آج حُب رسول صلی اللہ و َعلیہِ
وآلہ وَسلّم اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے اظہار کا دن ہے !
دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی دوسرے مذہب کی تحقیر کا درس و حق نہیں دیتا اور
نہ ہی کسی مذہب و مسلک کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی اجازت
کسی کو دی جاسکتی ہے مگر اس کے باجود جو لوگ کسی بھی مذہب کے خلاف شر
انگیزی پھیلاتے ہیں وہ نہ تو دانشور ہوسکتے ہیں ‘ نہ رائٹر ‘ نہ آرٹسٹ ‘ نہ
مذہبی عمائدین اور نہ ہی انہیں انسان کہا جاسکتا ہے وہ ایسے حیوان ہیں جو
اپنی حیوانیت کی تسکین کیلئے دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور جب
کسی حیوان کے منہ کو خون لگ جائے تو اس کا صرف ایک ہی علاج ہوتا ہے کہ
انسان کو اس کی حیوانیت سے بچانے کیلئے قانون قدرت کے مطابق فیصلہ کیا جائے
جبکہ اہل ایمان کیلئے اللہ رب العزت کی اطاعت و فرمانبرداری کے بعد نبی
آخرالزماں محمد مصطفی ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے رہنمائی و پیروی اور شانِ رسالت و
ناموسِ رسالت ﷺ کا تحفظ بھی ایمان ہی کا حصہ ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نبی
کریم ﷺ کی محبت سے عاری قلب کبھی اﷲ کی اطاعت کی جانب مائل نہیں ہوسکتا
جبکہ رحمت اللعالمین ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب انسان کہلانے کا حقدار
نہیں ہے کیونکہ ناموس ِ رسالت ﷺ میں گستاخی خالصتاً وصفِ شیطانی و کارِ
شیطانی ہے ۔
امریکی نژادیہودی سام بےسل نے شانِ رسالت ﷺ میں گستاخانہ جملوں پر مبنی"
انوسینس آف مسلمز" نامی متنازعہ فلم بنا کر مشرق و مغرب اور اسلام و دنیا
کے دیگر مذاہب کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی کرنے کی سازش کی ہے جبکہ
امریکہ میں اس فلم کی ریلیز و نمائش اُمتِ مسلمہ کی دل آزاری اور ان کے
مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنی ہے لہٰذایہ امریکہ کی ہی ذمہ داری
ہے کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور مسلم ورلڈ میں فلم کے
حوالے سے موجود اشتعال کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور دنیا میں امن
و رواداری کیلئے قائم کئے جانے والے ادارہ اقوام متحدہ اگر بوجوہ دنیا میں
امن قائم رکھنے اور اقوام عالم کے درمیان مساوات کے تحت بین المذاہب ہم
آہنگی کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا قلع قمع کرنے میں اپناکردار ادا کرنے
سے قاصر رہا تو اس کی افادیت ختم ہوجائے گی جو دنیا میں امن کیلئے خطرہ اور
جنگ و جدل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے اس لئے دنیا کے پر امن مستقبل کیلئے
مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے والے واقعات کے تدارک کا مستقل حل تلاش کرنا
اقوام متحدہ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے جبکہ امریکہ و اقوام متحدہ کو
اس فلم کی نمائش پر مکمل پابندی عائدکرکے اس فلم کےلئے 50 لاکھ ڈالر کا
سرمایہ فراہم کرنے والے شر پسند یہودیوں ،فلم کے ڈائریکٹر سام بیسل، اس فلم
میں حصہ لینے والے آرٹسٹوں اور فلم کی پروموشن کرنے والے ملعون پادری ٹیری
جونز اور اس فلم کو انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر جاری کرنے والی ویب سائٹس کے
خلاف تادیبی کاروائی کرکے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہوگا و گر نہ
اہلِ اسلام میں اس فلم کی وجہ سے پیدا ہونے والا اشتعال بین ا لمذاہب ہم
آہنگی کےلئے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔
اس بات کی حقےقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گذشتہ ایک عشرہ سے
مسلمانوں کے مذ ہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے ،قرآن کی بے حرمتی ، شانِ رسالت
ﷺ میں گستاخی اور اس قسم کے دیگر مذمو م واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے
جس کی وجہ مسلم اُمہ کا انتشار اور مسلمان حکمرانو ں کی بے حسی و بزدلی ہے
مگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے متنازعہ فلم کے خلاف عوامی مطالبہ کے تحت
پارلےمنٹ مےںمذمتی قرارداد کی منظوری ، سرکاری سطح پر امریکہ سے احتجاج اور
21 ستمبر کو " یومِ احتجاج " کے ذریعے قوم کے مطالبات پر عملدرآمد اور جذبہ
ایمانی کے استحکام کا ثبوت دیا ہے اسلئے تحفظ حرمت رسول کی خاطر آج کے دن
پوری قوم کو یکجا و منظم ہوکر اپنے اتحاد اور رسول خدا ﷺ محبت کا ثبوت دینا
ہوگا اور مذکورہ توہین آمیز فلم کے خلاف اس سرکاری احتجاج کو کامیاب بنانے
کیلئے عالم اسلام کیخلاف کی جانے والی سازشوں کے خلاف یکجائےت کا پیغام
دینے کیلئے آج کے دن تمام سرکاری ‘ سماجی ‘ سیاسی قوتوں کو تمام اختلافات
کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس یوم احتجاج کو پر امن انداز سے کامیاب بنانا
ہوگا جبکہ حکومت کو اس موقع پر امن قائم رکھنے اور احتجاج کا مثبت پیغام
مغرب و سامراج تک پہنچانے کیلئے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بیوروکریسی کو
اپنی ہی عوام کو گولیوں ‘ لاٹھیوں ‘ واٹر کینن اور تشدد کا نشانہ بنانے کی
روایت سے روکنا ہوگا کیونکہ نوکر و افسر شاہی کی حماقت ہی ہر پر امن احتجاج
کو پرتشدد واقعات میں تبدیل کرنے کا سبب بنتی ہے جبکہ احتجاج کے موقع پر
تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ احتجاج کو ہر حال میں
پر امن رکھیں اور ان لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل نہ ہونے دیں جو تشدد کے
ذریعے اپنے سامراجی آقاؤں کے مفاد کیلئے امن عامہ کی صورتحال پیداکرکے ملک
قتل و غارتگری اور عدم استحکام کے اسباب پیدا کرتے ہیں ۔
اسب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ مسلم امہ کا اتحاد و انضمام ہی اسلام کے خلاف
سازشوں کے تدارک کا سب سے بڑا ہتھےار ہے اسلئے سیاسی تعصبات و اختلافات سے
بالاتر ہوکر اسلام و ایمان کی حفاظت کیلئے قوم کو یکجا رکھنے اور یہودی
سازشوں کے خلاف پوری قوم کا مشترکہ احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے تمام سیاسی و
مذہبی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل ایک ایسی کونسل کا قیام ناگزیر ہوچکا
ہے جو اس قسم کے واقعات اور امت مسلمہ و اسلام کے خلاف سازشوں کی صورت
متفقہ لائحہ عمل تیار کرکے مثبت سمت میں قوم کی رہنمائی کرے اور اس کی
پالیسی کے تحت حکومت اپنے لائحہ عمل کو تریب دے جبکہ بین الاقوامی سطح پر
امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے بھی شیعہ ‘ سنی ‘ بریلوی ‘ دیوبندی اور
وہابی کی تفریق سے باہر نکل کر تمام مسلم ممالک کو ایک ایسا متحدہ بلاک
تسکیل دینے کی ضرورت ہے جو اسلام و دیگر مذاہب کے درمیان برج کا کردار ادا
کرکے دنیا کے امن کے تحفظ کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے اور
اسلام، مسلم ریاستوں اور مسلم اُمہ کے مفادات کا تحفظ کرے۔ |