”پاکستانیات“ کا کوئی بھی
طالبِ علم علامہ محمد اسد کے نام سے ناواقف نہیں ہوسکتا۔ علامہ کا پرانا
نام ”لیوپڈ“ ہے ۔ 1900ءکے دوران آسٹریا کے ایک قصبہ میں ایک یہودی گھرانے
کے اندر پیدا ہوئے۔ دادا باقاعدہ ایک یہودی ربی تھا۔ 22 سال کی عمر میں
ماموں کی دعوت پر بیت المقدس جانا ہوا تو وہاں مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے
کا موقع ملا۔ ان کے بقول: ”میں نے یہاں کے لوگوں میں ناقابلِ یقین خلوص ‘
محبت وایثار اور اخوت کے وہ مناظر دیکھے جن کا یورپ کے معاشرے میں کوئی
تصور نہیں ہے۔“ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ انسیت پیدا ہونے کا یہ پہلا سبب
تھا۔ بعدازاں جرمنی کے ایک ا خبار میں ملازمت ہوئی اور بطور رپورٹر مشرقِ
وسطی میں تقرری ہوئی۔اب مسلمانوں کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ عربی
زبان سیکھی اور اسلامی لٹریچر کا بھر پور مطالعہ کیا۔ آخرِ کار جب خدا کو
منظور تھا‘ قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ کچھ عرصہ سعودیہ رہنے کے بعد لاہور
چلے آئے۔ علامہ اقبال سے قریبی تعلق رہا۔ تحریکِ پاکستان کے حامی او راس کے
عینی شاہد تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سید سلیمان ندویؒ کی سربراہی میں قائم
”اسلامی تعلیمات بورڈ“ کے رکن رہے‘ وزارتِ خارجہ سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔
بالآخر اقوامِ متحدہ میں
پاکستان کے مستقل مندوب کے طور پر تقرر ہوا۔ 1992ءمیں وفات پائی۔ کئی
کتابوں کے مصنف ہیں۔
بے پناہ اہمیت کا حامل انہی کا ایک مقالہ گذشتہ دنوں اس طرح میری نظر سے
گزرا کہ دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ‘ ڈاکٹر ساجدالرحمن کی طرف سے
دعوہ اکیڈمی کی مطبوعات کا ایک سیٹ مجھے موصول ہوا۔ اس سیٹ میں شامل 36
صفحات کا ایک کتابچہ کا عنوان تھا:”ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟“ تاہم
ٹائٹل پر اسے بدل کر یوں لکھا گےا تھا:”ہم نے پاکستان کیوں بنایا؟“ اصل میں
یہ ایک مقالہ ہے جو انگریزی زبان میں علامہ نے لکھا او رقیام ِ پاکستان سے
تین ماہ قبل علامہ کے اپنے ہی ماہوار جریدے”عرفات“ میں شائع ہوا۔ اس کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سید قاسم محمود جیسا علمی آدمی
اس مقالہ کو ”عرفات“ کی پرانی فائلوں سے نکال کے لے آیا اور اسے اردو کے
قالب میں ڈھالا۔
ایک نومسلم نسلی مسلمانوں کی بدعملی اور بے دینی کو کتنی دردمندی سے دیکھتا
ہے؟ اس کا اندازہ ان کے اس مقالہ میں شامل اولین جملوں سے ہوتا ہے: ”ایک
سوال ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟
بے شمار مسلمان آج زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہاں او رعمل سے کہتے ہیں کہ ناں!
اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور بلند بانگ دعوؤں
کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام بہترین اور واحد ضابطہ حیات ہے جو انسانیت کو
تباہی کے راستے سے بچا سکتا ہے لیکن اپنے اعمال او رسماجی رویوں کے ساتھ
اسلام سے دور سے دور تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں اسلام کے بارہ میں
اتنی باتیں کبھی نہیں ہوئی تھیں جتنی آج کے ہندوستان میں ہورہی ہیں۔ دوسری
طرف یہ بھی سچ ہے کہ اسلام کی سچی روح کے مطابق عملاً اپنی انفرادی اور
اجتماعی زندگی گزارنے سے اتنی بے توجہی کبھی نہیں برتی گئی جتنی آج کے
ہندوستان میں برتی جارہی ہے۔“
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام نہ ہوپانے کی وجہ ‘
قیامِ پاکستان کے بعد اس پر مسلط ہونے والے نااہل حکم ران ہیں‘ لیکن علامہ
محمد اسد کا یہ مقالہ بتاتا ہے کہ خود تحریکِ پاکستان کے حامی اہلِ نظر
قیامِ پاکستان سے قبل ہی اس طرح شدید خدشات میں مبتلا تھے کہ پاکستان میں
نفاذِ اسلام اپنی روح کے ساتھ نہیں ہوسکے گا۔ اس کا سب سے بڑا سبب ان کے
نزدیک عام مسلمانوں کی اسلام سے دوری اور عملاً بے زار ی تھی۔ وہ اپنے اس
مقالہ میں سب سے زیادہ عام مسلمانوں کو اپنا حال بدلنے کی تلقین کرتے
ہیں۔دوسری طرف وہ تحریکِ پاکستان کے قائدین کو انقلاب آفریں تسلیم کرنے کے
ساتھ ساتھ ان میں پائی جانے والی دورنگی کو بھی نشان زد کرتے ہیں۔ ان کا
سوال یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی قیادت اگر واقعتا اسلام چاہتی ہے تو اپنے
کارکنوں کی دینی اصلاح وتربیت کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتی؟ مقالہ کا آغاز
انہوں نے ایک غلط فہمی کے ازالہ سے کیا ہے جو آج کل کی طرح اس وقت بھی پائی
جاتی تھی کہ قیامِ پاکستان کا مقصد محض برِ صغیر کی مسلم اقلیت کے دنیاوی
مفادات کو تحفظ دینا ہے‘ کسی اسلامی ہیئتِ حاکمہ کا قیام نہیں۔وہ اس مغالطہ
پر شدید تنقید کرتے ہیں اور دلائل سے اس کا محاکمہ کرتے ہیں۔
عموماً کسی بھی کتاب یا کتابچہ کے مطالعہ کے دوران اہم باتوں کو انڈر لائن
کیا جاتا ہے‘ مگربعض تحریروں کی ایک ایک سطر انڈر لائن کرنے کے قابل ہوتی
ہے۔ میرے ساتھ علامہ اسد کے مذکورہ مقالہ میں یہی کچھ ہوا۔ نوٹس بناتے
بناتے جب میں مقالہ کے درمیان میں پہنچا تو احساس ہوا کہ یہ تو مقالہ کی
تلخیص تیار ہوتی جارہی ہے۔ دیل کی سطور میں آپ وہی تلخیص ملاحظہ فرمائیں:
”تحریکِ پاکستان کا مقصد مسلم اقلیتوں کے مسئلہ کا حل نکالنا نہیں‘ بلکہ
ایک اسلامی ہیئتِ حاکمہ کا قیام ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ مسلم اقلیتیں تو
قیامِ پاکستان کے بعد بھی بہرحال ہندوستان میںر ہنی ہیں‘ پاکستان ان کے
مسئلہ کا اجتماعی حل نہیںہے۔ نیز یہ کہ پاکستان سے ملحق نہ ہونے والے
علاقوں کے مسلمان بھی پاکستان کے متمنی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ
مسلمانانِ عالم پاکستان کو اسلامی نظامِ حیات کی ایک عملی تجربہ گاہ کے طور
پر دیکھنا چاہتے ہیں‘ ورنہ قیامِ پاکستان میں ان کا کیا دنیاوی مفاد
ہے؟(صفحہ 11) یوںا س عظیم اور عالی مقصد کے ساتھ منظر پہ ابھرنے والی یہ
اپنے طرز کی ایک منفرد ریاست ہے(10‘13) مگر یہ مقصد ثقافتی قومیت کے ہاتھوں
یرغمال ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ مسلم قیادت اس پہ غیر ضروری حد تک زور دے
رہی ہے (11‘ 16) اور قیادت کی روحانی حالت بھی شہادت دیتی ہے کہ اسے مذکورہ
عظیم مقصد سے کوئی غرض نہیں(12) بلکہ کارکنوں کی اکثریت بھی صرف شوروغل کی
حد تک اس مقصد کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہے‘ ورنہ ان کی عملی زندگی اس
کی نفی کرتی ہے(8‘9‘11) قائدین کے نزدیک اسلام کا نام محض ایک جنگی تدبیر
کے طور پر استعمال کرنا چاہئے‘ حقیقی اسلام ان کا مطلوب نہیں(18) یہی وجہ
ہے کہ وہ کارکنوں کی مذہبی اصلاح پر زور نہیں دیتے(19) اور اس کا عذر یہ
نکالتے ہیں کہ تحریک میں شامل مغربیت زدہ بے دین لوگ مذہب پر اصرار سے
چوکنے ہوکر الگ ہوجائیں گے(19 ‘23) نیز یہ کہ اس سے غیر مسلم اقلیتیں بھی
میدان میں اتر آئیں گی(20) یہی رویے اور ثقافتی قومیت پر غیر ضروری زور
اسلامی تجدید واحیاءکی دعوے دار سیاسی تحریکوں کی ناکامی کا سبب رہے
ہیں(24) اور یہی چیز پاکستان کے مستقبل کے لیے کسی بھی خارجی خطرہ سے بڑا
خطرہ ہے(26) اس طرزِ عمل کے نتیجہ میں وجود میں آنے والا پاکستان کبھی بھی
حقیقی اور اصلی پاکستان نہ ہوگا(26) حصولِ پاکستان سے عام مسلمان کا مطلوب
معاشی مراعات ومفادات کا حصول نہیںبلکہ وہ خالص اسلامی ریاست چاہتا ہے(28)
مگر اپنی اخلاقی وروحانی پستی کو بدلنے کا خیال اس میں نہیں ہے( 34) اس بے
راہ روی کی ذمہ دار قیادت ہے(29‘33‘ 35) مسلم لیگ کی ہائی کمان اگر چہ مذہب
اور شریعت کے حق میں بیانات دیتی ہے ‘ مگر یہ سب چند سال پہلے کے لیے تو
کافی تھا ‘ اب نہیںکیونکہ اب قیامِ پاکستان کے امکانات روشن ہیں(30) اور
1948ءسے قبل اس خواب کو تعبیر ملتی نظر آرہی ہے(31) مسلم لیگی قیادت جو
انقلاب آفریں قیادت ہے (32) ا س کا فرض ہے کہ اب ان بیانات پر ہی اکتفاءنہ
کرے‘ بلکہ مسلمانوں کی عملی وانفرادی مذہبی اصلاح پر بھی زور دے اور انہیں
اس کی تلقین کرے(33) اور اس کے ساتھ ساتھ ابھی سے ٹھوس بنیاددوں پر واضح
کرے کہ اس کے ذہن میں پاکستان کی اسلامی تشکیل وتصویر کے کیا خدو خال ہیں؟
(30‘31) یہ کرنا اب مسلم لیگی قیادت کے بس میں ہے(32) اس معاملہ کو اب
قیامِ پاکستان کے مابعدکے احوال پر ٹالنا درست نہیں(33)“
تلخیص آپ نے ملاحظہ کی۔ اس میں بظاہر کوئی ایسی بات نہیں جس سے اختلاف کیا
جاسکے۔ دینی سیاسی تحریکیں جو اسلام کو سربلند دیکھنا چاہتی ہیں‘ ان کوعام
مسلمانوں کی اصلاح وتربیت پر زیادہ توجہ دینا ہوگی‘ ورنہ شایدگاڑی وہیں کی
وہیں کھڑی رہے جہاں تقریباً پون صدی سے کھڑی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ
مسلمانوں کا حال ان کے قوتِ بازو اور شوروغوغا سے نہیں‘ اللہ کی رحمت اور
مدد سے اچھاہوگا۔ اس رحمت کو متوجہ کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان
اپنے تزکیہ ودینی تربیت کی طرف توجہ دے۔ |