ٹیکسلا شہر کی رُودادِ تاریخی

ٹیکسلا شہر کے بارے میں میرے لکھنے لکھانے سے تو صرف یہی ہوگا کہ آپ اس کے حالات و واقعات سے واقف ہو جائیں گے اور ویسے بھی کم و بیش پچاس فیصد لوگ تو اس شہر کو اچھی طرح جانتے ہی ہونگے۔ اس شہر کو تاریخی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے میں نے اس شہر کے بارے میں لکھنے کیلئے قلم اُٹھایا ہے اور کوشش کی ہے کہ حقائق سے پردہ اُٹھاﺅں تاکہ عوام الناس اور خاص کر طالبعلموں کو اس شہر کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ مل سکے اور وہ اس سے مستفید ہوسکیں ۔اور وہ طالبِ علم بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں جن کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان اس شہر کے بارے میں ہو۔

اسلام آباد سے تقریباً تیس سے پینتیس کیلو میٹر دور شمال مغرب میں شیر شاہ سوری کی گرینڈ ٹرنک روڈ سے ذرا ہٹ کر گندھارا تہذیب کا مرکز ٹیکسلا واقع ہے،اورمیوزیم روڈ اسلام آباد سے نارتھ ویسٹ کی طرف واقع ہے۔ اس کا قدیم نام ٹیکشاشلا ہے۔یہ چھٹی صدی قبل مسیح کا شہر ہے،انیس سو اسّی عیسویں میں اسے یونیسکونے دنیا کے اہم آثار میں شامل کیاتھا۔یہ قدیم شہر دنیا کے تین اہم راستوں سے ملا ہوا تھا،پہلا راستہ وہی تھا جو بعد میں شیر شاہ سوری نے اختیار کیا یعنی پاٹلی پورا کا راستہ،دوسرا راستہ شمال مغربی راستہ تھا جو بکٹریا،کپسا اور پشکلاوتی(پشاور) کے راستے سینٹرل ایشیا سے ملا ہوا تھا،تیسرا راستہ کشمیر،سری نگر،مانسہرہ،ہری پور،خنجراب اور شاہراہِ ریشم پر واقع تھا۔ٹاکشا بادشاہ نے ٹکشا کھنڈ(تاشقند)کی حکومت یہیں قائم کی تھی۔یہ بھارت،مانڈوی کا بیٹا اور رام کا بھائی تھا۔

یہاں کئی شہر اور شہر پناہ کی فصیل کھدائی میں برآمد ہوئی ہے،چھٹی صدی قبل مسیح،پانچ سو اٹھارہ بی۔سی، میں یہاں فارس کے حکمران دارائے اعظم کی حکومت تھی،تین سوعیسویں کے لگ بھگ کے قبل مسیح میں سکندرِ اعظم یہاں کا حکمراں ہوا،وہ تو چلا گیا مگر یونانیوں کے کئی خاندان یہاں حکومت کرتے رہے جن کے بعدتین سو اکیس بی۔سی میں چندر گپت موریہ جیسا بڑا بادشاہ یہاں سے ابھراجس نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی،چندر گپت کا مشیر اور بدنامِ زمانہ چالبازچانکیہ جسکا دوسرا نام کوٹلیہ ہے،ٹیکسلا کا ہی رہنے والا تھا،وہ یہاں پڑھایا کرتا تھا۔چندر گپت موریہ کے پوتے اشوکا کے زمانے میں ٹیکسلابدھ مت تہذیب کا عظیم ترین مرکز بن گیا تھا،یہ دو سو اکسٹھ بی۔ سی کی بات ہے جب بدھ مت کا فرقہ ”ماہایانا“ یہاں خوب پھلنے پھولنے لگا اور ٹیکسلا اہم تعلیمات کا مرکز بن گیا۔

شہرِٹیکسلا میں تین اہم شہر دریافت ہوئے ہیں،جس میں پہلے نمبر پر بھیر منڈ،چھٹی صدی قبل مسیح کا شہر، اس کے بعد سودوسرے نمبر پر سرکاپ جودوسری صدی قبل مسیح کاشہرجانا جاتا ہے اور تیسرے نمبر پرسِر سکھ،جہاں کشن راج قائم ہواتھا،اس کے آثار میں بہت سے اسٹوپا(مندر)،دھرم راجیکا،اور بہت سی رہائشی عمارتیں دریافت ہوئی ہیں۔جولیاں،موہرا اور مرادو کی ا ٓبادیاںملی ہیںجو عمارت کاری کے طلبا کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہیںاور وہ اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔

ٹیکسلا کا میوزیم پاکستان کے خوبصورت میوزیم میں سے ایک ہے ۔ یہ میوزیم ٹورسٹ حضرات اور اسکالرز صاحبان کیلئے کافی معلوما کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔اس میوزیم کا سنگِ بنیادغالباً انیس سو اٹھارہ میں خان بہادر سر محمد حبیب اللہ نے رکھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ یہ سنگِ بنیاد پانچ اپریل انیس سو اٹھائیس میں انہوں نے رکھا تھا۔میوزیم میں اس شہر کی کلچرل ہسٹری سے متعلق نوادرات زیادہ تعداد میں موجود ہے۔ٹیکسلا شہر سے ساتھ قسم کے نوادرات برآمد ہونے کے آثار ملتے ہیں۔جن میں گندھارا اسٹون، گولڈ ، سلوراور جیولری اسٹون، لکھائی کا سامان، ڈومیسٹک ہاﺅس ہولڈ کا سامان، ٹوائلیٹ کا سامان، کوائنز، ٹولز اور دوسرے اشیاءشامل ہیں۔

ٹیکسلا سے قریب ترین ائر پورٹ اسلام آباد ائرپورٹ منسلک ہے، جبکہ ٹیکسلا ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ ٹیکسلا بس اسٹاپ ٹیکسلا سٹی میں جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ٹورسٹ کیلئے بہترین قسم کے ہوٹل بھی بے شمار ہیں جہاں اچھے اقسام کے کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔ ان ہوٹلز میں ایڈوانس بکنگ اگر کروا لی جائے تو بہتر نتائج کی توقع ہوتی ہے وگرنہ یہاں سیاحوں کی آمد زیادہ ہونے کی وجہ سے کمرے دستیاب نہیں پاتے اور یوں نئے آنے والے مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

یہ رُوداد لکھنے کی وجہ تو میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس کے علاوہ میں جنت نظیر پاکستان کے شہروں کے بارے میں اس لئے بھی لکھتا ہوں کہ مجھے اپنے وطنِ عزیز سے بے پناہ پیار ہے ۔ اور مجھے اپنے شہروں کے بارے میں لکھنا بہت اچھا لگتا ہے اور لکھ کر خوشی بھی بہت ہوتی ہے کہ میری دی ہوئی تفصیلات سے اگر کسی اسٹوڈنٹ کو کوئی فائدہ پہنچ جائے تو لکھنے کا اور لکھنے سے پہلے اس پر ورک کرنے کا صلہ لکھاری کو مل جاتا ہے۔ آئندہ بھی کوشش کروں گا کہ کسی اور شہر کے بارے میں کچھ تحریر کر سکوں اور آپ تک پہنچا سکوں۔دعائے خیر میں یاد رکھیئے گا بس اسی بات کی طلب ہے ۔ کیونکہ دعائیں بھی اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اور اس پُر آشوب دور میں جہاں کوئی کسی کا نہیں وہاں اللہ رب العزت اور چند ہمدردوں کی دعائیں ہی کام کرتی ہیں۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.