یہ حقیقت ہے کہ آپ یورپ اور
امریکا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیخلاف کچھ کہیں گے تو قانون آپ کو پکڑ
لے گا جبکہ یہودیوں کے سامنے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام یا پھر حضرت عزیر
علیہ السلام کیخلاف کوئی بات نہیں کر سکتے کیونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو خدا کا درجہ دیتے ہیں جبکہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
پیروکار ہیں اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ اسی طرح
مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور
حضرت عزیر علیہ السلام تینوں اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں۔ جس طرح مسلمانوں اور
عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہایت مقدس ہستی ہیں اسی طرح
مسلمانوں اور یہودیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ
السلام کو بھی یہی مقام حاصل ہے۔ صرف عیسائی اور یہودی ہی نہیں بلکہ
مسلمانوں کے سامنے بھی کوئی ان مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جرات نہیں
کر سکتا۔ جب مسلمان اہلِ کتاب کی مقدس ہستیوں کی توہین برداشت نہیں کر سکتے
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہیں۔
نائن الیون کی گیارہویں برسی کے دن امریکا میں ”مسلمانوں کی معصومیت“ کے
عنوان سے ایک گستاخانہ فلم دکھائی گئی۔ اس فلم میں جہاں پیغمبر اسلام کو
انتہائی نازیبا حالت میں پیش کیا گیا وہیں مذہب اسلام کو بھی ایک کینسر سے
تشبیہ دی گئی جبکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ فلم یہود و نصاریٰ کی مشترکہ
کوششوں سے تیار ہوئی۔ شاید اسی وجہ سے قرآن کریم نے بہت پہلے ہی مسلمانوں
کو متنبہ کر دیا تھا کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں بلکہ کھلے دشمن ہیں۔
اس فلم کا پروڈیوسر ایک اسرائیلی نژاد یہودی ہے جبکہ گستاخ رسول امریکی
پادری ٹیری جونز کی اسے مکمل پشت پناہی حاصل رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی
تیاری پر پانچ ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے اور یہ ساری رقم امریکا کے ایک سو
یہودیوں سے جمع کی گئی۔ پچھلے سال جس عرصے میں یہ فلم تیاری کے مراحل میں
تھی اس دوران تنگ نظر اور متعصب مذہبی جنونی ٹیری جونز قرآن کریم کے نسخے
نذر آتش کرنے کی ناپاک جسارت بھی کر چکا ہے۔ بظاہر امریکا اس فلم سے اپنی
لاتعلقی ظاہر کر چکا ہے مگر اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اصل کرداروں کی
پشت پناہی سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکی حکومت اور اس کی
ظاہری اور باطنی پالیسیاں موجب لعنت ہیں۔
یہ گستاخانہ فلم امریکا میں بنی اور اس کے پیچھے یہودی ذہن کارفرما ہے۔حیرت
تو بالکل نہیں ہونی چاہئے اس بات پر کیونکہ صیہونیوں کا سب سے بڑا سیاسی
مرکز تو امریکا ہے جبکہ اسرائیل تو مذہبی حوالوں سے ان کا مرکز ہے۔ بین
الاقوامی سازشوں اور ان پر عملدرآمد کیلئے تو یہودی امریکا کو ہی استعمال
کرتے ہیں۔ اندریں حالات، صیہونیت کے خلاف احتجاج اور غم و غصے کے اظہار
کیلئے لوگ امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر حملے کریں تو کوئی اچھنبے
کی بات نہیں۔ ویسے بھی اسرائیل کے اِکا دُکا اسلامی ممالک سے ہی سفارتی
تعلقات ہیں۔ یہودیوں کی مقبولِ عام کتاب ”پروٹوکولز“ میں وسیع تر اسرائیل
کا جو منصوبہ شامل ہے وہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی انتہائی چالاکی سے
اسلام کا راستہ روکنے کیلئے عیسائی مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال
کر رہے ہیں۔ آج دنیا کو جس غربت، بے روزگاری، نفسا نفسی، مادہ پرستی، بے
سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی کا سامنا ہے اسکے ظاہری اسباب تو امریکا
کیخلاف جاتے ہیں مگر پسِ پردہ ہاتھ یہودیوں کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہودی یہ
سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ خود تعداد میں انتہائی قلیل ہیں اس لئے براہ راست
مسلمانوں یا عیسائیوں سے ٹکر نہیں لے سکتے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان دونوں
مذاہب کو آپس میں لڑا کر نہ صرف خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں بلکہ گریٹر
اسرائیل کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہیں۔
پنجہ یہود میں پھنسے امریکیوں کی سوچ اس قدر سطحی ہے کہ وہ دل آزار فلم کو
اشتعال انگیز کہتے ہیں جبکہ اس کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا ہے اسے شیطانی
فعل قرار دے رہے ہیں۔ یہ شیطانی فعل تو خود امریکی باشندوں نے انجام دیا ہے
اور پھر اس کے ردعمل میں اشتعال پھیلا۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا جھوٹا
پرچار کرنے والوں کے اپنے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ آپ امریکا اور یورپ میں
نہ ہی یہود و نصاریٰ کی مقدس ہستیوں کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں اور نہ
ہی یہودیوں کے قاتل ہٹلر کو عظیم شخصیت قرار دیکر کاسٹ کے خلاف بات کر سکتے
ہیں۔ یورپ اور امریکا تو دور کی بات ابھی کوئی ہفتہ ڈیڑھ پہلے کی بات ہے کہ
ہندوستان کے مغربی شہر احمد آباد میں ہٹلر کے نام سے قائم ایک اسٹور کے
خلاف صیہونیوں نے شدید احتجاج کیا اور بالآخر مالک کو اپنے سٹور کا نام
تبدیل کرنا پڑا۔ آج باقاعدہ یہودی اس بات پر ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں کہ
مسلمانوں میں جذبہ جہاد کیسے پیدا ہوتا ہے اور ان کو ختم کیسے کیا جا سکتا
ہے۔ ان کی اپنی ہی ریسرچ کے مطابق مسلمانوں کے دل سے اسکے نبی کی محبت ختم
کر دو تو بس مسلمان بھی ختم ہو جائیں گے لیکن تمام تر پروپیگنڈوں کے باوجود
بھی اسلام اس وقت یورپ اور امریکا سمیت پوری دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا
مذہب بن چکا ہے۔
اگر امریکا کے نزدیک ہر انسان کو اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے تو
پھر خود امریکا نے ہی 1993ءمیں اپنے صدر کا کارٹون بنانے والی عراقی خاتون
کو اسکے گھر والوں سمیت موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا تھا۔ لیلیٰ العطار نامی
عراقی خاتون نے بغداد کے ایک ہوٹل کے سامنے جارج بش اول کا کارٹون بنایا
اور ہوٹل میں آنے والا ہر فرد اس کارٹون پر پاﺅں رکھ کر گزرتا تھا مگر
امریکا سے اپنے صدر کی توہین برداشت نہ ہوئی اور کارٹون بنانے کی پاداش میں
اس عراقی خاتون کو خاندان سمیت میزائلوں سے نشانہ بنا کر نہ صرف شہید کر
دیا گیا بلکہ گھر کو بھی کھنڈر بنا دیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ جارج ڈبلیو بش
پر جوتا پھینکنے والے عراقی صحافی منتظر الزیدی کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اس کو
نہ صرف مارا گیا بلکہ گارجین کے مطابق رہائی کے دن اس کا ایک دانت بھی ٹوٹا
ہوا دیکھا گیاجبکہ یہاں تو کسی معمولی آدمی کی کوئی تصویر نہیں بنائی گئی
بلکہ سرور کائنات کی توہین کرنے والوں نے ایک پوری ویڈیو فلم بنائی ہے۔نبی
کریم کی شان اقداس کا تو غیر مسلم بھی اقرار کرتے ہیںجبکہ ایک مسلمان کا
ایمان ہے کہ نبی کریم کی شان مبارک میں گستاخی سے اُن کا درجہ کبھی نہیں
گھٹتا بلکہ ان کا نام مزید پھیلتا ہے مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایسی گستاخی
کی صورت میں کوئی مسلمان خاموش بیٹھا رہے کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
کا واضح حکم ہے کہ جب کفار تمہارے نبیوں کی بے حرمتی کریں تو پھر تم اُن کے
خلاف جہاد کرو۔
بعض لوگ اس گستاخانہ فلم کو متنازعہ کہہ رہے ہیں۔ متنازعہ وہ مسئلہ ہوتا ہے
جو دو فریقوں کے درمیان قابل بحث ہو جبکہ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے
اور اس پر کسی بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ انتہائی حساس موضوع پر بنائی
گئی فلم کے مرکزی کرداروں کو جس طرح منظر سے غائب کیا گیا اس سے واشنگٹن کی
بدنیتی اور شرمناک کردار کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آنے لگے ہیں۔ ہر جرم
کے دو عناصر ہوتے ہیں، ایک مجرمانہ ذہنیت اور دوسرا مجرمانہ اقدام، امریکی
قوانین کے تحت مجرمانہ اقدام، مجرمانہ ذہن کے ساتھ کسی شک و شبہ کے بغیر
ثابت ہو جائے تو یہ مجرمانہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔ امریکا نے اگر تحقیقات کا
حکم دیا ہے تو پھر قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں آ جانا چاہئے۔ اگر
اُسامہ بن لادن کو ڈھونڈا جا سکتا ہے تو ایک اسلام دشمن کو ڈھونڈنا امریکا
کیلئے مشکل نہیں ہے لیکن افسوس کہ امریکا ایسے عناصر کی پشت پناہی کر رہا
ہے۔ بہت سے دانشوروں کی طرح میری ناقص رائے بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو
پُرامن احتجاج ضرور کرنا چاہئے مگر کسی بھی ملک کے سفارتی عملے پر حملہ
کرنا ایک غلط فعل ہے کیونکہ ایک سفیر اور دیگر سفارتی عملہ کو بین الاقوامی
امیونٹی حاصل ہوتی ہے لیکن افسوس کہ یہی بین الاقوامی امیونٹی مُلا
عبدالسلام ضعیف کو بھی حاصل تھی جو طالبان دورِ حکومت میں پاکستان میں
افغان سفیر تھے۔ امریکا نے مُلا عبدالسلام ضعیف سے جو سلوک روا رکھا اس
بارے میں سوچتے ہوئے بھی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ امریکیوں کے مظالم کی
فہرست بہت طویل ہے اور دنیا کا کم و بیش ہر معاشرہ ان کی خوں آشامی کا شکار
ہو چکا ہے۔ چونکہ امریکی تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتے اس لئے ان کیخلاف غم
و غصہ پایا جانا فطری امر ہے۔ |