جب کہا زخموں پہ میرے ڈال تھوڑا
سا نمک
ہنس کے وہ کہنے لگا "یوں مفت ہے کس کا نمک "
کیجئے ہاں اُن کو مجھ سے خوب بد ظن کیجئے
اپنی باتوں میں لگائیں اور بھی تھوڑا نمک
جمہوری حکومت جب کمزور اور حزب اختلاف مضبوط ہو تو حکومت کی توجہ عوام اور
مملکت کی فلاح بہبود سے زیادہ حزب اختلاف کے ہتھکنڈوں اور حملوں سے خود کو
بچانے ، اس کے اراکین کو خریدنے،اپنے اراکین کے ناز و نخرے اٹھانے میں صرف
ہوجاتی ہے۔بھلا ایسی صور ت میں مملکت کیا ترقی کرے گی ، اس کے برعکس اگر
جمہوری حکومت مضبوط اورحزب اختلاف کمزور ہو تو وہ حکومت جمہوری ہونے کے
باوجود مطلق العنان بن جاتی اور اِس حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی
سیاسی جماعیتں حق حکمرانی کو وارثتی میراث سمجھنے لگتی ہیں۔
کچھ ایسا ہی حال سندھ کی حکومت کا ہے جہاں حزبِ اختلاف نہ ہونے کے
باوجودساڑھے چار سال اقتدار کی مضبوطی کےلئے جس قدر کوشش کی گئیں ، وہ بھی
تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈینس رات گئے بالاآخر
جاری ہوگیا ۔ پوری قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس انتظار میں تھی کہ سندھ
کی اتحادی جماعتوں کے درمیان گلے کی ہڈی بننے والا بلدیاتی نظا م کا اونٹ
کس کروٹ بیٹھے گا ؟ ۔آرڈینس جاری ہونے سے قبل حسب سابق میڈیا میں ٹریلر
چلایا گیا ، اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے نام پر قوم کے دل و دماغ پر
نفسیاتی ضربیں لگائی گئیں۔سب کو معلوم تھا کہ کون مانے گا اور کون نہیں
مانے گا ، لیکن اس بار ایسا لگتا تھا کہ ایم کیوایم نے طے کرلیا ہے کہ اونٹ
کو رکشے میں بیٹھانا ہے اور پیپلز پارٹی نے بھی طے کرلیا کہ کہ چاہیے اونٹ
کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں لیکن ایسے رکشے میں سوار کراکر ہی چھوڑیں گے۔آخر
ایسا کیا تھا کہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانونی نکات کے املا و
گرامر درست نہیں ہو پا رہے تھے ، سندھی قوم پرست جماعتیں ایسے بار بار سندھ
کی تقسیم قرار دینے کی کوشش کیوں کر رہی ہے اور خیبر پختونخوا کے سینیٹر
زکو کراچی کے معاملات میں متشدد ، متعصب بیانات دینے کی کھلی چھوٹ کے مقاصد
کیا ہیں ؟ ۔پنجاب کی جانب سے سندھ میں نئی صف بندی دیہی علاقوں میں تو
تھوڑا بہت اثر ڈال سکتی ہیں لیکن شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی مضبوط
گرفت کے باعث پریشانی صرف پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی ہے
جنھوں نے جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی وجہ سے قوم پرستی کا واویلا کرکے ووٹ
حاصل کئے لیکن ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی معاشی اور ذاتی پوزیشن
مضبوط کرنے میں خرچ کی۔گذشتہ چند سالوں میں سندھ کی سیاست کا نقشہ مکمل بدل
چکا ہے ۔ قوم پرستی ، لسانیت اور فرقہ واریت کی لہر نے سینکڑوں گھروں کے
چراغ بجھا دئےے ہیں،ہزارں سہاگنیں اپنے ادھورے خوابوں کا ماتم کر رہی ہیں ،ان
گنت معصوم بچے ، اپنے بھائی ، اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوچکے ہیں۔
ملک کے دوسرے صوبوں کے برعکس سندھ صوبے میں تقریبا تمام سیاسی جماعتیں
تحفظات کا اظہار کرنے میںپس و پش سے کام نہیں لیتی ،عوام کے مسائل حل کرنے
سے زیادہ بڑھانے کی سیاست کو دوائم بخشا جاتا ہے۔کراچی ، حیدرآباد ، جام
شورو ، سکھر ، میر پور خاص اور دیگر علاقوںکو دیہی و شہری تفریق کے نام سے
تقسیم سندھ کی سازش قرار دی جاتی ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے الا نہیں کہ صرف
سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے اور متواتر جاری رکھنے کے جد امجد کون تھے
اور صرف سندھ میں کوٹہ سسٹم جاری رکھنے کے سر خیل کون ہیں ؟ ۔شہری علاقوں
اور دیہی علاقوں کے درمیان احساس محرومی کیا پنجاب کے ان دیہاتوں سے کم
نہیں ہے جہاں کے باسی اپنے وزیر اعلی کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔اگر یہ
احساس محرومی وہاں زیادہ نہیں ہے تو پھر پنجاب کی تقسیم کیوں کی جا رہی ہے
؟ ۔ لوگ بھی وہی ہیں ، وسائل بھی وہی ہیں ؟ ارباب اختیار بھی وہی ہیں؟ لیکن
وجہ صرف اتنی ہے کہ نیتوں کا فتور ہے جس نے جنوبی پنجاب کے عوام کو جداگانہ
صوبے کی جانب مائل کیا ۔ پنجاب میں دو صوبے بنیں یا تین صوبے بنیں ۔ اس سے
سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا کی عوام کو بھلا کیا فائدہ ہوگا ؟ ۔بلکہ
ان کے وسائل مزید نئے بننے والے صوبوں میں تقسیم ہونگے ۔فائدہ تو پنجاب کی
عوام کو ہی پہنچے گا ، تو پھر وسائل کی اس غیر منصفانہ تقسیم میں سب حصہ
کیوں لینا چاہ رہے ہیں ، وہاں بیٹھ کر تحفظات کا اظہار صرف سندھ کے لئے
کیوں کیا جاتا ہے ۔حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ کمشنری نظام میں کتنے
کمشنر پختون آئے تھے جو ان کے مسائل حل کرتے ، یقینی طور پر سندھ میں بسنے
والے لاکھوں پختونوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ سندھ میں کتنے پختون
کمشنر ، یا ڈپٹی کمشنر بنے ہیں ۔ لیکن و ہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کے
علاقے میں کونسلر ضرور ان کی مرضی کا بنا ہے ، یونین ناظم بھی ان کی قوم کا
بنا ہے ۔ ٹاﺅن ناظمین اور نائب ناظمین تک پختون بنے تو ان کے مسائل کے حل
کے لئے ہر وقت ان کے علاقے ، سرکاری دفتر میں موجود پائے گئے ۔غیر سیاسی
حلقوں کے مطابق ناظمین کے نظام میں جہاں سندھی ، مہاجر کو فائدہ ملا تو
وہاںسب سے بڑا فائدہ پختونوں کو ہوا کہ 63سالوں میں لاکھوں کی تعداد رکھنے
کے باوجود ان کے نمائندے ، یا سرکاری افسران دستیاب نہیں ہوتے تھے لیکن جب
مقامی حکومت کا نظام آیا تو شناختی کارڈ کی تصدیق کرانے کے لئے انھیں پانچ
گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔
عرض صرف اتنی ہے کہ سندھ میںبلدیاتی نظام کے حوالے سے سندھ کے مقامیوں کو
فیصلہ کرنے دیں ۔ اگر آپ سندھ میں رہتے ہیں ۔ اس دھرتی میں کماتے ہیں ،
یہیں خرچ کرتے ہیں ، اگر آپ کا جینا مرنا اس دھرتی کے ساتھ ہے آ پ خود کو
مہمان نہیں بلکہ سندھ دھرتی کے فرزند سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو مکمل اختیار
ہے کہ سندھ کے مقامی ہونے کی حیثیت سے اپنے تحفظات کا اظہار کریں ۔ لیکن آپ
رہتے کہیں اور ہیں ، مقامی دوسرے صوبے کے ہیں ، منتخب دوسرے صوبے سے ہوئے
ہیں تو عبداللہ کی شادی میں دیوانہ کیوں بن رہے ہیں ؟۔سندھ کے باسیوں کو
اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں ، ہمیشہ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیوں
کرتے ہیں ؟۔ زخموں کو تازہ کرتے ہیں اور پھر نمک بھی چھڑک کر تماشہ دیکھتے
ہیں ،سندھ کے تمام مقامی اور غیر مقامی بھائیوں سے التجا کرتا ہوں کہ فیصلہ
آ پ کے ہاتھ میں ہے ۔ سندھ کی عوام جو فیصلہ کرےگی ایسے ساری دنیا کو قبول
کرنا ہوگا ؟ |