نظامان دکن قیام تاسقوط حیدراباد! بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں

سانحہ حیدرآباد کو صفحات پر اتارنا ممکن نہیں اس قدر اختصار کے باوجو مضمون طویل ہوتا جارہاہے۔ اس میں مجلس اتحادالمسلمین اور اس کے سربراہ مجاہد اعظم صدیق دکن محمد قاسم رضوی اور نہ جانے کتنوں کا ذکر تفصیلاً نہیں ہوپایا۔ چونکہ میراتعلق بھی اس ریاست سے تھا جو اب نہیں رہی (بھوکر :ضلع ناندیڑ) جہاں سے چند کلومیٹر دور عمری ہے جہاں اسٹیٹ بینک لوٹا گیا۔ ناندیڑ جہاں عثمان شاہی مل ہوا کرتی تھی جسے اب ناندیڑ ٹیکسٹائل کردیا گیا ہے ۔ میر ے گاﺅ ں کی لگ بھگ تین سو سے چار ایکڑ زمینات پرغاصبانہ قبضہ کرلیا گیا جو مسلمانوں کی ملکیت تھی۔ یہ تو ایک چھوٹا واقعہ ہے اور صرف ایک گاﺅں کی بات ہے ۔یہ ظلم و ستم تو ساری ریاست حیدرآباد میں جاری تھا ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کس قدر مسلمانوں کو تاراج کیا گیا اور غربت کی طرف دھکیلا گیا۔اس مضمون کو لکھتے ہوئے جانے کتنی بار آنکھیں نم ہوئیں۔ اگر یہ مضمون کسی منسو ب کرنا ہوتو میں اسے ملت اسلامیہ ہند و دکن کے ان گم نام مجاہدین کے نام کرنا چاہوں گا جنھیں انکے اور خدا کے سوا کئی نہیں جانتا۔

نادرشاہ کے توسیع پسندانہ عزائم اور سفاک طبیعت نے دلی میں وہ تباہی مچائی کہ آج تک تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ موجودہ ہند کی تاریخ میں ہوئے فرقہ وارنہ فسادات بھی اس قدر تباہ کن ثابت نہیں ہوئے جس قدر نادرشاہ کے وقت کے گئے۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ صرف ایک ہی دن میں تقریباً 20,000 ہزارافراد قتل کردیے گئے۔ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ دلی کی کئی بستیاں مکینوں کے ساتھ جلادی گئیں۔ عورتوں معصوم بچیوں کی عصمتوں کو روندا گیا۔ کئی لوگوں نے اپنے اہل وعیال کو اس ظلم سے بچانے کی خاطر دل پر پتھر رکھتے ہوئے قتل کردیا۔ بعد میں خود نادرشاہی فوج کے ہاتھوں اذیت ناک موت کا شکار ہوئے۔ کئی خواتین نے اپنی عصمتوں کی حفاظت کی غرض سے ہنستے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔کنوئیں میں کود گئیں۔

مرد آہن ہند، مدبرہند و مدبرملت:۔
ایسے میں ایک مرد آہن ہند اُٹھتا ہے اور نادرشاہ سے جاکر کہتا ہے کہ اس قدر خون بہانے کے بعد بھی کیا آپ کی پیاس نہیں بجھی؟ اگر نہیں بجھی تو ان شہر کے گلی کوچوں میں بکھری ہوئی نعشوں کو زندہ کردو اور پھر انہیں دوبارہ قتل کردو۔ شاید اس سے آپ کی پیاس بجھے۔ کیونکہ اب تو سارے شہر میں کوئی نہیں بچا کہ انھیں قتل کر کے پیاس بجھائی جائے۔ بات سچی تھی اور پورے کرب سے نکلی تھی اس لےے نادرشاہ کے دل پر اثر کر گئی اس نے قتل عام کو رکوادیا۔

یہ مردآہن جس نے نادرشاہ جیسے ظالم و سفاک حکمراں کے آگے حق گوئی کی تھی وہ تھے فخر ملک و ملت نظام الملک(اول) میر قمرالدین چین خلیج خاں آصف جاہ ؒ۔

قیام دکن:۔
مدبر ہند نے جب دیکھا کہ سلطنت مغلیہ اب خود کے دفاع کے لےے بھی محتاج ہوچکی ہے تب انھوں نے حالات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ریاست دکن حیدرآباد کی بنیاد رکھی مگر طبیعت میں اس قدر نمک حلالی شامل تھی کہ خود کو مطلق العنان بادشاہ ظاہر کرنے کے بجائے سلطنت مغلیہ کا ایک نواب ہی کہلوانا پسند کیا۔ اس ریاست کے آخری حکمراں تک خود کو نواب ہی کہلاتے رہے۔ کاش مدبر ہند نے آگے بڑھ کر سارے ہندوستان کا نظم و نسق ہی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ! تو آج کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی یہ سر زمین مسلمانوں پر اس قدر تنگ نہیں ہوتی۔

یہ سلطنت شمال میںبھوپال تک ، جنوب میں کرناٹک ( ارکاٹ)اور مدراس تک، مشرق میں احمدنگر سے پونہ تک اور مغرب میں مدراس (موجودہ تامل ناڈو اور اڑیسہ)تک پھیلی ہوئی تھی۔ حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی زمین زرخیز اور معدنیات سے بھر پور تھیں۔ خاص طور پر گولکنڈہ کی ہیرے کی کانیں اور وہاں سے نکلے ہوئے ہیرے عالمی شہرت کے حامل تھے۔رعایا کا حال آج کے مقابلے کئی گنا بہتر تھا۔ حکومتی ادارے بدنظمی اور بددیانتی سے صاف تھے۔معاشرہ فرقہ پرستی سے پاک تھا۔ مگر ان سب کے باوجود مدبر ہند آصف جاہ (اول) کی طرح کوئی باہمت و حوصلہ مند، موقع شناس فرمان روا اس سلطنت کو نہ مل سکا ، جو ملے وہ اس قابل نہ تھے کہ اس سلطنت کی زمام حکومت کو تھام سکے، اور جو قابل اور تخت کا حق ادا کرنے کے قابل تھے انہیں اندرونی سازشوں کی تحت راستوں سے نہ صرف ہٹایا گیا بلکہ انہیں اپنی قابلیت اور ایمانداری کے سبب جان بھی دینی پڑی۔

ٹیپوؒ کی بددعا:۔
نواب صلابت جنگ نے میسور کے حیدرعلی سے دوستی کر ایک بہترین پہل کی تھی مگر اندرون ریاست اقتدارکے لےے جاری خانہ جنگی نے اس پہل کو کسی نتیجے پر نہیں پہنچنے دیا ۔ بعد میںجب میرنظام علی خان آصف جاہ (دوم)برسر اقتدار آئے تب اس ریاست کا نصیب مکمل غیر ملکی حکمرانوں کے ہاتھوں چلا گیا۔ یہی وہ موقع پرست و عیش پسند حکمراں تھا۔ جن کے دور میں سپوت ملک وملت شیرہندوستان سلطان فتح علی ٹیپوشہید ہوئے اور یہ انگریزوں اور مرہٹوں کے ساتھ جشن منانے لگے ۔شاید یہ سلطان شہید کا ساتھ نہ دینے کا عذاب تھا جو ایک مضبوط اور خودکفیل ریاست ہونے کے باوجود آزادی کے بعداسے اس طرح سے تخت و تاراج کیا گیا جیسا کہ فقط کسی جاگیردار سے حکومت جاگیر چھین کر اسے بے دخل کردیتی ہے۔

نااہل حکمراں ودرباری امرائ:۔
نظام علی خان کے دورحکومت اور اسکے بعد بھی ریاست کو کوئی قابل حکمراں نصیب نہیں ہوا۔ نظام علی خان نے خود انگریزوں ساز باز بڑھائی انگریزوں نے انہیں سبز باغ دکھاتے ہوئے عہد معاونت (تعناتی فوج ) کے منصوبے کو ریاست پر لاد دیا۔ جس کے عوض حیدرآباد کی آزادی متاثر ہوگئی۔ اب نظام کے پاس فوج ہونے کے باوجود وہ کسی پر حملہ کرنے اور اپنی مدافعت کے لےے وہ مکمل ایسٹ انڈیا کمپنی کی مرضی و مدد کے محتاج ہوگئے۔ آگے چل کر انگریزوں کا عمل ودخل اس مملکت میں بڑھتا چلاگیا ۔ انگریز حیدرآباد کے دربار میں اسقدر حاوی ہوچکے تھے کہ نواب کے خاندان میں جاری تخت نشنی کی جنگ میں ثلاثی کے بجائے حکم بن کر فیصلہ صادر کرنے لگے کہ کسے تخت پر بیٹھنا چاہےے۔ آگے چل کر1857 میں اگر ملکہ وکٹوریہ کا اعلان نامہ نہیں آتا تو یہ ریاست اسی وقت ختم ہوچکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کوتاہیوں کے باوجو د اس مملکت کو جلا بخشی مگر اس کے حکمراں صحیح روش پر نہ آسکے۔

اگر نظام ساتھ نہ دیں گے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا:۔
1857 میں نواب ناصرالدولہ اصف جاہ ( چہارم )کا انتقال ہوا تو افضل الدولہ آصف جاہ (پنجم) تخت نشین ہوئے ۔ یہ بھی اپنے سابقہ نوابان کی طرح اپنے جد اعلیٰ آصف جاہ اول کی طرح دلیری اور فن سپاہ گیری کی خصوصیات سے خالی نکلے۔ افضل الدولہ کے ہی دور میں اس ہندوستان بھر میں اولین جنگ آزادی کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اس آگ نے تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ انگریز اس جنگ آزادی سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ایسے میں لارڈ الفسٹن جو بامبے میں برطانوی حکومت ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) ریسی ڈینٹ نے تھے ایک تا رکے ذریعے حیدرآباد کے ریسیڈنٹ کو آگاہ کیا کہ’ اگر ان حالات میں نظام ساتھ نہیں دیں گے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔اس موقع پر نواب حیدرآباد نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی۔ حیدرآباد کے تمام وسائل کمپنی کی حکومت کو استعمال کی اجازت دی گئی ۔ ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ بچانے کے لیے کی بھرپور مدد کی گئی۔ نظام کے ان اقدامات کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اکھڑتے ہوئے قدم دوبارہ جم گئے۔ حیدرآباد کے حکمراں کی نااہلی اسی واقعے سے پتہ چل جاتی ہے کہ نواب صاحب کو صرف خود کی نوابیت پسند تھی ۔انکی نظر میںدلی کی مسلم حکومت کے تئیں کسی قسم کے دلی جذبات موجود نہ تھے ۔ نظام کی ان عظیم خدمات کے بدلے کمپنی کی انگریزی حکومت نے نظام کا وہ قرض معاف کردیا جس کا نام لے کر کئی گنا زیادہ مالیت اور لگان والی زرخیززمینات مختلف مواقع اورمختلف معاہدات کے ذریعے انگریزوں نے ہتھیالی تھی۔ نواب کے دربار میں دوراندیش امراءکا ہمیشہ ہی قحط رہا۔ جو امراءموجود تھے وہ صرف نواب کی جی حضوری اور چاپلوسی کرنے والے تھے۔

پہلی عالمی جنگ اور حیدرآباد:۔
بیسویں صدی میں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تب بھی سلطنت آصفیہ کے تخت نشین نواب عثمان علی خان نے سابقہ نوابان کی فرنگ دوستی نبھانے میں کسی قسم کی کسرنہ چھوڑی ۔ مملکت آصفیہ کے وسائل انگریزوں کے ہاتھوں میں دے دیا ۔ تقریباً62 کروڑ روپے کی جنگی و مالی مدد کی گئی۔ برطانوی حکومت سے نبھائی گئی اس وفاداری کے بدلے نظام کو His Exaulted Highness کے خطاب سے نوازا گیا ۔ نواب صاحب بھی کافی خوش ہوگئے کہ انھیں عام حکمرانوں کی طرح His Highness کے بجائے His Exaulted Highness کہہ کر پکارا جاتا ہے اور کمپنی حکومت کی نظر میں ان کی قدر دوسروں سے سوا ہے۔ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ جس جنگ میں مسلم خلافت برطانوی حکومت کے خلاف تھی اس جنگ میں بھی نظام حیدرآباد نے برطانویوں کا دل کھول کر نہ صرف ساتھ دیا بلکہ بڑھ چڑھ کر خدمت بھی انجام دی۔ جس جنگ کے بعد خلافت کو اُکھاڑ کر ملت اسلامیہ کے اتحاد کی روح ختم کر دی گئی اس جنگ میں بھی نواب صاحب نے دھوکہ باز برطانویوں کا ساتھ دیا؟ یہ وہ وقت تھا جب حکومت برطانیہ کی توجہ نوآبادیات سے ہٹ کر جنگ پر مرکوز ہوچکی تھی۔ اسی جنگ میں جب ہندوستان نے بھی مدد کی تھی تب انڈین نیشنل کانگریس نے یہ صاف کر دیا تھا کہ اس جنگ میں مدد کے بدلے انھیں ہند پر خودمختاری دی جائے۔ جبکہ نظام صاحب کی خدمات غلامانہ روش سے زیادہ کچھ نہ تھیں وہ چاہتے تو برطانوی حکومت کے سامنے کڑا رخ اختیا ر کر اپنے مطالبات منوا سکتے تھے۔ حیف ہے ایسے حکمرانوں پر۔

پرنس آف برار:۔
جب جنگ ختم ہوئی تونظام نے برطانوی حکومت سے صوبہ برار کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے انگریزی حکومت نے مختلف معاہدات کے ذریعے حاصل کیا تھا ۔ اس مطالبہ پر ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے صاف کہہ دیا کہ صوبہ برار برطانوی حکومت کی ملکیت ہے ۔ ان معاہدات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ 1936 میں صوبہ برار کو سینٹرل پرونس میں شامل کردیا گیا۔ جس طرح چھوٹے بچے جب وہ کسی بڑی چیز کے لےے ضد کررہے ہوتے ہیں انھیں مٹھائی یا کھلونا تھماکر بہلایا جاتا ہے۔ اسی طرح انگریزوں نے نظام صاحب کو خوش کرنے کے لےے ایک اور خطاب عطا کردیا ” دی پرنس آف برار“ ۔۔ ۔

امید کی کرن ۔۔۔بہادر یار جنگ:۔
نظام کا دربار جونا اہل اور چاپلوس امراءکا مرکز رہا وہاں چند اہل بصیرت اور قابل امراءبھی تھے۔انھیں میں سے ایک تھے قائدملک ملت بہادر یار جنگ ؒ۔ بہادر یار جنگ ؒ کے آباءجن کا تعلق افغانستان کے قبیلہ خاکزئی سے تھا ۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں نواب سکندر جاہ آصف جاہ سوم کے دور میں ریاست دکن میں آئے ۔ نواب صاحب نے انھیں لال گڑھی کی جاگیر سے نوازا۔

سعدی خان عرف بہادر یار جنگ کی پیدائش 3فرروری 1905 کو ہوئی ۔ انکی والدہ پیدائش کے ایک ہفتہ بعد ہی انتقال کر گئیں ۔ انکی پرورش ابتدائی ایام میں ننھیال میں ہوئی ۔ جب وہ لگ بھگ14 سال کے ہوئے تب ددھیال میں لوٹ آئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ میں اور اسکے بعد دارلعلوم حیدرآباد ( موجودہ سٹی کالج حیدرآباد ) میں مکمل کی۔ تعلیمی دور سے ہی سعدی خان خطابت میں مہارت حاصل کرچکے تھے اور اپنے حلقوں میں ماہر خطیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔

سعدی خان نے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ پہلوانی، نشانہ بازی، تیراکی اور تلوار بازی میں بھی مہارت حاصل کی انھیں شکار کا بھی کافی شوق تھا۔ 14 سال کی عمر میں انکی شادی خاندان کی ایک لڑکی تلمیہ خاتون سے ہوئی ۔ اپنے والد جناب نصیر یاور جنگ کے انتقال کے بعد (1923) میں انھوں نے جاگیر کا نظم ونسق سنبھال ۔ جس وقت سعدی خان کے ہاتھ میں جاگیر کی ذمہ داری آئی تھی تب وہ خسارے میں چل رہی تھی جس پر تقریباً ساڑھے چار لاکھ کا قرض تھا ۔ بہادر یار جنگ کی قابلیت او راعلی صلاحیت اتظامی کی وجہ سے معمولی سے چار سال کے وقفہ میںنہ صرف وہ قرض سے نکل آئی بلکہ 40,000 روپے سالانہ آمدنی بھی ہونے لگی۔ سعدی خان کو علوم قرآن پر کافی مہارت حاصل تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ درس قرآن دیتے یا تقریر کرتے تو مساجد اور جلسہ گاہ کھچاکھچ بھر ی ہوتی۔

ایسا ہی ایک جلسہ 1930 میں ہوا تھاجس میں نواب میر عثمان علی خان نے بھی شرکت کی تھی ۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک جواں سال شخص نے جب اپنا خطاب شروع کیا تو لوگ سنتے سنتے رونے پر مجبور ہوگئے ۔ ساری جلسہ گاہ کے حاضرین رونے لگ گئے۔ لوگوں کو سنبھالنے کی خاطر انتظام میں موجود پولیس والوں کو توجہ دینی پڑی ۔ اس جلسے کی کیفیت سے نظام عثمان علی خان بھی کافی متاثر ہوئے۔ انھوں نے خطاب کے بعد اس نوجوان کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ” ائے وہ جسے محمد عربی نے تاج پہنایا : آﺅکہ مجھے بھی روحانی اور مادی دنیا کے شہنشاہ کے حکومت کا طریقہ کار بتاﺅ“

یہیں سے ریاست دکن کے ایک سنہرے باب کی شروعات ہوتی ہے۔ اسکے بعدسعدی خان کو انکی قابلیت کے لحاظ سے’ قائد ملت ‘، اور انکی حق گوئی کو دیکھ کر’ بہادر یار جنگ ‘ کا خطاب دیا گیا ۔ اب بہادر یا رجنگ ساری ریاست کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی مشہور ہوچکے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کی خاطر وقف کرنے کی ٹھان لی، اور خود حیدرآباد کو اسلامی ریاست بنانے کی خاطر وقف کردیا۔ ایسی ریاست جسکی بنیاد انہیں اصولوں پر رکھی جائے جس بنیاد پر ہمارے آقا محمد نے مدینے کی ریاست کی رکھی تھی۔ انھوں شریعت کے نفاذ کواپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اسی مقصد کی خاطر انھوں نے تحریک پاکستان کی بھی حمایت کی کہ آگے چل کر پاکستا ن ایک اسلامی ریاست بنے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا جناح نے ان کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کرتے ہوئے ایک غیر اسلامی ریاست کو قائم کیا جس سے صرف حکمرانوں کو ہی فائدہ پہنچا۔ اس کے علاوہ بہادر یارجنگ مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے بھی حمایتی رہے۔1927 میں گولکنڈہ کے قلعہ دار نواب محمود نواز خان نے مجلس اتحاد بین المسلمین کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر مجلس اتحاد المسلمین بن گئی ۔ اس جماعت کا مقصد نظام کی حمایت تھا۔ 1938 میں نواب بہادر یار جنگ اسکے کے صدر منتخب کیے گئے۔

سانحہ عظیم :۔
بہادر یار جنگ کی تقاریر لوگوں میں نئی روح پھونکنے لگی تھی ۔ عوام میں وہ اس قدر مقبول ہونے لگے کہ لوگ ہر جلسہ اور جلوس میں صرف بہادر یار جنگ کو ہی سننا پسند کرتے تھے۔ بہادریار جنگ کی عوام میں روز بروز بڑھتی مقبولیت دیکھ کر دیگر امراءمیں حسد دوڑنے لگا وہی حکمرانوں کو یہ ڈر ستانے لگا کہ اگر حیدرآباد میں حکومت اسلامیہ قائم ہوجاتی ہے تو ان کے ہاتھ سے عنانِ حکومت نکل جائے گی اور جو مقام و مرتبہ انھیں حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ اب جس دربار نے بہادر یار جنگ کو قوانین شریعت سکھانے کے لےے مدعو کیا تھا وہ اسی وجہ سے انھیں اب دربار سے دور کرنا چاہ رہا تھا۔ سازشیں رچی جانے لگی آخرکار ایک حکومتی عہدیدار کے یہاں دعوت میں انھیں حقہ پیش کیا گیا حقہ کا پہلاکش لےتے ہی انہیں شدید کھانسی کا دورہ پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ انتقال کر گئے۔ ( 25 جون 1944 ) انا لِلہ و انا الیہ راجعون۔ اسی وقت یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ حقہ کے سرے پر زہر لگا تھا مگر ان سب کے باوجود محض اس لےے کہ یہ ایک حکومتی اعلیٰ عہدے دار کی دعوت میں پیش آیا اس واقعے کی تحقیقات نہیں کی گئی اور مجرمین کوسزا سے بچا لیا گیا۔

ملت برصغیر کا حال:۔
اس وقت حالات بڑے ہی عجیب تھے ۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے پاس کوئی ایسا فرد موجود نہیں رہا جسے حقیقی معنوں میں سربراہ ِ ملت کہا جاسکے ۔ ایک طرف فخر مسلمانان ہند محمد اقبالؒ1938 میں انتقال کر گئے۔ ہندوستان کے سب سے اہم رہنما سپوت ملت اسلامیہ ہند محمد علی جوہر 1942کی گول میز کانفرنس لندن میں وفات کر گئے۔ ریاست دکن میں اسلام کے نشاة الثانیہ کو مجاہد اعظم بہادر یار جنگ 1944 میں انتقال کر گئے۔ ان لِلہ و انا الیہ راجعون۔ اس درمیان مولانا مودودیؒ نے ریاست دکن میں احیاءعلوم اسلامیہ کی کو شش کی انکی ایک تصنیف ’رسالہ دینیات ‘ بھی ریاست کے نصاب تعلیم میں شامل کی گئی تھی مگر بعد میں وہ دارالسلام (پٹھان کوٹ ، پنجاب ) منتقل ہوگئے ،بعد میں پاکستان چلے گئے۔اگر وہ حیدرآباد میں مقیم رہتے تو شاید ملت اسلامیہ حیدرآباد کی قیادت میں کلید ی رول ادا کر پاتے۔

بر صغیرکی ملت اسلامیہ اس وقت سخت حالات سے دوچار تھی ۔ آزادی ہندنے اس وقت ملت اسلامیہ برصغیر کو ہند وپاک نظریہ میں منقسم کردیا تھا۔ علامہ اقبال، محمد علی جوہراور دکن میں بہادر یار جنگ جیسی قابل ہستیا ںموجود نہیں رہیں۔ وہیں جو قیادت ابھر سکتی تھیں وہ مسلم لیگ کی حمایت اور نظریہ پاکستان نوازی کی طرف راغب ہوگئیں۔ باقی مولانا ابولکلام آزاد، حسرت موہانی اور جمیعت علماءہند کے ساتھ ہندوستان کی وکالت میں مصروف ہوگئیں۔

ملت کے مسائل کو اُٹھانے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرنے کے قابل کوئی باقی نہیں رہا۔ جماعت اسلامی جس کی حیثیت ان دونوں گروہوں کے سامنے بہت کم تھی اور وہ وقت کی نزاکتوں کو سمجھنے کے باوجود چونکہ انپے بتدائی دور سے گذ رہی تھی اس سمت کلیدی رول نبھانے سے قاصر رہی۔

دوسری عالمی جنگ :
عالمی جنگ دوم کی شروعات ہوچکی تھی۔ ہندوستان کی قومی سیاسی جماعت کانگریس نے کھلے عام برطانوی حکومت کے سامنے شرط رکھی کہ اس جنگ میں ہندوستان مکمل طور پر برطانیہ کا ساتھ دے گا لیکن اس کے بدلے اسے مکمل آزادی چاہےے۔ حکومت ہند کی افواج اس جنگ میں شامل کیں گئیں۔ وہیں نظام دکن کی جانب سے اس قسم کی پہل نہیں کی گئی۔ نظام کی نظر میں ہندوستان برطانیہ کا غلام تھا اس لےے انھیں آزادی فکر لگی تھی اور ریاست حیدرآبادجس کے تمام فیصلو ں میں برطانوی ریزڈنٹ کی موجودگی و اجازت ضروری تھی ۔ نظام کو اس میں غلامی کا انداز نظر نہیں آیا۔ نظام نے بلا شرط حکومت برطانیہ کا تعاون کیا۔ نظام حیدرآباد کا یہ قدم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آخری نظام دکن کے پاس دوراندیشی کافقد ان تھا۔

آزادی ہند :۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی حالات میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی۔ انگلستان جسے اپنی مملکت پر غرور تھا کہ اسکے قبضہ جات میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔ اس کا شرازہ اس طرح بکھر ا کہ وہ اپنی نوابادیات اور قبضہ جات پر قابض رہنے کے قابل نہیں رہا۔ حکومت انگلستان نے اپنی نوابادیات سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔برما ،ہندوستان وغیرہ کو آزاد کرنے کا فیصلہ کردیا گیا۔ نظام دکن سوچ رہے تھے کہ اس کے ساتھ ہی انگریز ان علاقوں کو بھی حیدرآباد کو واپس کردیں گے جو نگریز وںنے عہد معاونت کے ذریعے مختلف معاہدوں کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً نظامان دکن سے حاصل کےے تھے۔ مگر ان سب کو نظر انداز کر انگریز اپنے زیر قبضہ علاقے ہندوستان کی برطانوی حکومت میں شامل کرچکے تھے اور انھیں حکومت ہند کے حوالے کر گئے۔

آزادی سے قبل بڑے ہی منظم طریقے سے ہندو مسلم منافرت پھیلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں تقسیم ہند کا مرحلہ درپیش آیا۔ برطانوی حکومت نے آزادی سے پہلے ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے آزادی دی۔

معلق ریاستیں:۔
ہندوستان کی کئی دیسی ریاستوں سے یہ کہہ کر برطانوی حکومت نے پلہ جھاڑ لیا کہ آگے ان کی مرضی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میںسے کسی ایک ملک میں شامل ہوجائیں۔ یہی کچھ برما میں ریاست اراکان کے ساتھ بھی کیا گیا ۔ ریاست اراکان جو کہ برطانوی قبضہ سے پہلے مسلم مملکت تھی اسے برما کے حوالے کردیا گیا جہاں پر آج تک مسلمانوں پر ہرطرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اراکان کی طرح ہندوستان کی بے شمار چھوٹی چھوٹی ریاستوں بشمول کشمیر ، جوناگڑھ اور حیدرآباد ودےگر رےاستوں کو ہند و پاک کے درمیان معلق کر کے بے سہارا چھوڑدیا گیا۔

برصغیر کے مسلمانوں کی خوش فہمی:
انگریزوں نے ہندوستان پاکستان کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا۔ ہندوستان کے رہنماﺅں کو مسلمانوں کی موجودگی میں اپنی اکثریت خطرے میں نظر آنے لگی۔ وہیں مسلمانوں کو ہندوستان مستقبل کی ایک ہندوریاست کی شکل میں دکھا کر خوف زدہ کر کے خود کے تحفظ کی خاطر ایک مسلم مملکت کی ضرورت محسوس کرائی گئی۔ مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کو اسی مقصد کی خاطر فروغ دیا گیا۔نظریہ پاکستان کو علامہ اقبال کی مملکت اسلامیہ کے نظریہ والی ریاست کے روپ میں پیش کیا جانے لگا۔ جبکہ اقبال نے اپنی حیات میں ہی اس بات کی تردید کردی کہ موجودہ نظریہ پاکستان ان کے اسلامی ریاست کے نظریہ سے یکسر مختلف ہے ۔

زخم دے کر گیا سایہ جاتا ہوا:۔
آخر کار تقسیم عمل میں آئی مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان نواز مسلم عوام کافی خوش ہوئی ۔ لیکن انھیں شاید پتہ نہیں تھا کہ جس ایک ملک کے لےے وہ خوش ہیں وہ ہندوستان کے تین مسلم ممالک (ریاستوں) اور بے شمار چھوٹی ریاستوں سے محروم ہورہے ہیں۔ ساتھ ہی تقسم سے قبل اور بعد کل 4 سے 5دہائیوں تک بے حد ہی خوں انگیز فسادات جاری رہے۔

سانحہ حیدرآباد۔
جس وقت برصغیر کے حالات بدل رہے تھے اس وقت بہادر یار جنگؒ اور وفادارنِ وطن نظام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بہادر یا ر جنگ نے نظام کی توجہ ریاست کی فوجی طاقت کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کی کہ ابھی وقت ہے ہم برطانوی فوج کے بل بوطے کسی سے لڑ نہیں سکتے اگر مستقبل میں خود کے وجود کو قائم رکھنا ہے تو فوج کو نئے سرے منظم کرناہوگا۔ ساتھ ہی جدید قسم کے اسلحہ جات، ٹینک اور
جنگی طیاروں کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔

مگر نواب صاحب اور ان کے جی حضور ی کرنے والے امراءکو بہادر یار جنگ خود کے لیے خطر ہ نظر
آنے لگے اور انھیں ٹھکانے لگانے کی فکر کی جانے لگی تھی۔

جب ہندوستان آزاد ہوا تب چونکہ حیدرآباد چاروں طرف سے ہند وستا ن سے گھرا ہوا تھا۔ اس لیے اسکا وجود ہندوستان برداشت نہیں کرپارہا تھا۔ دوسر ی جانب نظام کی پاکستان دوستی اور مملکت پاکستان کی جانب حد درجہ جھکاﺅ نے ہندوستان کو اور مشتعل کردیا۔ شروعاتی دور میں ہندوستان کی نوتشکیل شدہ حکومت نے ریاست حیدرآباد کے انضمام کے تعلق سے کافی نرم رویہ اپنا یا تھا۔ مگر ریاست حیدرآباد کی پاکستان سے جاری ساز باز نے حکومت ہند کے تیور سخت کردیے۔

جب تک گاندھی جی زندہ رہے حالات اتنے خراب نہیں ہوئے تھے مگر جیسے ہی گاندھی جی کا قتل ہوا حکومت ہند کا رویہ مزید سخت ہوتا گیا۔ نظام صاحب اور دربار حیدرآباد اس دور میں بھی لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے شکوے شکایت سے زیادہ کچھ نہیں کر پائے۔

اب نظام حیدرآباد کی مکمل آس پاکستان اوراقوام متحدہ سے بنی رہی۔ اس درمیان حکومت ہند سے دباﺅ بڑھتا جارہا تھا ۔ کبھی معاہدوں کی شرائط کو نظام نامنظور کردیتے تو کبھی مجلس اسے ٹھکرا دیتی۔ تو کبھی حکومت ہند نئی شرطیں رکھ دیتیں۔ حکومت ہند کی نیت واضح ہوچکی تھی کہ وہ کسی بھی شرط کے بغیر حیدرآباد کو ہندوستانی وفاق میں ضم کرلینا چاہتی تھی۔

نظام کو امید تھی کہ حالات بگڑنے سے پہلے پاکستان سے کو ئی مدد مل جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آخر کار حیدرآباد کے نیم فوجی دستہ رضاکاروں کو تیاری کا حکم دیا گیا۔ فوج کو محاذوں پر بھیجا جانے لگا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی سے تما م برصغیر میں ہندو مسلم منافرت پھیلانے کا کام فرقہ پرست طاقتیں تیزی سے کررہی تھیں۔ ریاست دکن بھی ان کی سازشوں سے محفوظ نہیں رہی۔ شہری آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب قابلِ لحاظ تھا لیکن حیدرآباد کی دیہی آبادی 80تا 90 فیصد ہندووں پر منحصر تھی آج بھی کم وبیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ شدھی کرن، بھجن کرتن کے نام سے دیہات دیہات مسلم مخالف جلسے جلوس عام ہوچکے تھے۔ تمام ریاست میں حیدرآباد کانگریس، آریہ سماج و دیگر طاقتوں نے فرقہ واریت ، مسلم کی پھیلانے میں مصروف رہےں۔سرحدی علاقوں اور دیہاتوں میں ہندوستانی سپاہی رضاکاروں کے بھیس میں داخل ہوکر لوٹ ،فساد مچانے لگے۔ وہی بعض مقامات پر رضاکار جو کہ نیم فوجی دستہ تھے جنھیں کچھ خاص اختیارات بھی دےے گئے تھے بعض مقامات پر زیادتی بھی کرنے لگے تھے ۔ ان سب واقعات نے ریاست کی ہندو برادری کو جو اکثریت میں تھی مسلم مخالف بنا دیا۔

آخر کارحکومت ہند نے بات چیت کا سلسلہ منقطع کر جنگ کے ذریعے حیدرآباد کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیا ۔ حیدرآباد کے فوجی بھی سرحدوں کی جانب بڑھنے لگے۔11ستمبر کو جناح کی موت ہوئی ۔ جناح کی موت کے ساتھ ہندوستان کے سامنے موجود آخری اندیشہ بھی ختم ہوگیا ۔ جناح کی تدفین ہوتے ہوتے حیدرآباد چاروں سمت سے ہندوستانی فوج سے گھر گیا ۔13 ستمبر کو ہندوستان کی جانب سے آپریشن پولو شروع کیا گیا۔ حیدراباد فوج اور رضاکار مقابلے کے لےے تیار ہوگئے۔ حیدرآبادی فوج کے پاس نہ تو جدید ہتھیار تھے اور نہ ہی معقول مقدار میںگولہ بارود کا نظم تھا۔ آخر کارسر زمین دکن نے اپنے سپوتوں کی حب الوطنی کا اس طرح بھی نظارہ کیا کہ آگ اور موت برساتے آہنی ٹینکوں کو روکنے لےے فقط لاٹھی اور برچھے لےے انکے سامنے کھڑے ہوگئے یہاں تک ہندوستانی ٹینک انھیں کچل کر آگے بڑھتے گئے۔ ادھر حکومت ہند نے ملٹری آپریشن شروع کردیا تھا تو اُ دھر دکنی فوج کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ ہندوستانی فوج کن کن راستوں سے آرہی تھی بلکہ حیدرآبادی فوجیوں کو جو نقشے فراہم کےے گئے تھے ان میں سے کئی اہم راستوں کی نشانات غائب تھے۔ آخر کار 17ستمبر کو ایک آزاد ، خودکفیل مملکت ختم ہوگئی۔ حیدرآباد ریاست ہندوستان میں ضم کرلی گئی۔

غدار ملک و ملت: منحوس ایدروس۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ ہر دربار میں غدار کے بنا ادھورا رہا۔ یہی معاملہ سراج الدولہ کے ساتھ میرجعفر کی شکل میں ہوا توکہیں فرزند اسلام شہید ملک وملت ٹیپو ؒ کے ساتھ پورن ایّا اور میرصادق کی شکل میں ۔ سلطنت دکن کے ساتھ یہ معاملہ سترھویں صدی میں عبداللہ خان پنی اور بیسویں صدی میں سعیداحمد العیدروس (نامبارک قابل مذمت ایدروس) کے روپ میں موجود رہا۔

ایدروس ایک قابل اور تجربہ کار نہایت ہی چالاک اور مکار فوجی جنرل تھا جس نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیاتھا۔ اسی کے ہاتھ ریاست کی فوجی کمان تھی۔ محاذ برما پر بھی ایدروس نے اپنے جوہر دکھائے تھے اور اپنی قابلیت منوائی تھی۔ لیکن اس قابل سپاہی نے لشکری جوہر تو خوب پیدا کرلےے لیکن ایک ادنیٰ سے سپاہی کی بھی سب سے اہم خوبی نمک حلالی نہیں سیکھی۔ ایدروس کے بارے میں حکومت ہند ہمیشہ سے ہی تشویش میں مبتلا رہتی تھی۔ ایدروس کے کمالات کا ذکر کرتے ہوئے اسی کے ہم عصر ایک انگریز افسر نے کہا تھا کہ ” ایدروس کواگر معمولی سپاہی بھی میسر آجائیں تو وہ ان سے غیر معمولی کارنامے انجام دلواسکتا ہے“۔

حیدرآباد کے سپاہیوں نے شروعاتی دور میں اس قدر کامیابی سے مقابلہ کیا کہ اسکی نظیرملنا مشکل تھی۔ پہلا حملہ جب شولاپور پر ہوا تو معمولی تعداد کے باوجود انھوںنے ہندوستانی فوج کی بڑی تعداد کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکا بلکہ بھاری نقصان پہنچاتے ہوئے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ ابتداءمیں تمام محاذوں کا یہی حال رہا ۔ آخرکار حکومت ہند نے جنگی طیاروں کا سہارالیا۔ حکومت حیدرآباد کے پاس بھی جنگی طیارے موجود تھے مگر ایدروس جیسے غدار وطن نے انھیں اپنی فوج کی مدد کے لےے نہیں بھیجا۔ فرزندان حیدرآباد حق سرزمین ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔شایدکہ ان کے نام لیوا بھی آج موجود نہیں۔انا لِلہ و انا الیہ راجعون

نعشیں گننے کے لیے وفد:۔
جہاں جہاں پر حیدرآباد فوج کامیابی سے لڑتی وہاں پر حکم آجاتا کہ حکمت عملی کے تحت محاذ تبدیل کیا جارہا ہے لہذا اگلے محاذ پر فوراً پہنچیں۔ اسی طرح سے تمام اہم مقامات سے فوجیں ہٹائی جاتی رہیں اور ہندوستانی افواج کے لےے آگے بڑھنے کا راستہ صاف کیا جاتا رہا۔ بھارتی فوج کے پیچھے مقامی ہندوﺅں کے ٹولے ہوتے جن کے دلوں میں مسلم مخالف جذبات بھر دےے گئے تھے یہ ٹولے دیہاتوں شہروں سے نکل کر شہروں میں کھلے عام لوٹ، قتل و غارت گیری اور عصمت دری کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے۔ یہ وارداتیں صرف سرحدی علاقوں تک ہوتیں تو شاید سمجھ آتا لیکن حیدرآباد کے صدرمقام تک یہی واقعات ہوتے رہے۔بعداز جنگ مولانا ابوالکلام کی رہنمائی میں جائز ہ لےنے اور رپورٹ پیش کرنے وفد حیدرآباد آیا تب انھوں نے رپورٹ میں کہا کہ ” کیا مجھے صرف نعشیں گننے کے لیے بھیجا گیا ہے؟“

بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں:۔
سرزمین ِ دکن نے سقوط حیدرآباد کا وہ منظر دیکھا جس کے زخم جب بھی ذکر نکلتا ہے ہرے ہوجاتے ہیں۔ یوں تواس قیامت کو دیکھنے والے شہریان اب زیادہ نہیں بچے مگر جو بچے ہیں وہ جب بیان کرتے ہیں تو کہنے والے اور سننے والے سبھی رونے لگتے ہیں۔ ہم محسوس نہیں کر سکتے وہ قتل غارت گیر ی کامنظر جس کا زخم یہ بزرگان اپنے ساتھ لیے اپنی قبروں کی طرف گامزن ہیں۔

اس المیہ کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ حیدرآبادریاست کے مسلمان دیگر پیشوں میں بہت کم شامل تھے ۔ اکثر مسلمان حکومتی شعبو ں اور فوج میں شامل تھے جنھیںسقوط کے بعد خدمات سے ہٹا دیا گیا۔جو کاروباری تھے ان کے کاروبار لوٹ اور غارت گیری کے ذریعے ختم کردےے گئے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ زمینات ( زمیندار، جاگیردار) کا مالک تھا جنھیں انکی جائدادوں سے بے دخل کردیا گیا۔ یوں ملک کے اس خطے سے جہاں ملت اسلامیہ معاشی ،تعلیمی طور پر مستحکم تھی انھیں غربت و پسماندگی کی جانب دھکیلا گیا۔

سانحہ حیدرآباد اور مسلم دنیا:۔
جس طرح سے آج ہم فلسطین اور دیگر ممالک پر ہورہے مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اسی طرح اس زمانے میں بھی یہ سب ہوا۔ مسلم مملکتوں کے اجلاس، اقوام متحدہ میں آواز اُٹھانے کی باتیں، انصاف دلانے کے لیے عالمی دباﺅ بنانے کے وعدے کیے گئے ۔ مگر سب کچھ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوا۔ یہ سب کچھ آج ہی کی طرح بے اثر ثابت ہوا۔ جب تک مسلم مملکتیں اپنی بقا کے لےے خود بدرتک جانا گوارہ نہیں کریں گیں یہ انکا مقد ر رہے گا۔ اب ہمارے پاس وہ موقع نہیں رہا کہ ہم دکن کی واپسی کی مانگ کریں یا اس کے لےے خود کوئی اقدام کریں۔ اب ہمارے سامنے بس یہی ایک طریقہ باقی ہے کہ پچھلوں نے عیش پرستی میں مبتلا ہو کر جو غلطیاں کیں ان سے سبق لے کر خود کو اسلام کا عملی نمونہ بنا کر پیش کریں۔ دعوت دین کی طرف جو غفلت سلطنت حیدرآباد میں برتی گئی اسے اب تمام ملک ہندوستان میں عام کریں۔ کیونکہ اب اللہ نے ہمیں محدود ریاست دکن نہیں بلکہ ایک عظیم مملکت ہند عطا کی ہے۔ رہی بات حکومت کی تو وہ خدائی عطیہ جو اسلام کی سربلندی کی فکر میں لگی رہنے والی اور اسی کی خاطر کاوشیں کرنے والی قوموں کواللہ تعالیٰ عطا کرتے ہیں۔

ہمیں کوئی ریزرویشن نہیں چاہیے ہمیں کوئی سیاسی رہنمائی نہیں چاہیے ہم اپنے قائدین سے گذراش کرتے ہیں کہ وہ ریزرویشن، تناسب کے لحاظ سے نوکری ایوانی نمائندگی کی ناکا م کوشش کے بجائے ۔ کوئی ایسی صورتحال نکالے جس کی بدولت مسلمانوں میں رائج جہالت و پسماندگی ختم ہو۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہو ۔ اس ملت کے لیےے جتنے تعلیمی ادارے ، انڈسٹریز کھول سکتے ہیںجاری کیے جائیں ۔ تاکہ یہ پسماندگی ختم اور ہم سب یکسو ہو کر تبلیغ دین کا کام کر سکیں۔
Abdul Muqeet Abdul Qadeer
About the Author: Abdul Muqeet Abdul Qadeer Read More Articles by Abdul Muqeet Abdul Qadeer: 8 Articles with 13577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.