اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں
ارشادہے کہ ”بے شک آپ ﷺکا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا“، ہر مسلمان کا قرآن
کریم پر غیر متزلزل ایمان اور یقین ہے اور پوری دنیا کی موجودہ صورتحال کو
سامنے رکھ کر دیکھیں تو بات بالکل صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ اگر پوری دنیا
میں کسی ایک شخصیت کے اتنے زیادہ چاہنے والے اور محبت کرنے والے لوگ موجود
ہیں تو وہ شخصیت صرف اور صرف پیغمبر خدا، سرور کونین حضرت محمد ﷺ کی ہے۔
کسی بھی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ آپ ﷺ کی ذات اس
کو اپنے ماں، باپ، بیوی، بچوں، جان اور مال سے زیادہ عزیز اور محترم نہ
ہوجائے، حقیقی معنوں میں اگر کسی مسلمان کی زندگی میں سے حضور اکرم ﷺ کی
ذات کو نکال دیا جائے تو نہ تو اس کے ایمان کی کوئی حیثیت و وقعت رہتی ہے
نہ ہی اس کی زندگی کی۔
ہمارے محبوب اور پیارے نبی ﷺکے خلاف ایک فلم کی صورت میں حالیہ شرانگیزی اس
لئے کی گئی ہے کہ ہم مسلمان متحد اور یکجا نہیں ہیں، ہم حضور اکرم ﷺ کے نام
لیوا تو ہیں، ان کے نام کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور ان سے محبت کے دعوے بھی
لیکن ان کی تعلیمات پر مکمل عمل نہیں کرتے۔ اللہ اور اس کے آخری رسول کے
بہت سے فرمانوں میں سے ایک فرمان ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو، اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو
کیا ہم سب مجرم نہیں، کیا ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمودات کو بھلا
نہیں دیا اور کیا آج صرف پاکستان میں ایک ایک مسلک و مکتبہ فکر کی بیسویں
جماعتیں موجود نہیں؟ اگر صرف پاکستان میں سینکڑوں کے حساب سے مذہبی جماعتیں
موجود ہوں تو باقی دنیا میں کیا حالات ہوں گے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ ہمارے ہی کرتوت ہیں جن کی وجہ سے اس وقت یہودیوں اور دوسرے مذاہب کے
ماننے والوں کو یہ ہمت اور جرات ہوتی ہے کہ وہ ہمارے ایمان کی بنیاد پر
حملہ کررہے ہیں اور ہم جوابی طور پر کیا کرتے ہیں؟ اپنے شہروں کی ٹریفک
روکتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی املاک کو نقصان
پہنچاتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں محبت رسول ﷺ کا؟
نبی پاکﷺ کی توہین پر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور ایک آگ ہے
جو جسم و جان کو جلا رہی ہے لیکن کیا احتجاج کا یہی طریقہ ہونا چاہئے؟
قارئین کرام! میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھرپور احتجاج کرنا
چاہئے لیکن اپنی املاک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچانا چاہئے بلکہ پورے کا پورا
احتجاج اسلام آباد پہنچانا چاہئے، وہاں وہاں کہ جہاں فیصلہ ساز قوتیں موجود
ہیں، ہمیں اگر گھیراﺅ کرنا چاہئے تو پارلیمنٹ ہاﺅس کا، ایوان صدر اور ایوان
وزیر اعظم کا اور جی ایچ کیو کا، کیونکہ یہی وہ چار ادارے ہیں جہاں سے
امریکہ کی کاسہ لیسی کے فیصلے ہوتے ہیں، یہی وہ ادارے ہیں جہاں سے ہمیں
امریکی غلامی میں دھکیلا جاتا ہے، یہی وہ جگہیں ہیں جہاں ہماری قیمتوں کی
وصولی کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ہمیں بطور قوم اپنے حکمرانوں سے مطالبہ کرنا
چاہئے کہ امریکہ سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کئے جائیں، امریکی سفیر اور
دوسرے عملے کو ملک سے بے دخل کیا جائے اور پاکستان میں موجود ان کے سارے
اڈے بند کئے جائیں کیونکہ یہ ہماری ہی حکومت کے مشیر داخلہ ہیں جو امریکہ
کو خط لکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال سے دہشت گردی کی جنگ کو نقصان پہنچے گا،
دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ذاتی طور پر اس ساری صورتحال
سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بندہ پرور! آپ کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا
اندیشہ و احتمال ہے۔ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اور امریکی شہری حسین
حقانی اپنے ایک مضمون میں شرانگیز اور نبی محترم ﷺ کے خلاف توہین آمیز فلم
کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کو پاگل پن قرار دیتے ہیں، پاکستان میں موجود
این جی اوز جو غلط واقعات کی رپورٹس پر آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں وہ بالکل
خاموش ہیں اور کئی ایک تو اسے اظہار رائے کی آزادی کہتی ہیں، یہ ہیں ہمارے
ان راہنماﺅں کے اعمال جن کو ہم نے عنان حکومت تھا رکھے ہیں۔ صرف ”یوم عشق
رسولﷺ“ منانے ، کانفرنس سے خطاب کرنے اور چھٹی کردینے سے حکومت کے فرائض
پورے نہیں ہوجاتے بلکہ اس مسئلہ پر ایسا زوردار موقف اختیار کرنے کی ضرورت
ہے کہ آئندہ کسی بھی بے غیرت، پاگل اور مذہبی جنونی کو ایسا کام کرنے کی
جرات نہ ہو۔
جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ اگر حضور اکرم ﷺ کی ذات اور ان کی محبت نکال
دی جائے تو مسلمانوں کا نہ تو ایمان مکمل ہے، نہ ان کا جینا کسی کام کا اور
نہ مرنا۔ اگر ہم تسلسل کے ساتھ ہالوکوسٹ کا ذکر کرکے یہودیوں کی دکھتی رگ
پر پاﺅں رکھیں، ہٹلر کی تصاویر لےکر باہر نکلیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ
صدر زرداری جب اقوام متحدہ سے خطاب کرنے جائیں تو اس بار بینظیر بھٹو کی
تصویر کی بجائے ہٹلر کی تصویر ڈائس پر رکھیں اور ان ملکوں سے ہر سطح اور ہر
قسم کے تعلقات ختم کردیں جو ملک ایسی شرارتوں کو اظہار رائے کی آزادی قرار
دیتے ہیں اور ایسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور سب سے اہم کام یہ
کریں کہ اس یہودی جس نے یہ فلم بنائی اورجن لوگوں نے جان بوجھ کر اس میں
کام کیا، ان سب کے سروں کی قیمتیں مقرر کردیں، بے شک کروڑوں میں ہوں، صرف
پاکستان کے عوام ان کے سروں کی قیمتیں دینے کو تیار ہوں گے، تو انشاءاللہ
پھر بھی ہم مریں گے نہیں اور اگر بفرض محال یہ ”بے غیرتی میں ترقی یافتہ
ممالک“ ہم پر حملہ آور بھی ہوجائیں، ہمیں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا
پڑیں، تو رب کعبہ کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری اور سب انسانوں کی جان ہے،
ہماری وہ موتیں ہماری موجودہ زندگیوں سے بہت اچھی ہوں گی، کم از کم اللہ
اور اس کے رسول ﷺ کے پاس کوئی عمل تو لے کر جائیں گے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ
”بے شک آپ ﷺکا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا“۔ یہ سچ ہے اور ہمیشہ سچ رہے گا،
ہمارے ذمہ بس یہ کام ہے کہ اللہ کا نام لے کر، آپس میں متحد ہوکر، مسلکی،
گروہی، فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کرکے ، صرف عشق رسول اور محبت رسول کا
دم نہ بھریں بلکہ عملی اقدامات کریں، انشاءاللہ فتح اللہ اور اس کے رسول کے
نام لیواﺅں کی ہوگی....! |