21 ستمبر کو ہونیوالے واقعات میں
جہاں اور بہت سارے معصوم لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ان میں ہمارے
ایک ساتھی محمد عامر زیب بھی پولیس کی مبینہ فائرنگ کا نشانہ بن کرجاں بحق
ہوگئے-اللہ تعالی ان کو اور ان جیسے کئی افراد جو فائرنگ کے نتیجے میں جاں
بحق ہوگئے تھے جوار رحمت میں جگہ دے -واقعہ تو گزر گیا ہے اب اس دن کے
واقعات پر سیاست شروع ہوگئی ہے اور "کرسی اور لینڈ کروزور" میں عوام کی
خدمت کرنے والے حکمران اسے اب اپنی سیاست کیلئے استعمال کررہے ہیں -ریڈ زون
میں بیلٹ والی سرکار کے ساتھ اندر چھپے حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ
انہیں دوسروں کے دکھ کا احساس ہی نہیں کیونکہ ان کے اپنے بچے یا تو مغربی
ممالک میں زیر تعلیم ہیں یا پھر ان کیساتھ قلعوں میں بیٹھ کر زندگی کے مزے
لوٹ رہے ہیں - اس دن کے احتجاج پر "سیاسی میدان "چمکانے والے حیران ہیں کہ
کیسے پشاور جیسے شہر میں لوگ نکل آئے اور بغیر کسی تعصب کسی مذہبی تفریق کے
ایک ساتھ چلے اور احتجاج کیا -اور پھر یہ لوگ کیسے تشدد کی طرف آئے اور لوٹ
مار کی-ابھی تک اس کی تحقیقات کیلئے کوئی کمیٹی قائم نہیں کی گئی نہ ہی
سرکاری طور پر اور نہ ہی پرائیویٹ طور پر اس سلسلے میں کوئی اقدام اٹھایا
گیا- کسی نے جی ٹی روڈ پر واقع ایک سینما کے چوکیدار کی طرف سے کی جانیوالی
فائرنگ کا نوٹس ہی نہیں لیا جس کی وجہ سے تین افراد زخمی ہوگئے اس واقعے کے
بعد مظاہرین جو صوبائی اسمبلی کی طرف جارہے تھے پر تشدد ہوگئے اور انہوں نے
سینما گھر کو آگ لگا دیاور یہی سے تشدد کا آغاز ہوا جس کے بعد پولیس بھی
ایک مخصوص سینما جو "گرما گرم" فلموں کے حوالے سے بہت مشہور ہے اور اس میں
سیاسی میدان میں"کمی کمینوں"کی خدمت کے دعوے کرنے والے ایک بڑے خاندان کے
شیئرز ہیں کو بچانے کیلئے پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ شروع کردی
جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے جن میں ایک نجی ٹی وی چینل کا ڈرائیور بھی
شامل تھا جو بعد میں ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا -کوریج
کیلئے آنیوالے صحافیوں نے مظاہرین پر پولیس کی براہ راست فائرنگ کی فلم بھی
بنائی ہے اور مجھ سمیت کئی صحافیوں نے براہ راست فائرنگ کا عمل بھی دیکھا -
ایک لاکھ روپے میں بھرتی ہونیوالے پولیس کانسٹیبل کس بے حسی سے عوام پر
فائرنگ کررہے تھے کیا ان سے کوئی پوچھنے والا ہے -لالٹین کے دور میں بھیجنے
والی "سرکار" یا انصاف کی فراہمی کویقینی بنانے والے "عدلیہ" غریب عوام کی
خاطر یہ پوچھ سکتی ہے کہ کن لوگوں نے مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا اور
اگر حکم جاری ہوا تو پھر براہ راست فائرنگ کا حکم کس نے دیا -اور تو اور
مظاہرین کے سروں میں فائرنگ کے احکامات کس نے سیکورٹی فورسز کو دئیے
ہیں-کیا یہ لوگ دہشت گرد تھے -لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لائے جانیوالے لوگ میں
نے خود دیکھے جنہیں براہ راست گولی سر میں ماری گئی تھی - مجھے اس بات سے
اتفاق ہے کہ حالات جمعہ کے نماز کے بعد خراب تر ہوگئے تھے لیکن کیا ان کو
کنٹرول کرنے کیلئے فائرنگ ہی واحد راستہ تھا اور اگر فائرنگ ہی واحد راستہ
تھا تو لوگوں کے سروں میں یا سینوں پر فائرنگ کرکے انہیں قتل کرنے کے
احکامات کس نے دئیے-انہی عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے "پولیس "
کیا اس مقصد کیلئے بھرتی کی جاتی ہیں کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو فائرنگ کرکے
قتل کرے گی- چیمبر آف کامرس کے توڑ پھوڑ کے دوران میں نے پشاور کے ایک
مخصوص خاندان سے نفرت کا اندازہ بلڈنگ پر پھینکنے والے پتھروں سے لگایا
جہاں وہ گالیاں دے رہے تھے یہی صورتحال پولیس کو دیکھ کر مظاہرین کی تھی -جو
چیمبر آف کامرس میں محصور ڈی ایس پی `ایس ایچ او کے سامنے پیپسی پی کر
پولیس کو گالیاں دے رہے تھے - ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو کس نے حکم دیا
تھا کہ مظاہرے کے دوران گرفتاریاں کرلو تاکہ لوگ اور مشتعل ہو -لیکن محرر
سے اے ایس آئی اور پھر ایس ایچ او `ڈی ایس پی تک ترقی پانے والے " خان"
کہلانے والوں میں عقل کی کمی ہوتی ہے اور یہ ہر چیز کو ڈنڈے کے زور پر ٹھیک
کرنا ہی جانتے ہیں-ان لوگوں میں اتنی عقل نہیں ہوتی کہ کس طرح مجمع کو
کنٹرول کرنا ہے کس سے کیا بات کرنی ہے چونکہ شہر میں تھانوں کے اندر "خان"کہلانے
والوں کو "اوپن ہینڈ"دیدیا گیا تھا اس لئے انہوں نے بھی اپنے اس طاقت کو
خوب استعمال کیا-
اکیس اکتوبر کی شام جب پولیس کی فائرنگ سے ایک بوڑھا شخص شدید زخمی حالت
میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا تھا سی سی پی او پشاور امتیاز الطاف اور
طاہر ایوب اپنے ڈی ایس پی کو دیکھنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری میں ہسپتال
پہنچے تو اس بوڑھے کے بیٹے نے ان افسران کو دیکھ کر شکایت کردی کہ پولیس نے
گھر کے سامنے بیٹھے اس کے والد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جس پر بجائے اسے
تسلی دینے یا کوئی بات کرنے کے بیلٹ کی بدمعاشی کرنے والے افسران نے
کانسٹیبل کو ہدایت کردی کہ اس کو پانی پلا دو اور کانسٹیبل اس شخص کے بیٹے
کو جو شکایت کررہا تھا تھانہ خان رازق شہید میں گرفتار کرکے لے گئے-یہ کہاں
کا انصاف ہے کہ ایک شخص کا والد ڈیپارٹمنٹ کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور پھر
اسکے بیٹے کوبجائے تسلی و تشفی دینے کے اسے گرفتار کیا جائے-اپنے آپ کو ہر
چیز سے بری الذمہ قرار دینے والے پولیس افسران سب کچھ شرپسندوں کے کھاتے
میں ڈال رہے ہیں کیونکہ اب تو جن لوگوں کے پیارے مرے ہیں کیا وہ اپنے"
پیاروں"کا " خون" معاف کرینگے اگر قانون نے انہیں انصاف فراہم نہیں کیا تو
پھر یہ لوگ بھی اسی " پختون"معاشرے کا حصہ ہیںکیا کوئی شخص اس معاشرے میں
اپنا "خون"معاف کرتا ہے-
پولیس اہلکار اور افسران کس طرح اپنے آپ کو " صاف "کرتے ہیں اس کا اندازہ
کرنے کیلئے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں- ہمارے پرانے محلے میں ایک صاحب
جن کی ہاتھوں کی انگلیوں میں فرق ہے اور معذور بھی ہے نے ساٹھ ہزار رپے
دیکر کانسٹیبل کی نوکری حاصل کی بعد ازاں اپنا تبادلہ ٹریفک کروا دیا اور
شہر کے مخصوص چوک میں روزانہ کھڑے ہو کر دس سے پچاس روپے لیا کرتا تھا بعد
میں یہی روپے میرے ایک دکاندار دوست کے پاس شام کو دیکر اس سے سو سو روپے
کے نوٹ لیتا -اسی رقم سے ان صاحب نے شادی کرلی پھر بعد میں ترقی ہوگئی اور
آج کل " لمبی داڑھی رکھ "کر لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ دو دن کی زندگی ہے "
حلال رزق کما لیا کرو" کچھ عرصہ قبل میری اس سے ملاقات ہوئی تھی اس نے میرے
فرنچ داڑھے کو دیکھ کر مجھ پر طنز کیا اور اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ رکھ کر
کہا کہ "اوئے شرم کرو یہ کیا کررہے ہو"میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا لیکن
میں نے جوابا کہا کہ " بلی سو چوہے کھا کر حج کو چلی ہے" تو موصوف کا رنگ
اڑ گیا اور پھر اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا کہ یہ "اخبار والے" منہ میں آگ
لئے پھرتے ہیں اور پھر چلا گیا اس وقت میں کچہری میں تھا اور لوگوں نے مجھے
کہا کہ تم نے اتنے " لمبی داڑھی والی"کو غلط بات کی تو میں نے جواب دیا کہ
اس کو میں جانتا ہوں کہ پہلے'کتنا پاجی"تھا اور اب کتنا" پاکیزہ"ہوگیا ہے
خیر میرے دوستوں نے جو اس وقت میرے ساتھ تھے نے مجھ پر لعن طعن کی اور وہ "رشوت"دیکر
بھرتی ہونے والا "پاکیزہ"ہوگیا- اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
پولیس والے کتنے جلدی رنگ بدلتے ہیں اورکتنا جلدی اپنے آپ کو لوگوں کے
نظروں میں پاکیزہ بناڈالتے ہیں- |