مفتی خلیل اللہ
آہ! ایک مرتبہ پھر عالم میں اضطراب برپا ہوگیا، محسنِ کائنات کی شانِ اقدس
میں پھر گستاخی کا ارتکاب! مجھے تاریخ کے کئی مناظر یاد آنے لگے. محمد بن
مسلمہ رضی اللہ عنہ سے لے کر غازی عامر چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ تک یہ
سارے پیارے میری نظر میں گھومنے لگے۔ اس موقع پر یہی کردار زیب دیتا ہے،
سڑکوں پہ نکلنا، جلسے جلوس کرنا ایمانی غیرت کا اظہار ہے مگر غیرت و حمیت
کا تقاضا نہیں۔ غیرت و حمیت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اب ہر مسلمان فدائی بننے
کے لئے تیار ہوجائے۔ ان بے غیرت و بے حس خنزیر، بندر کی نسل کو ان کی اوقات
یاد دلا دے، کاش! یہ واقعہ مسلمان کی غیرت کو جگانے کا ذریعہ بن جائے،
عربوں کو اپنی تاریخ دھرانے کے لئے کھڑا کردے۔
خیاباں میں ہے منتظر لا الہ کب سے
قبا چاہئے اس کو خونِ عرب سے
میں نے آج یہی سوچ کر قلم اٹھایا تھا کہ ان گستاخوں کی نوکدار زبانوں کو
کند کردوں لیکن الحمد للہ اہلِ حق یہ فرض بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے نہ قلم میں اتنی جان ہے نہ طاقت کہ ان کے رخ کو پھیر دے لیکن
خریدارانِ یوسف میں شامل ہونے کا بہانہ، انگلی کٹاکے شہیدوں میں شامل ہونے
کا اعزاز یہ باتیں اسی موقعہ کے لئے ہیں۔ کیا معلوم آخرت میں ان گستاخوں کو
چار حرف بھیجنے کی برکت سے جامِ کوثر نصیب ہوجائے پھر میں نے سوچا ان
خبیثوں، کمینوں کو کونسی گالی دوں جس سے ان کی خباثت و غلاظت کی پوری منظر
کشی ہو۔ دل و دماغ پہ بوجھ ڈالنے اور گالیوں کی تمام اقسام و انواع میں غور
کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آیا کہ کوئی گالی ان پہ نہیں جچتی۔ ان کے جرم
و خباثت کے آگے یہ سارے تمغے اور اعزازات ہیچ ہیں، مزید سوچ و بچار اور
جدید دور کے گستاخوں کے لئے کوئی نئی گالی سوچنے میں اپنا وقت صرف کرنے کے
بجائے سوچا کہ کیوں نہ اس آئینہ اور ہستی کے رخ زیبا میں غور کروں جس کی
ضیائ پاشیوں اور چکا چوند کر دینے والی کرنوں سے بے چین ہوکر شبِ تاریک کے
یہ کتے بھونکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ولی
ٔکامل حضرت مولانا محمد حسین صاحب کو انہوں نے اپنی کتاب ’’عقیدۂ حیات
النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے آخر میں عشق و محبت میں ڈوب کر آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائل کو بہت جامع الفاظ میں سمیٹنے کی
کوشش کی ہے آئیے! اس پیاری تحریر کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
’’صاحب خلق عظیم شفیع الانیم النبی الکریم الجسیم، الرسول القسیم، البسیم
الوسیم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل مبارکہ، رضائے الٰہی سے
معطر خمیر نبوت کے مہکتے ہوئے سدا بہار پھول تھے جو گلشن حیات میں کھلے پھر
حقوق اللہ اور حقوق العباد کے دیدہ زیب گلدستوں میں سج کر رشک بہار صد
فردوس بن گئے۔ جن کی دید سے آنکھیں مخمور، شنید سے کان مسحور اور وجدان سے
دل و جان معمور ہوئے۔ سر مبارک پر عمامہ نبوت دوش رسالت پر گلیم استقامت
دیدہ تر میں سرمہ حیا کے سرخ ڈورے ڈالے ہوئے غنچہ نیم باز کا تبسم سجائے
برسہا برس، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، آدمیت کو انسانیت سکھلاتے رہے اور
دین اسلام کی دولت عام کرکے خوش ہوتے رہے، نبوت سے قبل چالیس سال معصومیت
کا یہ عالم رہا کہ کل اہل وطن آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین
کہنے لگے، نبوت کے بعد تئیس سالہ عہد کے تو پوچھنے ہی کیا! طبع مبارک صداقت،
امانت، سخاوت اور حیا کا معنون تھی۔
دوران کلام آسمان کی جانب دیکھا کرتے، ویسے عموماً نگاہیں نیچی رکھتے غایت
حیا کے سبب دوسروں کو نظر بھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ اس کنواری لڑکی سے
زیادہ حیادار تھے جو پردہ میں ہو اور شرما رہی ہو۔ کلام کی فصاحت و بلاغت
اور جامعیت دلوں کو موہ لیتی۔ عادت طیبہ تھی کہ باتوں میں ہاتھ سے اشارہ
کرتے کبھی داہنا انگوٹھا بائیں ہاتھ پر مارتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹ
دیتے، نماز فجر کے بعد یادگار نشست ہوا کرتی، دین و دنیا کے عقدے حل ہوتے،
ہنسی خوشی کی باتیں ہوتیں، عہد ماضی کا ذکر چھڑ جاتا، اشعار سنائے جاتے اور
مسجد نبوی کا صحن چاند تاروں سے بھر جاتا۔ مسرت آمیر لمحات میں آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیتے، نیز حلیم و علم، حیا و صبر اور امانت و ادب کی
تلقین فرماتے۔ خوابوں کی تعبیریں بتلاتے، ایفائے عہد کا حکم کرتے، چھوٹوں
پر شفقت، بڑوں کا ادب، ناداروں اور پردیسیوں کا احساس، جانوروں پر رحم،
مہمانوں اور اہم شخصیات کا اکرام سکھاتے۔ ہدیہ لینے کی بہ نسبت دینے پر
زیادہ خوش ہوتے۔ ہر وقت یادِ خدا اور فکرِ آخرت میں محو رہتے اور روئے
تاباں پر ہلکی سی مسکراہٹ مچلتی رہتی۔ اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیتے لیکن
ناحق بات پر شدید غضبناک ہوجاتے، ناشائستہ امور پر منہ موڑ لیتے یا پہلو
بدل دیتے، سلام میں اور ہر نیک کام میں پہل کرتے۔ کام بسم اللہ سے اور
داہنی طرف سے شروع فرماتے، مجلس میں نمایاں طور پر بیٹھنے کی کوشش نہ کرتے
بلکہ جہاں جگہ ملتی وہاں تشریف فرما ہوجاتے اور وہ جگہ محفل میں صدر مقام
بن جاتی۔
سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہر شخص محسوس کرتا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
سب سے زیادہ توجہ اسی کی طرف ہے۔ اکثر یہیں پر مال غنیمت وظائف اور خراج
وغیرہ تقسیم فرماتے، خلوص، سادگی اور اعتدال اور مداومت، اعمال کے نمایاں
وصف تھے۔ چاشت کے وقت گھر تشریف لے جاتے اور اہلِ خانہ میں گھل مل جاتے۔
باہر کی طرح یہاں بھی ہنسی خوشی سے رہتے، کام میں حصہ لیتے، پھٹے کپڑے سی
لیتے، جوتوں کو پیوند لگا لیتے، بازار سے سودا لے آتے، ازواج مطہرات رضی
اللہ عنہن کی دلجوئی کرتے، ان کی سہیلیوں کی بھی عزت کرتے، خادموں اور
غلاموں کو اولاد کی طرح رکھتے، جو موجود ہوتا تناول فرما لیتے ورنہ فاقہ
ہوتا یا روزہ رکھ لیتے، طعام میں عیب نہیں نکالتے تھے طبیعت کے موافق ہوتا
تو کھا لیتے ونہ ہاتھ مبارک کھینچ لیتے، معمولی نعمت کی بھی بہت قدر کرتے
ایک وقت کا طعام دوسرے وقت کے لئے بچا کر نہ رکھتے تھے۔ محلہ کے یتیموں،
ناداروں اور بے کسوں کا خاص خیال رکھتے واردین و صادرین کی علمی پیاس
بجھاتے اور خوب اکرام و تواضع کرتے، کبھی یار رفتگاں میں کھو جاتے ان کی
خوابگاہوں پر حاضر ہوکر سلام دعا سے نوازتے ایک خصلت پاکیزہ یہ تھی کہ سائل
کو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے اور مسلمانوں کو غنی کرکے خود مقروض
ہوکر خوش رہتے تھے۔ دوسروں کے مفاد کی خاطر سب سے آگے اور اپنے فائدہ کے
وقت سب سے پیچھے ہوتے تھے لباس سفید پسند تھا اکثر چادر قمیص اور تہبند
پہنتے، سر مبارک سے چمٹی ہوئی ٹوپی عمامہ باندھتے جس کا شملہ دوش پر یا
دونوں شانوں کے درمیان ہوتا۔ یمن کی دھاری دار چادریں بھی پسند تھیں، ازار
ٹخنوں سے اوپر رکھا کرتے تھے، مزاج مبارک انتہائی نفیس تھا، ہر وقت صاف
ستھرے اجلے ہوئے لباس میں مہکتے رہتے، خوشبودار پسینے کے موتی جبین و رخسار
سے یوں لڑھکتے جیسے گلاب کی پتیوں سے شبنمی قطرے ٹپکتے ہیں، کھانے پینے کی
اشیائ میں بھی ذوق لطیف اللہ تعالیٰ کی مرضیات کا پابند تھا۔ ٹھنڈا پانی
اور دودھ پسند تھا، کبھی دودھ میں پانی ملا کر نوش فرماتے، سرکہ، شہد، حلوہ،
روغن، زیتون اور کدو بھی مرغوب تھے۔ بدبودار چیزوں ﴿لہسن، پیاز وغیرہ﴾ سے
نفرت تھی۔ ستو چھوہارے اور گوشت غذا رہی گندم کی روٹی عمر بھر میسر نہ آئی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے گھر رہنے کے اوقات تین حصوں میں تقسیم کردیئے
تھے۔ ایک حصہ عبادت کے لئے، ایک حصہ گھر والوں کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذات
کے لئے۔ پھر اپنے حصہ سے بہت سا وقت اپنی امت کے لئے وقف تھا جس میں پیش
آمدہ مسائل کے حل کے لئے خواص اہل علم آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع
کرلیا کرتے تھے۔ عادت مبارکہ تھی کہ نماز ظہر اور پھر نماز عصر پڑھا کر
ازواج مطہرات کے ہاں تشریف لے جاتے، سب کے پاس ذرا ذرا ٹھہرتے پھر جس کی
باری ہوتی وہیں ٹھہر جاتے۔ دوسری ازواج اپنے مکانوں میں چلی جاتیں، آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کچھ تلاوت کرتے اور بعض اوقات چند نوافل پڑھتے، پھر جلد
ہی سو جاتے، نیند کیا ہوتی؟ آنکھوں کے در بند اور دل کے دریچے وارہتے۔ دن
انتہائی مصروفیت و مشغولیت میں کٹتا لیکن کچھ ستانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی
عبادت کے لئے چونک جاتے. پھر رات کو سنسان گھٹائوں میں سیاہ زلفیں سجدہ ریز
جبین کے آس پاس بکھر جاتیں، ہانڈی کی طرح ابلتے ہوئے سینے میں محبت الٰہیہ
کے شرارے شور محشر بپا کئے ہوتے۔ حسن فطرت کی تمام رعنائیاں جبین اطہر سے
لپٹ لپٹ جاتیں اور سارے دن کی تھکاوٹ خلوص سجدہ کے ایک لمحے کی نذر ہوجاتی.
پھر لمبا قیام، طول قرأت، دراز رکوع و سجود. طویل راتوں کو مختصر کردیتے۔
سرشت نبوت کے تقاضے ہی سراپا اضطراب تھے، روزانہ فرائض پنجگانہ سنن و نوافل
﴿اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد وغیرہ﴾ میں کم و بیش پچاس یا ساٹھ رکعتیں
ادا فرماتے کوئی ہفتہ ایسا نہ گزرتا تھا جس میں کئی روزے رکھتے ہوں۔ بعض
اوقات رمضان المبارک کے ساتھ مکمل شعبان کے روزے رکھتے۔ صدقہ کے باب میں یہ
حال تھا کہ جو موجود ہوتا سب خیرات کردیا جاتا ﴿خیال کیا جاتا ہے کہ﴾ مکی
دور میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہر سال حج بیت اللہ ادا کیا ہوگا جبکہ
﴿مرسل روایات کے مطابق﴾ مدنی دور میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا
تین حج ادا فرمائے اور چار عمرے ادا کئیے۔ جرأت و شجاعت کا یہ عالم تھا کہ
جہاد میں وہ لوگ زیادہ دلیر قرار دیئے جاتے تھے جو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے قریب رہ کر لڑسکیں۔ اور کریم النفسی. پورے عرب کی طرح حاتم طائی کا
خاندان بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جوہر جود و سخا کا مداح تھا۔ جبلت
رسالت کی راز دار حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی تھیں کہ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ﴿عالیہ﴾ قرآن تھے۔ اسی خوشخوئی پر اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ بایں ہمہ عبادت و معرفت میں
زیادتی کا احساس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بے چین رکھتا تھا۔
دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے
موقع پر مسلمانوں سے یہ استفسار کرتے پایا ہے ’’لوگو! حشر میں اللہ تعالیٰ
تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘ ترس آتا ہے جب آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو مرض الوفات میں کہا سنا معاف کرواتے دیکھا ہے!! زندگی کی
آخری رات، ایثار و قربانی، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے محبت و شوق کا
عجیب مرقع تھی. کہ ایک طرف قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت زیر نگیں، اور شرق و
غرب کا بیش بہا خراج مسجد نبوی میں بے قیمت پڑا تھا جبکہ دوسری جانب آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زرہ مبارک اہل و عیال کے اخراجات میں رہن تھی. چراغ
میں جلنے والا تیل ایک پڑوسی سے قرض کے طور پر لایا گیا تھا. اور جسد اطہر
پر پڑے ہوئے سیاہ کمبل میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ آہ! معصوم مکھڑے کا
یہ دکھڑا کون بھلا سکتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے یقینا تم میں سے بعض پر وہ دن آئے گا مجھے نہ
دیکھ سکیں گے، پھر میری دید کے لئے اپنے بیوی بچے اور مال لٹا دینا، ان کی
سب سے بڑی تمنا ہوگی۔ |