یہ واقعہ میرے ایک صحافی دوست کو
محسن ِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سنایا تھا۔ یہ 1998کی بات ہے، خدا
کی نصرت، قوم کی دعاںاوراپنے مخلص رفقا ءکی ان تھک محنت اورشب و روز کی
قربانیوں کی بدولت ڈاکٹر صاحب چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کاکامیاب تجربہ
کرچکے تھے، یوں پوری پاکستانی قوم ڈاکٹر صاحب کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھ
رہی تھی، ایٹمی دھماکہ کے تجربہ کے بعد محسنِ پاکستان اپنے ایک رفیق (غالبا
ڈاکٹر اشفاق....نام بھول رہا ہوں) کے ہمراہ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کوئٹہ
پہنچے،ان کے استقبال کے لیے پورا بلوچستان امڈ آیا تھا،ڈاکٹر صاحب جیسے ہی
ہیلی پیڈ پر اترے، بلوچ سرداروں نے آگے بڑھتے ہوئے ان کو گلے لگا کر بھینچ
لیا، ایک سردار نے اپنی بھاری بھرکم پگڑی اتار کر محسن ِ پاکستان کے پیروں
پر رکھ دی اور کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب!بلوچ قوم کی عزت،فخر اورمان آپ پر
قربان....آپ نے ہمیں تحفظ دیا،ہم اس کا قرض کبھی نہیں چکاسکیں گے،آپ ہمارے
محسن ہیں۔
میں اس واقعہ سے بے حد متاثر ہوا،میں ہمیشہ سمجھتا تھا کہ احسان ماننا عام
لوگوں کافریضہ ہوتا ہے، کہاں وڈیرے، سردار اور حکمران اس احساس کو جانیں،
لیکن بلوچ سردار نے اپنی روایت کے مطابق اس کے الٹ کردکھایا، میں یہ واقعہ
سن کر بلوچ قوم کی حب الوطنی پر بڑاحیران ہوا،قبائلی روایات ،اقداراور رسوم
سے واقف ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ انہیں اپنے اقدار و رواج سے کتنی
محبت،کتنا مان اوراس کا کتنا خیال ہوتا ہے اور پھر پگڑی تو ویسے بھی قابلِ
تکریم ہے،خاص طور پر قبائل کے ہاں یہ رواج ہے کہ اس قبیلہ کا سردار اپنے
کسی محسن کا احسان مانتے ہوئے اپنی پگڑی اس کے پیروں پر رکھ دیتے ہیں،یہ
واقعہ بلوچوں کی پاکستان سے محبت کی دلیل اورحب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔
اسی طرح آپ کو یاد ہوگا،قیام ِ پاکستان سے قبل جب قائداعظم اور ان کی بہن
بلوچستان کا دورہ کرنے نکلے تو سب سے پہلے وہاں کے سردار میر احمد یار نے
ان دونوں بھائی بہن کا وزن کرکے اسکے برابر سونا مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع
کرایاتھا،اس کے بعد جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے دنیا کے نقشہ میں اسلام
کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کے ساتھ الحاق کرکے اپنی اسلام پسندی
اور برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ بے پناہ محبت کا ثبوت دیا، اس کے علاوہ بھی
بے شمار واقعات ایسے ہیں،جن سے آپ بلوچ قوم کی حب الوطنی کااندازہ لگاسکتے
ہیں،اس میں دورائے ہرگز نہیں کہ بلوچ اپنی روایات کے پاسدار ہونے کے ساتھ
ساتھ اپنے وطن کے بھی محافظ ہیں،ہماری تاریخ میں بلوچوں کے شاندار کردار کے
ان مِٹ نقوش آج بھی بالکل واضح ہیں۔
لیکن آج ہمارے نااہل حکمرانوں کی حماقتوں کی وجہ سے بلوچستان محرومی،نفرت
اور علیحدگی کی آگ میں جل رہا ہے،وہاں مسخ شدہ کٹی پٹی لاشیں معمول بن گئی
ہیں،وہاںٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کے کاروبارکی کراچی سے بھی زیادہ
مانگ ہے،یہ رقبہ کے لحاظ پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ ہے،یہاںمعدنی
ذخائر،قدرتی وسائل اور گیس کا منبع موجود ہے،یہ پاکستان بھر کو اپنے وسائل
سے فیض یاب کررہا ہے،لیکن بدقسمتی دیکھیے!یہ خود ان سہولیات اور وسائل سے
محروم اورتہی دامن ہے،بلوچستان کے عوام کے وسائل کا ہمیشہ بدترین استحصال
کیا گیا،ان کے ذہنی تحفظات اور شکوہ شکایات کو ہر حکمران نے اپنے کند ذہن
دماغ سے سوچنے کے بجائے ایڑی تلے مسلنے کی کوشش کی،وہاں حکومت آج تک تعلیمی
نظام کا جال صحیح طور پرنہیں بچھا سکی،جہاں معاشی و معاشرتی ڈھانچہ نہیں بن
سکا،اسی وجہ سے وہ ہر میدان ،ہرشعبہ اور ہر فیلڈ میں پیچھے رہ گئے،ان کو ہر
طریقہ سے زچ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے ذریعے ضعیف اور بوڑھے والدین کے اکلوتے سہارے چھین
لیے گئے،مانتے ہیں کہ چندبلوچ سرداروں نے سادہ لوح عوام کو یرغمال
بناکرگمراہ کیا ہوا ہے،لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ نے ہمیشہ ان کو گالی
کا جواب گولی سے دیا ہے،آپ ہی نے ملٹری آپریشنز کے ذریعے ہنستے بستے
گھرانوں کو شمشان گھاٹ میں تبدیل کردیا، ان کے ساتھ تیسری دنیا کی مخلوق کا
سا سلوک روا رکھا، ایسے حالات میں وہ ترقی کیا کرتے؟جب ان کے ساتھ ایسا
سلوک ہورہا تو مرتے کیا نہ کرتے،اوپر سے ایسے حالات میں آپ ایران،افغانستان
اور بھارت کو کنٹرول نہیں کرسکے،ان کو اپنے حقوق تک ملنے مشکل ہوگئے،جب
انہوں نے اپنے حقوق کی تحریک چلائی تو وہ غدار ٹھہرے ،کچھ کو پس ِزنداں ڈال
دیا، بعض کو موت کے گھاٹ اتار دیاجبکہ بے شمار افراد آج بھی لاپتہ ہیں.....جوبچ
رہے، وہ آج اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کررہے ہیں،وہ ہم سے علیحدگی،نجات
اور آزادی چاہتے ہیں۔
کہانی یہاں پہ آکے رکی نہیں، یہ تین نسلوں کا نوحہ ہے، سب سے پہلے ایوب خان
نے ان بلوچوں سے پنگا لے کر انہیں اپنے فوجی بوٹوں سے روندنے کی کوشش
کی،پھرعوامی لیڈر بھٹو نے بھی اپنے حسنِ کرشمہ ساز کا مظاہرہ کیااور آخر
میں بزدل اور بدنامِ زمانہ آمر مشرف نے جو تماشہ گری کی ،اس کا خمیازہ آج
پوری قوم بھگت رہی ہے،وہاں پاکستان کے پرچم اور قومی ترانہ پر پابندی عائد
ہے اور آزاد گریٹر بلوچستان کا نعرہ لگ چکا ہے،آج جب ایک امریکی رکن ِکانگریس
نے یہاں ہونے والی زیادتی کے خلاف بل پیش کرکے ہمیں جھنجھوڑا ،تب بھی ہم ان
کے درد کا درماں کرنے ،زخموں پہ مرہم رکھنے اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کی
ضرورت محسوس نہیں کررہے،اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ ایک طرف بلوچستان
کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے،ملک کی سالمیت ایک کچے دھاگے سے
لٹک رہی ہے،اربابِ فکر و دانش تفکرات میں غلطاں ہیں اور ہم نے تاحال کوئی
عملی اقدام نہیں کیا،سوائے اے پی سی بلانے کے دعوی کہ ہم اور کچھ نہیں
کرسکے،بلوچستان کامسئلہ کیا ہے؟یہ ہم نے کبھی سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی؟
ہم نے یہ تک سوچنے کی سعی نہیں کی کہ وہ قوم جو ہمارے ساتھ جینا ،مرنا اور
رہنا چاہتی تھی،آج ہم ان کے لیے شجرِممنوعہ کیوں بن گئے ہیں، بدقسمتی سے
ہماری اسٹبلشمنٹ جس طرح سے بلوچوں کو ہینڈل کرنا چاہتی ہے،اس طرح ہم تو مٹ
سکتے ہیں،بلوچ کبھی ٹس سے مس نہیں ہونگے،اسی طرح ہماری اسٹبلشمنٹ کی یہ سوچ
کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ،وہ ہمارا دشمن ہے،یہ خام خیالی پوری قوم کو لے ڈوبے
گی، بلوچ کی رگ رگ میں اپنا قبائلی زعم موجزن ہوتا ہے،وہ دوست کی دوستی کی
خاطر اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہادیتے ہیں،بلوچ نے ہمارے لیے کیانہیں
کیا؟ہم نے انہیں بدلے میں کیا دیا؟لیکن آپ جب ان سے دشمنی پہ اتر آتے
ہیں،تو دنیا کی کوئی طاقت نہیںجو بلوچ کو سرینڈر کراسکے ،سوچیے ذرا!پھرآپ
اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں،جس پر وہ یہ سوچے کہ مرنا تو ہے
ہی،کیوں نہ مار کر مریں،اس سے اگلی نسل کو کچھ فائدہ ہوجائے گا،یہی فارمولا
آج ناراض بلوچ کے سر پر جنون کی طرح سوار ہے۔
یہ بات بھی ہرگزنہیں کہ بلوچستان کے پورے52فیصد بلوچ عوام آزادی چاہتے
ہیں،بلکہ بلوچ کی رگ رگ میں آج بھی پاکستان کے نام کا خون دوڑ رہا ہے،وہ
پاکستان کے ساتھ جینا چاہتا ہے،یہ تو ہم اسے خود مجبور کررہے ہیں کہ وہ ہم
سے الگ ہو،ہم اپنا رستہ خود کھورہے ہیں،آج ہم بلوچوں کے ساتھ ویسا ہی کررہے
ہیں ،جیساہم نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ساتھ کیا تھا،جس کی وجہ سے آج
ہم میں اور ان میں خلیج بنگال کا پاٹ حائل ہوگیاہے ،اگرچہ مشرقی پاکستان
اور بلوچستان میں جغرافیائی،سیاسی اور معاشرتی تفاوت ہے،وہاں کے زمینی
حقائق اور تھے اور یہاں کے اور ہیں،لیکن انہوں نے اپنے چھ نکات پر زور دیا
تھا ، ان میں بھی ہم نے ان کے جوجائز مطالبات تھے ، ان کو بھی یکسر ماننے
سے انکارکردیا تھا،آج اگر ناراض بلوچ کی طر ف سے آٹھ نکات پیش ہوتے ہیں تو
ان میں دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز کا مطالبہ کررہے ہیں،آپ خود دیکھ
لیں!انہوں نے اپنے آٹھ نکات میں کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کیا، انہوں نے وہی
کہا ہے جو پورے پاکستان کے عوام برسوں سے چاہتے ہیں، پرویز مشرف کا ٹرائل
کو پوری قوم ترس رہی ہے،لاپتہ افرادکی بازیابی اورسیاسی اسیروں کی رہائی
کون نہیں چاہتا؟
ان پر الزام ہے کہ وہ ملک کی سالمیت کے خلاف ملوث تھے، تو بھئی!یہ
آزادعدالتیں کاہے کو ہیں،آپ عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے خود کیوں منصف
بنے بیٹھے ہیں؟ آ پ خود ٹھکائی کرنے لگ جائیں گے تو کیا یہ قوم آپ کو
پھولوں کے ہار پہنائے گی؟خفیہ ایجنسی کا کرداراور ملٹری آپریشن کی وجہ سے
بلوچستان سمیت سوات سے وزیرستان تک ہر فرد کا دل کرچی کرچی ہے،ایک اور اہم
مسئلہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے،جو روزِ اول سے پاکستان کا ایک بڑا
مسئلہ رہا اور ہے،اب بھی اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو نہ جانے اس
زیادتی کی کوکھ سے اور کتنی علیحدگی کی تحریکیں جنم لیں گی؟ جب کسی کے ساتھ
اتنا ظلم ہوگا تو پھر تو وہ اس سے نجات کے لیے شیطان سے بھی مدد لینے کوتیا
ر ہوگا،اب یہی بلوچستان میں ہورہا ہے۔
ذہنی تحفطات ،سیاسی شکایات،وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ،ملٹری
آپریشنز،بیرونی مداخلت ،ناانصافی ،یہی وہ عوامل ہیں جو ہم میں اور بلوچوں
میں فاصلے پیدا کررہے ہیں،آج ہم میں اور ان میں اتنی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی
ہیں کہ وہ اب ہمیں مزید برداشت کرنا ہی نہیں چاہتے،ایک ہی مملکت کے باسی
ہونے کے باوجود ہم میں اور ان میں اجنبیت سی حائل ہورہی ہے ،ہم میں دوریاں
بڑھتی جارہی ہیں،ہم ان کے لیے سوہانِ روح بنتے جارہے ہیں۔
رحم سرکار رحم!!اور کتنا ظلم ڈھائیں گے؟وہ ظلم سہتے سہتے عاجزآ گئے،پر آپ
ستم کے پہاڑ توڑتے توڑتے نہیں تھکے ،حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ قوم
مستقبل کے انجانے خوفناک اندیشوںمحو انگشتِ بدنداں ہے،اب بھی آپ اس آگ کو
پٹرول سے بجھانے کی کوشش کررہے ہیں، ہم سقوطِ ڈھاکہ کو آج بھی رورہے ہیں،وہ
بھی ہماری ہی غلطی تھی،اس سے پہلے کہ کچھ ہوجائے،کچھ ہونے سے پہلے کچھ
کریں،کہیں دیر نہ ہوجائے ورنہ چندلمحوں کی سزا کئی صدیوںکو بھگتنی پڑے گی
اور ہم صدیوں کا رونا روتے رہیں |