امریکی وزیر خارجہ ہیلری روڈھم
کلنٹن نے دوسروں کے مذہب کی توہین کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی ہے ۔انہوں نے
کہا کہ ہماری قوم کے ابتدائی وقت ہی ہمارے مذہبی تحمل کا عہد سامنے آ چکا
ہے۔لیبیا میںامریکی سفیر جان کرسٹوفر سٹیونز اور تین دوسرے امریکیوں کی
ہلاکت پر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ تاہم یہ واضح ہے کہ لیبیا میں امریکی سفارت
خانے پر حملے کے پر تشدد اقدامات کیاکوئی بھی جواز نہیں ہے۔صدر باراک
اوبامہ نے کہا کہ جبکہ امریکہ دوسروں کے مذہبی عقائد کی توہین کو مسترد
کرتا ہے ،سب کو ایسے بیوقوفانہ تشدد کی مخالفت کرنی چاہئے جس میں امریکی
سرونٹس کی جانیں گئی ہیں۔
امریکی روزنامہ ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ’ ’مسلمانوں کی
معصومیت“ نامی فلم یو ٹیوب پر چلنے کی وجہ سے مصر اور لیبیا میں ہنگامے
بھڑک اٹھے اور وہاں ناراض جذبات دیکھنے میں آئے۔اخبار کے مطابق یو ٹیوب پر
مسلمانوں کے خلاف یہ فلم 52سالہ سیم بیکائل نے اپ لوڈ کی تھی جو کیلیفورنیا
میں سٹیٹ ڈویلپر کے کام سے منسلک اسرائیلی امریکی ہے۔روزنامہ ”وال سٹریٹ
جنرل“ کے مطابق بیکائل نے کہا کہ ”اسلام ایک کینسر ہے اورایک سو یہودی
ڈونرز نے اس فلم کے لئے پانچ ملین ڈالرز دیئے ہیں“۔تاہم ’اے بی سی نیوز‘ کی
تحقیقات کے مطابق یہ اس کا اصل نام نہیں ہے اور نہ تو وہ یہودی اور نہ ہی
اسرائیلی ہے بلکہ ایک عرب عیسائی ہے۔’اے بی سی نیوز ‘ کو یہ اطلاع سٹیو کلن
سے ملی جو فار رائٹ اینٹی مسلم کرسچن گروپ کا سربراہ ہے اور جس کا کہنا ہے
کہ انہوں نے اس فلم کو پروڈیوس کرنے میں مدد دی۔”نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق
تقریبا 14منٹ کی یہ فلم اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنی جب قرآن پاک کو آگ
لگانے کی دھمکی دینے والے فلوریڈا کے ایک پادری ٹیری جونز نے اس فلم کی
حمایت کرتے ہوئے اس کو فروغ دیا۔ٹیری جونز نے ایک بیان میں کہاکہ ” ناراض
مظاہرین قاہرہ میں امریکی ایمبیسی کی دیوار پر چڑھ گئے ،امریکی جھنڈا اتار
کر پھاڑ دیا اور اسی طرح کے مزید واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام دوسرے
مذاہب کے بارے میں کوئی احترام نہیں رکھتا۔“امریکی میڈیا کے مطابق ٹیری
جونز اور اس کے خیالات کے لوگ اس فلم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہلاکت
خیز ہنگاموں پر معذرت نہیں کرتے ۔“
اس وڈیو کے کنسلٹنٹ سٹیو کلن نے میڈیا کو بتا یا کہ بیکائل اسرائیلی یا
یہودی نہیں ہے اور وہ پردے میں کام کر رہا ہے اور اس کا اصل نام اسے بھی
معلوم نہیں ہے۔میڈیا نے وڈیو بنانے والے اور اس کے عزائم کے بارے میں اس سے
سوالات کئے۔ اس نے بتا یا کہ یہ فلم بنانے میں 80افراد کاسٹ اور کریو ممبر
شامل تھے۔اس نے دعوی کیا کہ انہیں پروڈیوسر نے ‘مس لیڈ ‘ کیا تھا۔فلم میں
کام کرنے والے اوربنانے کا کام کرنے والے افراد بہت ’اپ سیٹ ‘ ہیں اور ان
کا خیال ہے کہ پروڈیوسر نے انہیں استعمال کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس
فلم کے عزائم کے بارے میں علم نہ تھا۔پروڈیوسر نے سب سے جھوٹ بولا اور اس
نے سکرپٹ ری رائٹ کیا اس سے ہمیں صدمہ پہنچا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق
بیکائل کا کہنا ہے کہ دوگھنٹے کی یہ فلم 5ملین ڈالرز میں بنائی گئی ہے۔سٹیو
کلن نے مزید کہا کہ وہ فلم میکر کے بارے میں کم ہی جانتا ہے تاہم وہ یقینا
اسرائیلی،ریڈیکل کرسچن ہو سکتے ہیں لیکن یہ ٹیری جونز نے نہیں بنائی۔یہ فلم
ڈس انفارمیشن کمپین ہے۔13منٹ کے اس وڈیو ٹریلر کی فوری طور پر عربی میں
ترجمے والے کاپی بھی بنا کر پوسٹ کی گئی۔سٹیو کلن نے کہا کہ یہ فلم بنانے
کا مقصد امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنا تھا جو 10فیصد ہو
چکے ہیں۔اس نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ امریکی سفیر اور دوسرے امریکیوں
کی ہلاکت کے واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔ایک دوسرے امریکی اخبار کے مطابق سٹیو
کلن نے کہا کہ میں خوفزدہ نہیں ہوں ،میں بارہ بور شاٹ گن کے ساتھ سوتا ہوں
اور میری بیوی 38کیلیبر پستول ساتھ رکھتی ہے،میں کیلیفورنیا کا دیہاتی ہوں
اور میرے پاس بہت اسلحہ ہے اور میں اس بات سے خوفزدہ نہیں کہ میں نے کیا
کہا تھا۔سٹیو کلن نے کہا کہ اس نے بیکائل سے فون پر بات کی ہے اور وہ
ڈائریکٹر اپنی جان کا خوف رکھتا ہے ،وہ خوفزدہ ،نروس ہے اور وہ کسی نامعلوم
جگہ روپوش ہے۔ کلن نے دعوی کیا کہ اس فلم کے لئے مشرق وسطی، یہودیوں،
کرسچن، اور سابق مسلمانوں نے پیسہ دیا اور کچھ رقم برطانیہ،سکاٹ
لینڈ،فرانس،جرمنی اور ہالینڈ سے بھی آئی۔کلن نے کہا کہ ساﺅتھ کیلیفورنیا
میں یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی جس سے ہم بہت اپ سیٹ ہوئے،ایک فیصد سے بھی کم
صرف ملی ٹینٹ افراد نے دیکھی۔ہم اس میں اسامہ بن لادن کا بنیاد پرست اسلام
دکھانا چاہتے تھے۔امریکی اخبارات کے مطابق بیکائل مورس صادق ہو سکتا ہے جو
شدید اسلام مخالفت کی وجہ سے1968میں مصر سے فرار ہو کر امریکہ پہنچ گیا
تھا۔اس نے یہ فلم اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کے علاوہ چند ٹی وی چینلز کو
بھی فراہم کی جن کے نام نہیں بتائے گئے۔بیکائل نے خفیہ مقام سے فون پر کہا
کہ یہ سیاسی فلم ہے ۔
ڈیٹرائٹ ریڈیو کو انٹرویو میں ٹیری جونز نے صدر باراک اوبامہ پر الزام
لگایا کہ وہ ’پرو اسلام ‘ ہے اور ’مسلم برادر ہڈ‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ٹیری
نے کہا کہ امریکی حکام نے مجھ سے کبھی یہ نہیںکہا کہ ”تم سمجھتے نہیں
ہو،اسلام امن کا مذہب ہے۔“امریکی پادری ٹیری جونز گزشتہ نو سال تک قرآن پاک
کو آگ لگانے کی دھمکی دیتا رہا اور گزشتہ سال مارچ میں اس نے ایسا کیا
بھی۔اس حرکت کی تصویر انٹر نیٹ پر جاری ہونے پر افغانستان میں پرتشدد
مظاہرے شروع ہو گئے۔مزار شریف میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے ہونے والے
ایک مظاہرے میں چار نیپالی گارڈز سمیت سات غیر ملکی مارے گئے تھے۔امریکہ کے
جنرل مارٹن ای ڈیمپسی چیئرمین جائنٹس چیفس آف سٹاف نے سابق امریکی پادری
ٹیری جونز سے کہا ہے کہ وہ یہ وڈیو پوسٹ نہ کرے اس سے مصر اور لیبیا میں
ہنگامے شدت اختیار کر سکتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کو امریکی جنرل کے اس
بیان پر بہت تشویش ہے۔ٹیری جونز نے کہا کہ میں امریکی جنرل کی تشویش
کو”condider“ کروں گاتاہم بعد میں ایک انٹرویو میں ٹیری نے کہا کہ وہ
امریکی جنرل کی درخواست کا پابند نہیں ہے۔امریکی اخبارات کے مطابق وزارت
خارجہ کے حکام کو یقین ہے کہ اس وڈیو کی وجہ مصر اور لیبیا میں ہونے والے
پرتشدد ہنگامے ہوئے۔اور یہ واقعہ11ستمبر کو نائن الیون کے امریکہ پر حملوں
کے دن کی یاد کے موقع پر ہوئے۔ٹیری جونز کے مطابق امریکی جنرل ڈیمپسی نے یہ
وڈیو دیکھی اور کہا کہ ”پرونو گرافک“ بنانا،دکھانا ایک عیسائی کے لئے مناسب
نہیں ہے اور اس تشویش کا اظہار کیا کہ اس کا دنیا بھر میں رد عمل ہو سکتا
ہے۔ امریکی فوجی حکام کو خطرہ ہے کہ اس فلم سے افغانستان میں کشیدگی میں
اضافہ ہو سکتا ہے جہاں 74000امریکی فوجی مصروف جنگ ہیں۔
یہ فلم بنانے والی کمپنی کے55سالہ منیجرناکولابیسیلی نے لاس اینجلس کے قریب
ایک انٹرویو میں ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ وہ اس فلم کا ڈائریکٹر نہیں
ہے۔اس نے کہا کہ سیم بیکائل نے یہ فلم بنائی ہے ۔تاہم ایسوسی ایٹ پریس کے
مطابق سیم بیکائل اور ناکولا کے فون نمبر اور مقام ایک ہی تھا،یعنی سیم
بیکائل کا ہی دوسرا نام ناکولا ہے۔ریٹائرڈ پادری ٹیری جونز کے چرچ میں دو
سال پہلے تیس افراد آتے تھے ، اب یہ تعداد گھٹ کر بارہ رہ گئی ہے اور اس
چرچ کو اب ٹیری کا بیٹا لیوک چلاتا ہے۔ٹیری جونز اکتوبر1951میں پیدا
ہوا۔فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے چرچ کا پادری تھا۔قرآان پاک کو آگ لگانے کے
اعلان سے وہ میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا۔70ءکے قریب اس نے اسسٹنٹ
ہوٹل منیجر کا کام کیا پھر کنٹکی میں ماراناتھاکیمپس مشنری میں اسسٹنٹ
پادری بن گیا۔اپنی پہلی بیوی کے ساتھ جرمنی مشنری کام پہ گیا۔فلوریڈ اکی
عدالت نے2002ءمیں اسے ڈاکٹر کا جعلی نام استعمال کرنے پر 3800ڈالرز جرمانہ
کیا۔1996میں پہلی بیوی کے مرنے کے بعد اس نے سلویا جونز سے شادی کی جس کا
’ٹی ایس اینڈ کمپنی‘ کے نام سے فرنیچر کا کاروبار ہے۔28اپریل2012ءکو ٹیری
جونز نے 20افراد کے ہمراہ قرآن پاک کے نسخوں کو آگ لگائی جس پر فائر ریسکیو
نے بغیر اجازت کتابوں کو آگ لگانے پر 271ڈالر جرمانہ کیا۔امریکی قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے حکام نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ
51سالہ کیپٹک کرسچن ناکولا بسیلی اس فلم کے پیچھے ہے۔
مصر میں اس فلم پر امریکہ کے خلاف مظاہرے کے آرگنائیزر کا کہنا ہے کہ
مظاہرے کا پروگرام اس وقت بنا جب گزشتہ ہفتے ایک مصری عیسائی مورس صادق جو
امریکہ میں رہتا ہے ، نے اس فلم کا ٹریلر ریلیز کیا۔اس سے پہلے مورس صادق
نے5ستمبر کو 14 منٹ کا یہ ٹریلر اپنے فیس بک کے صفحہ پر پوسٹ کیا۔اس بیہودہ
فلم کا تنازعہ اس وقت سامنے آیا جب ٹیری جونز نے اس فلم کی حمایت میں ”انٹر
نیشنل جج محمد ڈے“ کا اعلان کیا۔مصر کے شہر قاہرہ میں امریکی ایمبسی کے
باہر ہونے والے مظاہرے سے پہلے ہی عمارت کو خالی کر دیا گیا تھا،مظاہرین نے
بیرونی دیوار سے اندر جا کر امریکی جھنڈا اتار کر تار تار کیا اور اسے آگ
لگا دی۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک اداریئے میں لکھا ہے کہ ”کیلیفورنیا میں رہنے
والے فلم میکر کی اس وڈیو سے قاہرہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور ہزاروں مظاہرین
نے امریکی ایمبسی پر پتھراﺅ کیا۔اس کارٹونش وڈیو کو دنیا میں دیکھا گیا اور
ٹیری جونز نے اس کی حمایت کی۔چھوٹا ہی سہی لیکن اس کا چار امریکیوں کی
ہلاکت میں کردار ہے۔اس نے گولی نہیں چلائی،اس نے آگ بھڑکائی اور یہ کافی
تھا۔یہ کسی دوسرے امریکی کے لئے ناقابل قبول ہے کہ وہ جان بوجھ کر کسی
دوسرے کے مذہب کے بارے میں نفرت کا اظہار کرے۔11ستمبر کی یاد میں اکٹھے
ہونے والوں کو ٹیری جونز کا پیغام بھلا دینا چاہئے۔کسی کا حق اسی وقت ہوتا
ہے جب اس سے لوگوں کو نقصان نہ پہنچے،اس نے اس کی پرواہ نہیں کہ اوراب
جوازیت بتاتا ہے۔ہم اس معاملے میں لیبیا کی معافی کا خیرمقدم کرتے ہیں
۔اخبار لکھتا ہے کہ امن کا منظر دور ہے لیکن ہم امن کا خواب دیکھنے والی
نسل ہیں،لہذا دانشمندی سے آگے بڑہنا ہو گا۔“
امریکی میڈیا کے مطابق امریکی عوام کے سامنے یہ معمہ ہے کہ اس فلم کو بنانے
والے اور ٹیری جونز کے خلاف کوئی قانونی اقدام اٹھایا جا سکتا ہے؟اس متعلق
دو آئیڈیاز سامنے آئے ہیں۔ایک یہ کہ یہ فلم اور اس کو فروغ دینا ”
protected speech“ہے،ایک رائے یہ ہے کہ اس فلم نے حدود عبور کی ہیں۔اس کے
نتیجے میںفسادات بھڑکنا مرکزی سوال ہے، ”speech“ سے پرتشدد ہنگامے ہوئے اور
سپیکر نے ایسا ہی کیا۔عمومی طور پر اصول ہے کہ آپ ایسے حق تقریر کے ذمہ دار
نہیں ہو سکتے جس سے دوسرے لوگ مشتعل ہو جائیںجب تک آپ کی تقریر سے نقصاندہ
اشتعال پیدا ہو جائے۔سوال یہ کہ ٹیری جونز نے جان بوجھ کر فساد کو ہوا دی
اور کیا فساد کی وجہ بننے والا ذمہ دار ہے؟یہ بات عدالت میں ثابت کرنا مشکل
ہے۔ناقابل برداشت،توہین پر مبنی تقریر بھی”protecting speech“ ہے۔بعض لوگوں
کے خیال میں ٹیکنالوجی کی ترقی کی روشنی میں امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے
استعمال میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا پہلی پرمیم میں ہی تبدیلی کی ضرورت
ہے۔وڈیو دنیا بھر میں پھیلانے سے اس کی شدت میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی؟
دوسری طرف اس بیہودہ فلم کی کھلی حمایت کرنے والا سابق امریکی پادر ی ٹیری
جونز روزانہ امریکی اخبارات،ٹی وی چینلز،ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے
خیالات عام کرتے ہوئے مسلم کش جذبات کو ابھارنے میں مسلسل مصروف ہے۔امریکی
میڈیا ٹیری جونز کا موقف بھرپور طریقے سے پیش کر رہا ہے بلکہ امریکی میڈیا
ٹیری جونز کی باتوں سے ہی لبریز ہے،منصف کی طرح کوئی اس پر امریکی تبصرہ
نظر نہیں آتا۔فلوریڈ اکونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کے ایگزیکٹیو
ڈائریکٹر حسن شبلی نے امریکی سفیر کی ہلاکت کی مذمت میں کہا ہے کہ چند
افراد کے مجرمانہ کام کا الزام سب پر عائید کرنا درست نہ ہے۔جس
طرح2011ءمیںاوسلو میں فائرنگ ،بم دھماکوں سے 77افراد انتہا پسند گروپ کے
ہاتھوںقتل کئے گئے ،ایسے پرتشدد واقعات غیر اسلامی ہیں۔شبلی نے کہا کہ ٹیری
کا بیان توجہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش ہے،وہ ایسے ہی ہے جیسے کئی مسلم
انتہا پسند ہیں،دونوں ہی ایسے آئیڈیاز پھیلا رہے ہیں جو نہ تو امریکہ اور
نہ ہی مسلمانوں کے لئے کوئی اچھی بات ہے۔
میں نے اگریہ وڈیو کلپ نہ دیکھا ہوتا تو میں اس بارے کوئی رائے نہ دے سکتا
تھا۔یہ وڈیو،فلم سراسر شر انگیز، اشتعال انگیزا ور توہین انسانیت پر مبنی
ہے ۔ٹیری جونز اور اس طرح کی فلم تیار کرنے والے لوگ ایسے عناصرہیں جو دنیا
میں جو مذہب اور نفرت کی بنیاد پر جنگ،قتل و غارت گری،تباہی کے خواہاں
ہیں،تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا میں بد امنی،قتل و غارت گری کو ہوا دینے
والوں کو آج کے تہذیب یافتہ ملک،ممالک میں نہ صرف تحفظ بلکہ بالواسطہ حمایت
حاصل ہے۔
دلیل اور علمی بات کا جواب دینا برحق ہے لیکن اس بیہودہ ،جھوٹ،جان ہوجھ کر
اشتعال پیدا کرنے اور کھلی توہین کا کوئی علمی اور عقلی جواب نہیں ہو سکتا۔
یہ فلم اور اس طرح کی غلط ترین حرکات مجرمانہ جہالت پر مبنی ہیں جس کا
مظاہرہ کم ترقی یافتہ مسلمانوں کی طرف سے بھی کبھی دیکھنے میں نہیں
آیا۔نفرتوں کے سوداگر،ایسی ہی ذہنیت کے لوگوں کی وجہ سے آج کی جدید دنیا
میں کئی افریقی ملکوں میں لوگ پانی کے بجائے جانوروں کا پیشاب پی کر زندہ
رہنے پہ مجبور ہیں۔اگر بات برداشت کی ہے تو کیا امریکہ ،امریکی عوام کی
آزادی کو غصب کرنے، امریکہ کو نقصان پہچانے کی باتیں protectef speechکے
طور پر برداشت کر سکتا ہے؟باہمی احترام کو نظر انداز کر کے کوئی اپنی عزت و
حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتا۔اس فلم سے معصوم ،شریف غیر مسلموں کو اسلام سے
متعلق جھوٹی ترین باتوں پر یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔امریکہ کو اگر
اپنا آئین،اپنے قوانین عزیز و محترم ہیں تو انہیں دوسری قوموں کے آئین و
قوانین کا بھی احترام کرنا ہو گا،جیسا کہ ایک امریکی اخبار کے ادارئے میں
کہا گیا ہے کہ امن ابھی ایک خواب ہے۔اصل بات یہ کہ ترقی یافتہ اور علم میں
ترقی حاصل کر نے والی قوم ،ملک کی طرف سے اس طرح کا انسانیت سوز روئیہ ظاہر
کرتا ہے کہ ترقی اور علم نے ان کی وحشت اور جنونیت کو تراش خراش کے انسانیت
کے لئے اور بھی تیز اور خطرناک بنا دیا ہے ۔یہ انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر
تقسیم کرنے ،مذہبی بنیاد پر نفرتوں کو ہوا دینے کی حرکات ہیں جنہیں انسانی
تو نہیں البتہ تعصب،جہالت اور جنونیت پر مبنی گھٹیا حرکت ضرور کہا جا سکتا
ہے۔
اس کے تھ ساتھ ہم مسلمانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی
خرابیوں،برائیوں سے پیچھا چھڑانا ہو گا۔جہالت،عدم تحمل،جنونیت،لا علمی
،غلامانہ ذہنیت ،، توہم پرستی کے بتوں کو توڑنا ہو گا۔اپنے شہریوں پر
حاکمیت جمانے کے بجائے انہیںبرابر کے حقوق دینا ہوں گے۔ان روئیوں کو دیکھتے
ہوئے اس حوالے سے ہونے والے جھگڑوں،لڑائیوں کو جنگ جہالت کا نام ہی دیا جا
سکتا ہے اور اس کا آغاز پسماندہ،غیر ترقی یافتہ لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ
ترقی ،تہذیبی و علمی برتری کے دعویدار ملکوں،قوموں کی طرف سے سامنے آ رہا
ہے۔اسلام کے خلاف شر انگیزی،اشتعال انگیزی،جہالت اور توہین انسانیت پر مبنی
فلم کے خلا دنیا بھر میں مسلمانوں کا احتجاج منطقی ردعمل ہے۔مسلمانوں کے
تمام مکتبہ ہائے فکر کی طرف سے فلم کے ذمہ داران کے خلا ف سخت ترین کاروائی
کا متفقہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔اس مکروہ فلم کے ذریعے دنیا اورانسانیت کو
تباہی کے راستے پر ڈالنا آزادی اظہار قرار نہیں پا سکتا۔ |