوئے انڈر لائن کر دیا گیا۔حالانکہ جاپان میں ایک پل کی تعمیر
کا حال پڑھتے ہوئے اپنے کرتاؤں دھرتاؤں پر رونا آیا۔جاپان میں ایک رویہ پل
کی تعمیر کے لئے تخمینہ لگایا گیا۔میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ آنے والے بیس
سالوں میں اس شہر کی آبادی کتنی ہو گی ا ورٹریفک کا بہاؤ کتنا ہو گا۔اگر اس
وقت اگر اس پل کو دو رویہ کیا گیا تو اس پر لاگت کتنی آئے گی۔ لاگت اور
ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پل کو دو رویہ بنانے کے احکامات جاری کر دیئے
گئے۔ہمارے پیارے ملک پاکستان میں صرف اور صرف ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی کام یاب
ہے۔کیونکہ پاک ملک ٹھکیداروں کے رحم و کرم پر چل رہا ہے۔اس لئے ان کی سوچ
ہی یہ ہوتی ہے اگر ابھی سب کچھ مضبوط بنا دیا تو پھر کہاں سے کھانا ہے۔ اگر
جرنیلی صدر اپنی حد میں صرف جرنیل ہی رہتا۔اپنی جارحانہ اننگز کھیلنے کی
کوشش نہ کرتا تو پھر آج پاکستان آج کا پاکستان نہ ہوتا ۔یہ جو موٹر وے کے
اگلے منصوبے جو ابھی تک کاغذوں میں ہیں۔اپنی پاک دھرتی کے سینے پر خوبصورت
شاہراہوں کی شکل میں عوام کے لئے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتے۔مگر اس وقت
موٹر وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ہر جانب کسی پینڈو کی ٹنڈ پر چلے استرے کے
’’نیلے پیلے ‘‘پچ ہی ہے نظر آتے ہیں۔نئی نویلی موٹروے پراگر کوئی چائے
وغیرہ بھی لے کر بس میں داخل ہو جاتا تھا تو بڑے اطمینان سے چسکیاں لے کر
چائے پیتا تھا۔اب یہ حال ہے جھٹکے سے چائے اگر چہرے پر نہیں تو دامن کو
ضرور داغ دار کرتی ہے۔ بس کے ایک زوردار جھٹکے پر چچا دولا قے سے بچنے کے
لئے گھریلو اچار کی ایک پھانک منہ میں چاٹتے ہوئے حلق میں پھنسائے بیٹھے
تھے۔اور چاچی ان کی پشت پر مکے مارتے ہوئے کسی ینگ ڈاکٹر کا کردار ادا کر
رہی تھی۔
نوخیز روڈ ہوسٹس اور جیرا کنڈکٹر
ایک دور تھا جب بس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک کنڈکٹر/ کلینر ضرور ہوتا تھا ۔اس
کے ذمے بہت سے کام ہوتے تھے چونکہ اس وقت ’’وقت ‘‘ آزاد تھا مسافر اپنے
گھروں میں سب عزیز اقارب سے مل کر عازم سفر ہوتے تھے ۔کیونکہ وہ اپنے ہر
سفر کو آخری سفر کا درجہ دیتے تھے۔گاڑی کے پیچھے جلی حروف میں حد رفتار 65
کلو میٹر فی گھنٹہ لکھا ہوتا تھا جسے تین یا چار گھنٹہ بننے میں زیادہ دیر
نہیں لگتی تھی ۔’’کسی کے باپ میں بھی اتنی جرات ‘‘ نہیں ہوتی تھی کہ وہ
استاد یا جیرے سے ’’تاں ٹھاں ‘‘ ہو سکے۔ جیرے کی کشکتی ٹنڈ اور استاد کی
اپنے سے دو بندے آگے کو بڑھی ہوئی توند استاد اور شاگرد کا تعارف ہوتی
تھی۔جیرے کے ذمے بس سے متعلقہ ٹکٹ کاٹنے سے لے کر ٹائر چیک کرنے تک سب کام
تھے جب کہ استاد کے ذمے سونا یا گاڑی چلانا ہوتا تھا۔ اس دور میں نہ صرف
سواریوں کو سیٹوں پر ایک زائد کے ساتھ بٹھایا جاتا تھا بلکہ بس میں سواریوں
کی تہہ لگانا ایک اضافی خوبی سمجھی جاتی تھی۔بہت سے بابوں کا دل بس کے اندر
گبھراتا تھا اس لئے ان کے لئے چھت پر ہوا دار سفر کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
گرمیوں کی دوپہر ہوتی یا سردیوں کی یخ بستہ راتیں جب گاڑی ڈولتی تو جیرا
بڑے اطمینان سے ’’پنچر‘‘ ہو گئی ہے کی صدا لگاتا استاد سے زیادہ گاڑی کے
فالٹ کی جیرے کو سمجھ ہوتی تھی۔۔ سفر میں کبھی استاد تھک جاتا تو جیرے کا
ہاتھ ’’سیدھا ‘‘ کروانے کے لئے اسے گاڑی چلانے کی اجازت دیتا ۔جب گاڑی سڑک
سے اتر جاتی یا کسی ہلکے پھلکے درخت سے ٹکرا جاتی تو استاد اس سے اسٹیرنگ
پکڑ لیتا ’’او کابھر ناں ۔ بن جائے استاد تو وی میں نے تو ہاتھ سیدھا کرنے
میں پندرہ بیس بندے پھٹٹر کردیئے تھے تو ،تو ان کے نک اور منہ سے صرف لہوہی
نکالتا ہے۔ ‘‘ سواریوں سے فارغ ہونے کے بعد جیرے کی ڈیوٹی میں یہ بھی شامل
ہوتا کہ ڈرئیوانگ کے دوران وہ استاد کو جگا کر رکھے اس مقصد کے لئے پہلے
باتوں پھرگانوں سے کام لیا جاتا۔ جب عالم لوہار ،استاد مہدی حسن یا دوسرے
گلوکار تھک جاتے تو پھرجیرابھی تھک جاتا ۔ہاں جیرے میں ایک خصوصیت تھی
استاد کی ڈولتی آنکھوں کو دیکھ کر وہ بھی ڈول سا جاتا مگر جب بھی گاڑی
ٹکرانے کی نوبت آتی وہ نہ صرف خود جاگ جاتا بلکہ استاد کو بھی چیخ کر اٹھا
دیتا۔ پاکستان ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔اور میری ناقص تحقیق
کے مطابق صرف پاکستان ہی واحد ملک ہے جہاں روڈ ہو سٹس سے کام لیا جا رہا
ہے۔ایک نجی کمپنی ڈائیوو کے بعد ہمارے ملک عزیز کے بہت ’’نقلچے‘‘اس میدان
میں بھی قدم رکھ چکے ہیں۔ری کنڈیشن گاڑیاں خرید کر اس میں اپنی طرف سے مزید
سیٹوں کا اضافہ کرکے وہ ڈائیوو کا ماحول پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اصل ،نقل
میں سب سے برا فرق یہی ہے کہ ڈائیوو کی سیٹ کو آپ جتنا مرضی پیچھے کر لیں
پچھلی سواری کسی صورت نہیں چیخے گی۔جب کہ ان بسوں میں اگر آپ نے پچھلی
سواری کو مطلع کئے بغیر سیٹ پیچھے کی تو ’’ہائے میرے گوڈے‘‘ آواز کے ساتھ
ایک کراہ کی صدا بلند ہو گی اور اگر آپ منحنی بدن کے مالک ہیں تو اس کراہ
کے ساتھ کرارہ ہاتھ بھی ڈرون اٹیک کر سکتا ہے۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ اگر آپ
نے دفتر میں اپنے سٹاف کوڈیوٹی کا پابند بنانا ہے تو چند خواتین بھرتی کر
لیں ۔دفتر نہ صرف مختلف خوشبوؤں سے مہلکتا نظر آئے گا بلکہ مر د حضرات وقت
سے پہلے تشریف لائیں گے اور وقت کے بعد جائیں گے۔ان بسوں میں آپ کو اپنے
محلوں میں بد تمیزی کی آخری سر حدوں کو چھونے والے بھی معزز نظر آئیں گے۔
سردی ہو یا گرمی بہت سے ٹھرکی حضرات کی ’’پیاس ‘‘ ہی ختم نہیں ہوتی۔ان بسوں
میں ’’استاد ‘‘ کی جگہ ایک سلم اور سمارٹ ڈرائیور نے لے لی ۔جو بڑی ذمہ
داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس کو دئیے ہوئے وقت سے پہلے پہنچا دیتا ہے۔اور
ہائے ’’جیرے‘‘ کی بہت سی ذمہ داریوں کو ڈی وی ڈی نے اٹھا لیا ہے۔ہاں استاد
کو جگائے رکھنے کی ذمہ داری نوخیز روڈ ہوسٹس کے ذمے ہے اور اس ذمہ داری کو
وہ بہ احسن سلیقے سے نبھا رہی ہے۔’’محویت‘‘ سے استاد اور ہوسٹس چونک اٹھتے
ہیں جب ایک برقی ٹن ٹن کی آواز بلند ہوتی ہے۔جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
کسی کی ’’پیاس ‘‘ بڑھ گئی ہے۔
موٹر وے کی آمدنی میں مزید اضافہ ممکن ہے
موٹر وے کی تعمیر کے ساتھ ڈائیوو کمپنی نے روڈ کے ساتھ ’’قیام و طعام ‘‘بھی
متعارف کروائے۔جہاں پر اعلٰی معیار کے کھابے ،دستیاب ہوتے تھے۔معیار کے
اعتبار سے ان کے ریٹس بھی آسمان کو چھوتے محسوس ہوتے تھے۔موٹر وے کی
مہنگائی کے بارے میں قد آوار کالم نگاروں سے لے کر’’کھمبی ‘‘ کالم نگار بھی
ان ’’ڈھابوں ‘‘کے مہنگا ہونے کے بارے میں معلومات میں اضافہ کرتے رہتے
ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ ان ’’قیام و طعام ‘‘ پر نہ تو معیار ہی رہا اور
مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔اب یہ تو معلوم نہیں کہ ان ’’قیام و طعام
‘‘سے حکومتی ٹیکس کتنا ہے۔ان مراکز پر آمدنی میں مزید اضافہ ممکن ہے جس کی
طرف نہ جانے کیوں نظر نہیں جا سکی۔ قیام و طعام پر بیت الخلا بالکل فری
ہے۔وہ بھی یورپین سٹائل میں کموڈ، لیکوڈ صابن ،گرم ہواکے ساتھ گیلے ہا تھوں
کی خشکی۔یہ ایسے لوازمات ہیں کہ ان کے جتنے بھی چارجز نافذ کئے جائیں ان کی
ادائیگی ممکن ہے۔لاہور کے بادامی باغ بس اسٹینڈ کی طرح، موٹر وے پر بھی
’’وڈے چھوٹے‘‘ کا ایک ہی ریٹ پانچ سو فی صد اضافے کے ساتھ نافذ کر دیا
جائے۔کیونکہ بندہ بھوکا رہ سکتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔ |