وطن عزیز کی سیاسی صورتحال اس وقت بہت
دھماکہ خیز ہوگئی ہے اور ہر لمحہ بدلتی صورتحال میں قبل از وقت کچھ کہنا
مشکل ہے کہ کل کیا ہوجائے۔شریف برادران کی نااہلی کے فیصلے کے بعد حالات
بڑی تیزی سے کروٹ بدل رہے ہیں۔اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی
نااہلی کے فیصلے سے انہیں فائدہ پہنچا ہے کیوں کہ شریف برادران نااہلی سے
پہلے بھی ججز بحالی ایشو پر بات کر رہے تھے لیکن ان کی بات میں وزن نہیں
تھا کیوں کہ نواز شریف صاحب نے آغاز میں جب الیکشن کے فوری بعد جوڑ توڑ
ہورہی تھی اور زرداری صاحب ابھی صدر نہیں بنے تھے اس وقت ایک کمزور آصف علی
زرداری کے لیے نواز شریف کی بات رد کرنا بہت مشکل ہوتا لیکن اس وقت نواز
شریف نے مصحلت کے تحت اس ایشو پر زیادہ بات نہیں کی بقول نواز شریف کے کہ
وہ زرداری صاحب پر اعتماد کررہے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔لیکن اگر دیکھا
جائے تو شریف برادران نے حالیہ الیکشن کے بعد سے ہی آگے کی پلاننگ کرلی تھی
اور تجزیہ نگاروں کا بالکل ٹھیک کہنا تھا کہ یہ الیکشن نواز شریف کے نہیں
ہیں نواز شریف اس الیکشن سے صرف وارم اپ ہورہے ہیں اور ان کی نظر اگلے
الیکشن پر ہے۔دوسری بات یہ کہ نواز شریف نے جب پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھانے
کا موقع تھا تو اس وقت انہوں نے پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کو ترجیح
دی۔اور اب جبکہ پیپلز پارٹی اور بالخصوص زرداری صاحب ایک طاقت ور پوزیشن
میں ہیں تو اب انہوں نے اپنا مطالبہ دہرانا شروع کیا ہے۔ بہرحال اس وقت
صورتحال نواز شریف صاحب کے حق میں جارہی ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کی مایوس
کن کارکردگی، اور نواز شریف کے مؤقف کی عوام میں پذیرائی کے باعث شریف
برادران اس وقت میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حکومتی کیمپ میں اس وقت ہل چل مچی ہوئی ہے کیوں ق لیگ نے غیر
متوقع طور پر حکومت کے بجائے ن لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ موجودہ
حکومت کے لیے ایک دھچکہ ہے کیوں کہ ق لیگ نے جس طرح ماضی میں پرویز مشرف کا
ساتھ دیا تھا اور اس وقت بھی حکومت کی حامی اور بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ
کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے اس تناظر میں ق لیگ کی جانب سے نواز
شریف کے ساتھ یکجہتی کے اظہار نے موجود حکومت کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا
کردی ہے۔ لیکن ق لیگ کی جانب سے ن لیگ کی حمایت میں بھی ایک بہت بڑا طوفان
چھپا ہوا ہے کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو ق لیگ کے اس فیصلے میں قوم پرستی کا
تاثر پایا جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ق لیگ نے سندھی کی حکومت کے بجائے
پنجابی کی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اگر یہ بات صحیح ثابت
ہوگئی تویہ بات ملی یکجہتی کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔اور اس کے اثرات پورے
ملک پر پڑیں گے۔اس فیصلے سے پورے ملک میں تعصب اور قوم پرستی کی آگ بھڑک
اٹھے گی جس کو بجھانا بہت مشکل ہوگا۔
تیسری طرف جماعت اسلامی بھی کمر کس کر میدان میں آگئی ہے اور اس نے بھی
وکلاء کے احتجاج اور دھرنے میں بھر پور شرکت کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں
چند روز پیشتر مشیر داخلہ رحمٰن ملک صاحب نے قاضی حسین احمد سے ملاقات
کرکےان سے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کی ہے جس سے حکومت کی گھبراہٹ
کا اظہار ہوتا ہے یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اسوقت موجودہ
سیاسی پارٹیوں میں صرف جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ ہی وہ دو
پارٹیاں ہیں جو کہ اسٹریٹ پاور رکھتی ہیں اور وہ کسی بھی وقت اپنے کارکنان
کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لیے حکومت کی گھبراہٹ سمجھ میں
آتی ہے۔ بہر حال اس سیاسی رابطوں کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ نواز
شریف نے سترہ سال کے بعد منصور میں جاکر قاضی حسین احمد سے ملاقات کی ہے
اور اس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔
ادھر حکومت نے اس ساری صورتحال کو سمجھنے اور وقت حاصل کرنے کے لیے ایک تو
گورنر راج نافذ کردیا ہے۔اور دوسری طرف ایک متنازعہ ایشو کو چھیڑ کر شریف
برادران کے خلاف حکمت عملی کا آغاز کردیا ہے اور حکومت کی طرف سے فی الحال
اور کوئی ایشو نہیں ہے تو اس لیے بینظیر کی یاد گار کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے
حالانکہ لیاقت باغ جہاں محترمہ کو قتل کیا گیا وہاں کوئی باقاعدہ یاد گار
نہیں تھی اور صرف محترمہ کی تصاویر وہاں لگی ہوئی تھیں جن کو مشتعل مظاہرین
کو پھاڑ دیا ۔اس صورتحال میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر بھٹو کارڈ استعمال
کرتے ہوئے اس کو محترمہ کی یاد گار کی بے حرمتی کہہ کر عوام کے جذبات کو
بھڑکانے کی کوشش کی اور اس میں ایک حد تک کامیاب بھی رہی۔اس کے ساتھ ساتھ
متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس ایشو پر پی پی پی سے بھی بڑھ کر رد عمل کا
اظہار کیا اور اس واقعے کی مذمت میں اتوار کو ایک ریلی کا اہتمام کیا۔
متحدہ قومی موومنٹ نےابتداء میں اس مسئلے پر محتاط رویہ اپنایا تھا مگر پھر
اس نے کھل کر ن لیگ کی مخالفت شروع کردی ہے۔حکومت اوراپوزیشن کی کشمکش میں
شہباز شریف نے بھی ایک شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ وزیر اعظم گیلانی نے لانگ مارچ
میں شرکت کا وعدہ کیا ہے۔ بظاہر ان کے اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں ہے
لیکن اس سے انہوں نے حکومتی کیمپ میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے اور
زرداری صاحب اور وزیر اعظم صاحب کے تعلقات کے حوالے سے آج کل جو افواہیں اڑ
رہی ہیں انکے تناظر میں اس کے بہت دور رس نتائج نکلیں گے۔
ادھر اس ساری صورتحال میں سب سے آرام سے اگر کوئی بیٹھا ہے تو وہ گورنر
پنجاب سلمان تاثیر ہیں کیوں کہ اس ساری صورتحال کی بڑی ذمہ داری ان کے غیر
ذمہ دارانہ رویہ اور ن لیگ سے محاز آرائی پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اول روز
سے ان کے رویہ پنجاب حکومت سے معاندانہ تھا اور وہ پنجاب حکومت کے خلاف
سازشیں کر رہے تھے۔اس حوالے سے ان کی تیاری اور ہوم ورک کا اندازہ اس بات
سے لگایا جاسکتا ہےکہ انہوں نے نا اہلی کا فیصلہ آنے سے کئی دن پیشتر ہی
پنجاب حکومت کی رخصتی اور پنجاب میں پی پی پی کی حکومت کا اشارہ دیدیا
تھا۔اور نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد جیسے ہی گورنر راج نافذ ہوا تو اگلے ہی
دن انہوں نے ن لیگ کے حامی افسران کو نکال باہر کیا اور اپنے من پسند افراد
کا تقرر کردیا ۔اس سے ان کی تیاری کا اندازہ ہوتا ہے۔اور اس وقت بھی ان کو
اس ساری صورتحال کی کوئی فکر نہیں ہے۔
یہ تو ساری موجودہ صورتحال کا ایک جائزہ تھا۔اگر اس جائزہ کے بعد ہم یہ
دیکھنا چاہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط تو اس کے لیے ہمیں انفرادی طور پر
حکومت اور اپوزیشن کے موقف کا جائزہ لینا ہوگا۔نواز شریف کے مخالفین ان پر
یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جمہوری سیٹ اپ کو متاثر کیا اور ان
کی وجہ سے سسٹم کو خطرہ لاحق ہے۔کیوں کہ اگر وہ تحریک کا اعلان نہ کرتے اور
عدلیہ کے فیصلے کو قبول کرلیتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور بات چیت کے ذریعے
یہ مسئلہ حل کردیا جاتا اور دوسرا الزام ان پر ان کے ماضی کے حوالے سے
لگایا جاتا ہے۔کہ ماضی میں انہوںے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔اور مخالفین کو
دیوار سے لگانےکی کوشش کی۔دوسری طرف نواز شریف کا کہنا ہے ججز کی بحالی اور
آزاد عدلیہ کے بغیر جمہوری سسٹم کبھی مستحکم نہیں ہوگا۔اور انکا یہ بھی
موقف ہے کہ زرداری صاحب نے اپنے قول و اقرار کی پاسداری نہیں کی اس لیے ان
پر مزید اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ انہوں نے صدر زرداری پر بزنس
ڈیل کا بھی الزم لگایا ہے۔حکومت کی اہم اتحادی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی
نواز شریف کی کھل کے مخالفت کی ہے اور انکو ماضی کے حوالے سے معطون کیا
ہے۔اب اگر ان تمام پارٹیوں کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات نظر آتی
ہے کہ اگر چہ شریف برادران کا ماضی عدلیہ اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کے
حوالے سے واقعی داغدار ہےاور ان کی ماضی کی غلط بیانیاں بھی سب کے سامنے
ہیں لیکن اب انہوں نے اپنے ماضی کی غلطیاں نہ دھرانے کا عہد کیا ہےاور وہ
اس موقف پر قائم ہیں کہ پاکستان کو مستحکم کرنے لے لیے عدلیہ کا آزاد ہونا
ضروری ہے،اور مشرف دور کے عدلیہ کے خلاف کیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار
دینا ہوگا۔نواز شریف ابھی تک اپنے اسی موقف پر قائم ہیں۔اور یہی ان کی سب
سے بڑی اخلاقی فتح ہے۔جب کے حکومتی کیمپ کا دامن اس حوالے سے خالی نظر آتا
ہے۔کیوں کہ اول تو صدر پاکستان کا ماضی ان کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے
اگرچہ لوگ انکے ماضی کو فراموش بھی کردیں تو انکی موجودہ حکومت کی مایوس کن
کارکردگی اور بطور صدر اور ایک ذمہ دار فرد کے وعدہ خلافیاں کرنا اور بات
کا پکا نہ ہونا عوام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور اسی وجہ سے انکی
پوزیشن نواز شریف کے مقابلے میں کمزور ہے۔اگر حکومت کی اتحادی متحدہ کا
جائزہ کیا جائے تو وہ بھی کوئی اچھی پوزیشن نہیں رکھتی ہے کیوں کہ نواز
شریف کے دوسرے دور سے لیکر موجودہ حکومت تک متحدہ نے ہر حکومت کی حمایت کی
اور ہر حکومت میں شامل رہی ہے۔اس لیے ان کی بات میں بھی اتنا وزن نہیں ہوتا
ہے اور بارہ مئی کے سانحے کے متحدہ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اور یہ
بھی ایک حقیقت ہے اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ سامنے آتی ہے
کہ حکومت کے پاس نواز شریف کے خلاف سوائے ماضی میں ان کے عدلیہ پر حملے کے
علاوہ کوئی اور ایشو نہیں ہے جبکہ نواز شریف کے پاس حکومت کےخلاف کافی
ایشوز ہیں۔اس لیے صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ شریف برادران کے خلاف کیا گیا
فیصلہ خود حکومت کے لیے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
ایک طرف تو یہ ساری صورتحال ہے تو دوسری طرف چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق
پرویز کیانی کا حالیہ دورہ امریکہ موجودہ ملکی حالات، سرحدوں کی
صورتحال۔اور ممبئی دھماکوں کے پس منظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔اب یہ
صورتحال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے کہ جمہوریت پر ایک بار پھر آمریت کے سائے
منڈلا رہے ہیں۔ یا پھر دوسری صورت میں صدر زرداری کا پاکستانی سیاسیت میں
کردار ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔کیوں کہ اگر آرمی ٹیک اوور نہیں کرتی ہے تو پھر
صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے زرداری صاحب کو اس سیٹ اپ سے باہر کرنا
لازمی ہوجائے گا ۔اب دیکھں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے بقول شاعر یہ
ڈرامہ دکھلائے گا کیا
سین -پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ |