اسلام آباد کے خلوت نشینوں نے کل
جہانوں کی خبر گیری کرنے والے آقا ﷺ کی ناموس میں گستاخی کی خبر لی اور
تحفظِ ناموس رسالت کے دفاع میں "یوم عشق رسول ﷺ" منانے کا اعلان کر دیا۔ یہ
اقدام تو بہر حال احسن ہی تھا، الگ بات ہے کہ اس میں کچھ عقل و خرد سے پیدل
"حضراتِ مؤمنین" کے کہنے پر ناموسِ رسالت کے دن کو عشق رسول کا دن قرار دیا
گیاحالانکہ مؤمنِ صادق تو ہر لمحہ عشق رسولﷺ سے سرشار رہتا ہے اور یہ فرض
عین اور ضروریاتِ ایمان سے ہے۔
جو دم غافل سو دم کافر۔۔
مؤمن تو سانس بھی محبت رسول ﷺ ہی سے لیتا ہے اور آقائے نامدار ﷺ کی ذات ِ
ستودہ صفات ہر رشتہ، تعلق، ترجیح اور مفاد سے بڑھ کر ہے اور اس پر ہمیں کچھ
زیادہ کلام کی حاجت نہیں کہ یہ امر مسلمہ و مصدقہ ہے۔ عین اس وقت جب ملک کے
طول و عرض میں یہ دن منایا جا رہا تھا کچھ دو "مونہے" بھی سر نکالنے اور
اپنا کار شر نبھانے میں کامیاب ہو گئے۔ زبان پر حرمت و تکریمِ رسول کے نعرے
اور من میں مچلتی شرارتیں اور خناس۔
بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔۔۔۔
کیچڑ پہ کیچڑ یہ کہ "اسلامی" جمہوریہ پاکستان کے میڈیا کو صرف اور صرف ملک
کے چار بڑے شہر ہی نظر آئے جہاں تشدد ہوا، سوا سو زائد شہروں کے ہزاروں وہ
مظاہرے جس میں درود و سلام اور عزت و توقیر کا بیان ہوا وہ ان سب کی نظروں
سے اوجھل رہا۔ دہکتی آگ، جلتے بازار، بہتے لہو، عوام اپنے ہی محافظوں سے
دست و گریباں۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ اگر میڈیا براہ راست نا دکھاتا تو ریٹنگ کیسے
بڑھتی؟ آخر ایک نادر و نایاب موقع ضائع تو نہیں کرنا تھا نا۔۔۔۔ ویسے اب تو
یہ تماشا ہفتے عشرے میں ایک آدھ بار میسر رہتا ہی ہے۔
"سلطان الوقت" نے حجلہ گاہ کی حدود میں ہی "مقربین" کو دیدار کا شرف بخشا،
دامن پہ لگے داغ کو دھونے کی کوشش کی اور قصہ تمام۔۔۔ کاش اللہ کریم وسیع
النظری عطا کرتا اور عالم پناہ اپنی راجدھانی سے باہر نکل کر عوامی مظاہروں
کی قیادت کرتے، نا توڑ پھوڑ ہوتی نا تشدد اور اہل وطن سمیت پوری دنیا کو
احساس ہو جاتا کہ واقعی یہ "اسلامی" جمہوریہ پاکستان ہے۔ مگر۔۔۔
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ اپنوں سے بھی برابر گلہ ہے، بلکہ یہ بات گلے سے کہیں آگے
بڑھ چکی ہے۔ دو "منہ" والوں کی نشاندہی کرنا بھی تو ہمارا فرض تھا، نبی
ہمارا، ملک ہمارا، دن ہمارا، تقدیس و تعظیم ہماری تو پھر یہ شریر کہاں سے
گھس آئے؟ یہ کہاں کی عقل مندی کہ ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کی حرمت نشانہ بنی،
ملعون زندہ ہے، اس کے آقا اور پشت پناہی کرنے والے بھی زندہ ہیں مگر ہم نے
اپنوں ہی کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ منافقت کے عمیق اندھیروں میں
بسنے والے ان ظالموں نے عشق رسول ﷺ کی آڑ میں بے گناہوں کے خون سے کھلواڑ
کیا۔ کراچی میں تو باقاعدہ "درآمدہ" لفنگوں کو پرچموں سمیت دیکھا گیا۔ جس
نبی ﷺ کے نام پر یہ دن منایا گیا اس کے ہاں تو اخلاقیات، انسانی حقوق اور
آئین و قانون کی پاسداری کا معیار بلند ترین سطح پہ تھا۔ نور نظر سیدہ زینب
رضی اللہ عنہا کے قاتل ہوں یا نجران کے عیسائی، گھر آئے یہودی ہوں یا پھر
مال غنیمت کی تقسیم اس کے ہاں تو آئین و قانون پر عملداری بحر حال مقدم
رہی۔
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
اس قوم کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ تنظیم کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
سرکاری محکموں سے لے کر نچلے طبقے کےعام آدمی تک، کوئی بھی قومی دھارے میں
نہیں ہے۔ نظم و ظبط نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ یہ تو وہ قوم ہے جو
بجلی کا بل جمع کروانے جائے تو لمبی قطار دیکھ کر غشی کا دورہ پڑھ جائے،
نتیجتاً واجب الادا رقم سے کچھ زائد رقم بطور رشوت ادا کر کے جلدی بل ادا
کروا لیتے ہیں۔ تعلیمی پسماندگی اور قوم کی صفوں میں یگانگت کے فقدان نے
اچھے رہنما بھی پیدا نہیں ہونے دئیے۔ خود کو مسلمان کہنے والے چار فرقوں کی
چار ہزار تنظیمیں ہیں۔ جذبہِ حب الوطنی اور غلبہ اسلام کے جذبے سے سرشار ہو
کر ایک جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ دو افراد کی اس جماعت کا پہلا اختلاف
سربراہ کے انتخاب سے ہی شروع ہو جاتا ہے، پھر اس "ست ماہی' جماعت کی کئی
"جماعتیاں" بنتی ہیں، مثلاً مرکزی۔۔۔۔ حقیقی۔۔۔۔ عوامی۔۔۔۔۔ قائد اعظم۔۔۔۔۔
حق پرست۔۔۔ فنکشنل۔۔۔۔ شہید اور نا جانے کن کن گمناموں سے منسوب کر دی جاتی
ہے۔ الغرض اس مفلوک الحال اور بار بار کی سیاسی و مذہبی "طلاقوں" سے اس
جماعت کی "تیتی پھیتی" اڑ جاتی ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں۔ صاف ظاہر ہے عہدوں
کا لالچ اور خود کو رہبر سمجھنا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں اس کا اس قدر
تجربہ کیسے؟ تو صاحبو ہم خود اس ناسور کا شکار رہے ہیں بتا اس لیئے دیا کہ
سچ لکھنے میں کسی کو کلام نہیں اور جب تک سچائی کا سامنا نہیں کریں گے تب
تک یہ مکروہ سلسلہ سم قاتل بن کر ہماری رگ و پے میں دوڑتا ہی رہے گا۔ تو
بات طویل ہوئی، عقل وخرد سے پیدل یہ رہبر کیا جانیں کے رہبری کتنا عظیم
مقام ہے، خشک ملاں اور حقیقت سے نابلد دنیا دار قوم کی قیادت تو کرنا چاہتے
ہیں مگر اصولوں سے ہٹ کر۔ اسلامی ملک میں شارعِ اسلام کے طریقے کو اپناؤ گے
تو عظمت پاؤ گے۔ ذاتیات سے بالا تر ہو کر اجتماعی مفادات کے لیئے کام کیا
جائے تو کامیابی ممکن ہے۔ مگر اس سے پہلے علی الاعلان منافقین کو اپنی صفوں
سے نکالا جائے۔ جو اتحاد ملت کے دشمن اور امن الوطن میں بگاڑ ڈالنے والے
ہیں انہیں ان کے فضلے سمیت ٹھکانے لگایا جائے، تا کہ کفر و شرک اور بدعت و
گستاخی کے نامی پر فتووں کے لوٹ سیل بند ہو۔ کافر اعظم اور کافرستان کے
نعرے لگانے والوں کا تخم آج بھی موجود ہے۔ انہیں بے نقاب کیا جائے۔ غیروں
کی نمائندگی کرنے والوں کو ان کے آقاؤں کے سپرد کر دیا جائے۔ ایک وسیع
المیعاد حکمت عملی ناگزیر ہے۔ حدود اور قانون سے تجاوز اللہ کو روا نہیں۔
مبذرین و مفسدین کے لئیے دردناک وعدیں آئی ہیں۔ دینِ متین سے حقیقی لگاؤ
اور اس پر عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے۔ اس بگڑی ہوئی اور بے راہ روی کی شکار
قوم کو سدھارنے کے لئیے خاص وعام کا فرق کئیے بغیر آئین و قانون پر عمل
ازحد ضروری ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ شطر بے مہار کسی بڑے قومی نقصان
کا سبب بھی بن جائے گا۔
ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے
ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حديث سوز و ساز زندگی کہہ دے |