FIR فرشتے کی

میراسوال سن کروالد صاحب چونک پڑے اور ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے، میرے گال پر ایک چپت لگائی اور سوچ میں غرق ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میرے اندر کا بیٹا دہل گیا اور میں نے ان کے پاؤں پر سر رکھ دیا اور کہا کہ میں آپ کی عظمت کا گرویدہ ہوں مگر مجھے بے حد شوق ہے کہ آپ کے حالات جان سکوں۔ اگر کبھی زندگی نے مہلت دی تو اسے کتابی شکل میں ضرور شائع کروں گا۔ فرمانے لگے کہ بیٹا جب میں نے تمھاری بڑی بہنوں کی شادیاں کی تو ۵۰۰روپے چچا ارشاد سے اُدھار لیے تھے اور اپنی ایک دو نالی بندوق فروخت کی تھی اور ایک گھوڑی جو کہ مجھے بہت پیاری تھی، فروخت کی تھی اور کپڑا تمھارے پھوپھا حاجی فیض الرحمان صاحب سے اُدھار لیا تھا۔

کہنے کو تو اس وقت میں ایک ایس ایچ او تھا مگر میرے مالی حالات انتہائی سفید پوشی والے تھے۔ جب میری تعیناتی ۱۹۵۴ء میں صادق آباد میں ہوئی تو صادق آباد تھانہ بہاولپور ڈویژن کا سب سے اچھا تھانہ تھا۔ لوگ بڑی سفارشوں اور چاہت سے اپنی تعیناتی صادق آباد تھانہ میں کروایا کرتے ۔ ۱۹۵۴ء میں یہ تھانہ اعلیٰ حکام کو چار ہزار روپے ماہوار دیا کرتا تھا۔ جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ میری تعیناتی صادق آباد تھانے میں کر دی گئی ہے تو میں رات بھر سو نہ سکا۔ صبح سب سے پہلے میں اپنے ایس پی صاحب ملک محمد بشیر وارن صاحب کے پاس پیش ہوگیا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ چار ہزار روپے کی رقم تو میری سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے اور میں کیوں دوسروں کے لیے ظلم کا بازار گرم کرکے یہ رقم وصول کروں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے مجاز حکام سے بات کر لی ہے، آپ کو ایک پیسہ بھی نہیں دینا پڑے گا کیونکہ اس وقت اس علاقے میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور آپ کو اس علاقے میں ایک خاص مقصد اور مشن کے تحت بھیجا جا رہا ہے۔ لوٹ مار، اغوا، چوری، رسا گیری زمیندار لوگوں کو شیوا بن چکی ہے اور امیر غریب کو جینے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ۔ آپ نے صرف قانون اور حکومت کی عملداری قائم کرنی ہے جس کے لیے آپ کو پورے اختیارات حاصل ہوں گے۔ لہٰذا میں نے اپنے تبادلے کے احکامات وصول کرنے کے بعد بطور ایس ایچ او تھانہ صادق آباد کا انتظام سنبھال لیا۔

سب سے پہلے جو شخص مجھ سے ملنے آیا، وہ چوہدری برکت تھا۔ منشی تھانہ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ پولیس کا خیرخواہ ہے اور آنے والے ایس ایچ او کا تمام خرچ برداشت کرتا ہے اورتمام آسامیوں سے رقم وصول کرکے تھانے میں پہنچا دیتا ہے۔ میں نے منشی سے کہا کہ میری میز کے سامنے سے کرسی اٹھا کے ایک طرف رکھ دو اور چوہدری برکت کو بھیج دو۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان آدمی نہایت اجلے اور سفید پارچات میں ملبوس اندر داخل ہوا اور نہایت بے تکلفی سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ برکت کیسے آنا ہوا تو اس نے چاپلوسی کرتے ہوئے کہا کہ حضور کی زیارت کرنے آیا ہوں ۔ اگر کوئی حکم ہو تو تعمیل ہوگی۔

میں نے اسے کہا کہ اگر میں نے تمھیں آیندہ تھانے میں دیکھا تو تمھیں حوالات میں بند کر دوں گا اور جب تک میں اس تھانے میں تعینات ہوں، تم کبھی ادھر آنے کی غلطی نہ کرنا۔ وہ جلدی سے باہر چلا گیا اور پھر واقعی میں نے اس کی شکل نہ دیکھی اور اس طرح ایک بہت بڑے چٹی دلال سے چھٹکارا مل گیا۔

دوسرا شخص جو مجھ سے ملنے آیا، وہ سرفراز سمیترا تھا۔ گرمیوں کی ایک شام تھی۔ تھانے کے صحن میں دفتر لگا ہوا تھا کہ ایک سپاہی بھاگا بھاگا آیا اور سیلوٹ کرکے کہنے لگا کہ سرفراز سمیترا صاحب تشریف لارہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ذات شریف ہے؟ محرر تھانہ کہنے لگا کہ بہت بڑا زمیندار ہے اور مخدوموں کی ناک کا بال ہے۔ میں اس وقت تھانہ کا ریکارڈ ملاحظہ کر رہا تھا کہ کتنے اشتہاری مجرم کون کون سے رجسٹرڈ کیسوں میں مطلوب ہیں اور کتنے گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کے علاوہ کون کون سے بڑے بڑے رئیس رسا گیر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اتفاق سے سرفراز سمیترا والا صفحہ میرے سامنے تھا۔ میں نے اس صفحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محرر تھانہ سے پوچھا کہ کیا یہ ہی سرفراز ہے؟ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

اتنے میں سرفراز سمیترا صاحب دو سپاہیوں کے ہمراہ کمرے میں داخل ہو کر بغیر میری اجازت کے کرسی پر بھی بیٹھ چکے تھے۔ سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ سرفراز کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا، میں جناب کے لیے کچا بستہ لے آیا ہوں۔ (کچے بستے سے مراد کھانے پکانے کا سامان ہے۔ اگر آپ کسی کو پکا ہوا امیرانہ کھانا بھجوائیں تو پکا بستہ اور اگر آپ کسی کو کھانا پکانے کے لیے سامان بھجوائیں، جیسا کہ بکرے، مرغیاں، گھی، چاول، گندم وغیرہ تو وہ کچا بستہ کہلائے گا)۔

میرے دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ باہر میری جیپ میں موجود ہے۔ میں نے اسے کہا کہ باہر جائے اور سامان اٹھواکر یہاں میرے کمرے میں لے آئے۔ وہ جی حضور کہتا ہوا خوشی خوشی باہر سامان اٹھوانے چلا گیا۔ میں نے محرر سے کہا کہ اس کے خلاف جتنے کیس اس تھانہ میں رجسٹرڈ ہیں، اس کی فہرست بنائے اور تین ہتھکڑیاں اور تین سپاہی فورًا میرے حکم کے انتظار میں رہیں۔ محرر نے مجھے منع کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ جناب یہ سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی کا مالک ہے، مخدوم زادہ حسن محمود وزیراعلیٰ بہاولپور کا خاص آدمی ہے، اسے آج تک کوئی بھی پولیس افسر گرفتار نہیں کر سکا، آپ یہ کیا کرنے لگے ہیں۔

میں نے جب گھورکر اپنے محرر کو دیکھا تو وہ سہم گیا اور کہنے لگا، جناب سوچ لیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر میرے حکم پرتم نے ہتھکڑی اس کے ہاتھوں میں نہ پہنائی تو میں خود تمھارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دوں گا۔ اسی اثناء میں، میں نے دیکھا کہ ایک بوری چاول، دو بوری گندم، چار بکرے، ایک ٹوکرا مرغیوں کا، دو ٹین دیسی گھی، گڑ اور شکر کے تھیلے لائے جا رہے تھے۔ میں نے محرر اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ تینوں کو گرفتار کر لیں۔ انھوں نے فورًا تینوں کو ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ میں نے محرر کو دوسرا حکم دیا کہ تمام سامان کی فرد بنا کر مال خانے میں جمع کرا دیں اور ایک نیا کیس رجسٹرڈ کر دیں۔ دیگر جتنے بھی کیس ان کے خلاف التواء میں پڑے ہیں، ان سب میں انہیں گرفتار کر لیں اور صبح انھیں پیدل ہی عدالت میں لے جا کر ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کریں تاکہ تفتیش کی جا سکے۔

میں نے ایک سپیشل رپورٹ تیار کی اور ڈسٹرکٹ کے دیگر تھانوں میں بھجوائی کہ میرے تھانے میں سرفراز سمیترا گرفتار ہے، اگر اس کے خلاف کسی بھی تھانے میں کوئی کیس رجسٹرڈ ہے تو آ کر ان کیسوں میں اس کی گرفتاری ڈالیں۔ پورے علاقے میں ہائے ہائے پڑ گئی کہ یہ کون تھانیدار آیا ہے جس نے سرفراز کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ کبھی اس سے پہلے گرفتار نہ ہوا تھا اور میں نے ہی اس کو غنڈہ ایکٹ میں چالان کرکے اس کا قلندرہ کھول دیا کیونکہ وہ بہت بڑا رسا گیر تھا۔ ابھی وہ میرے زیرِ تفتیش ہی تھا کہ مخدوم زادہ حسن محمود وزیراعلیٰ ریاست بہاولپور بذریعہ ٹرین کراچی جاتے ہوئے صادق آباد سے گزرے۔ چونکہ ٹرین نے صادق آباد ریلوے اسٹیشن پر رک کر جانا تھا اس لیے حفاظت کی ذمے داری میرے تھانہ کی تھی۔

ٹرین مقررہ وقت پر ریلوے اسٹیشن صادق آباد پہنچ گئی۔ وزیراعلیٰ کا ریلوے سیلون ٹرین کے درمیانی حصہ میں تھا۔ وزیراعلیٰ مخدوم زادہ حسن محمود اپنے سیلون کے دروازے میں کھڑے اپنے عوام کے پر جوش نعروں کا جواب ہاتھ لہرا لہرا کر دے رہے تھے کیونکہ صادق آباد ان کا اپنا آبائی علاقہ تھا اور وہ یہیں کے رہنے والے تھے، اس لیے عوامی جوش و خروش بہت زیادہ تھا۔ میں ان کے سامنے عوامی ریلے کو روکے کھڑا تھا کہ ٹرین نے روانگی کی سیٹی بجا دی جس پر میں نے سکھ کا سانس لیا کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سب خیریت رہی۔

اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ ٹرین کا گارڈ اور ڈرائیور بھاگے بھاگے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ٹرین کے انجن کے سامنے ایک ہجوم پٹری پر لیٹا ہے اور مصر ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب جب تک ہماری فریاد نہیں سنیں گے ہم پٹری پر ہی جان دے دیں گے۔ وزیراعلیٰ نے بھی یہ بات سن لی اور مجھے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش ہونے سے نہ روکا جائے۔ میں اور میرے سٹاف نے گاڑی کا دروازہ نہ چھوڑا کیونکہ وزیراعلیٰ کی حفاظت کا معاملہ تھا۔ میں نے اپنے دیگر عملے کو حکم دیا کہ جو لوگ بھی گاڑی کے آگے پٹری پر لیٹے ہوئے ہیں، انہیں وزیراعلیٰ صاحب کے سامنے پیش کیا جائے۔

اسی اثناء میں مجھے میرے محرر نے کان میں بتایا کہ یہ سب جرائم پیشہ لوگ ہیں اور پولیس کو مطلوب ہیں۔ اکثر کے خلاف عرصہ دراز سے تھانہ میں کیس رجسٹرڈ ہو کر التواء میں پڑے ہیں، سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ میں نے اپنے محرر کو حکم دیا کہ وزیراعلیٰ کو میں خود جواب دوں گا۔ جیسے ہی گاڑی روانہ ہو، پولیس کی تمام نفری انہیں گھیرے میں لے کر گرفتار کر لے۔

کچھ ہی لمحوں میں سپاہی ان لوگوں کو لے کر وزیراعلیٰ کے سامنے پیش ہو گئے کہ یہ لوگ آپ سے ملنے کے لیے پٹری پر لیٹے ہوئے تھے۔ وزیراعلیٰ نے ان کی طرف دیکھ کر ان کی خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ انہیں کیا تکلیف ہے تو انھوں نے بہت واویلا کیا اور کہا کہ ایس۔ایچ۔او بہت ظالم شخص ہے، بہت ظلم کرتا ہے، اسے فورًا یہاں سے تبدیل کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے میری طرف جواب طلب نگاہوں سے دیکھا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ شخص جو ریلوے کی پٹری پر لیٹنے والوں کا سرغنہ ہے اس کے خلاف اغوا، ڈکیتی اور آبروریزی کے چار کیس رجسٹرڈ ہیں جو کہ میری تعیناتی سے پہلے کے ہیں۔ اسی طرح میرے محرر نے سب لوگوں کے بارے میں بتایا کہ ان میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے خلاف کیس رجسٹرڈ نہ ہوں اور یہ کہ یہ سب اشتہاری ہیں، رسا گیر ہیں اور سب کے سب جرائم پیشہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی دھمکاتے ہیں، اپنے اثرورسوخ سے ڈراتے ہیں۔

میں نے فوراً وزیراعلیٰ سے کہا کہ جیسے ہی آپ کی گاڑی روانہ ہوگی، میں ان سب کو گرفتار کر لوں گا، یہ میرے گھیرے میں ہیں۔ ابھی یہ بیان جاری تھا کہ کچھ معززین کا ایک گروہ جو کہ صادق آباد کے کاروباری طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ،جن میں کچھ تاجر اورکاشتکار تھے، وزیراعلیٰ مخدوم زادہ حسن محمود زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا وزیراعلیٰ کے سیلون کے سامنے آ کر رک گیا۔ وزیراعلیٰ نے جواب طلب نظروں سے دیکھا تو ان کے لیڈر نے بتایا کہ ایس۔ایچ۔او بہت نیک اور شریف آدمی ہے، رشوت بالکل نہیں لیتا، کھانا اپنے گھر سے کھاتا ہے، بازار سے جو چیز بھی منگواتا ہے، پہلے پیسے دیتا ہے پھر یہ چیز لیتا ہے۔ جب سے اس کی یہاں تعیناتی ہوئی، شہر میں چوری چکاری بالکل ختم ہو گئی ہے، دیگر جرائم بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ واحد ایس۔ایچ۔او ہے جس نے سرفراز جیسے رسا گیر کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کیا ہے۔ ہاں! شریف اور غریب آدمی کی بہت عزت کرتا ہے۔

چٹی دلالوں کا داخلہ تھانے میں بند ہے البتہ چوروں، لٹیروں اور رسا گیروں کو ٹھیک ٹھاک جوتے مارتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو علاقے کے حالات کا علم تھا۔ انھوں نے ہی ڈی۔آئی۔جی محمد رحیم الدین لغاری کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ ایس۔ایچ۔او ایسے آدمی کو لگائیں جو ایماندار ہو اور علاقے کو جرائم سے پاک کر دے۔ موقع پر ہی وزیراعلیٰ نے مجھے کہا کہ آپ اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے جو بھی حد عبور کرنا چاہیں کرسکتے ہیں اور میری یعنی وزیراعلیٰ کی پیشگی اجازت کے بغیر ایس۔ایچ۔او کو تبدیل نہ کیا جائے۔

ٹرین نے روانگی کی سیٹی بجادی اور رینگنا شروع کر دیا۔ وزیراعلیٰ ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے سیلون میں چلے گئے۔ میرے حکم دینے کی دیر تھی کہ تمام گارڈ بندوقیں تان کر کھڑے ہو گئے اور تمام جرائم پیشہ افراد جن کے خلاف تھانہ میں کیس رجسٹرڈ تھے اور وہ پولیس کو مطلوب تھے، گرفتار کر لیے گئے جن میں بڑے زمین دار، ان کے بدمعاش اور رسا گیر بھی تھے۔ جب گرفتاریاں مکمل ہو گئیں تو میں نے محرر سے کہا کہ انھیں دیکھو ، اگر کوئی بھاگنے میں کامیاب ہوا ہے تو فوراً گارڈ تیار کرو ،میں ابھی ان کے پیچھے جائوں گا۔ اس نے دیکھنے کے بعد جواب دیا کہ کوئی بھی بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ، سب گرفتار ہیں۔ میں نے دوسرا حکم یہ دیا کہ ان سب کو صادق آباد شہر میں سے جوتے مارتے ہوئے لے کر جائو تاکہ عام آدمی ان کا حشر دیکھے اور ان کی عوام پر جو دہشت ہے وہ ختم ہو۔ چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد ان کا حشر دیکھ کر نصیحت پکڑیں۔

جب یہ لوگ حوالات میں بند تھے تو عوام کی طرف سے ان کے خلاف درخواستیں آنی شروع ہو گئیں۔ میں ان درخواستوں پر باقاعدہ تفتیش کرتا۔ اگر حالات و واقعات صحیح ہوتے تو فوراً کیس رجسٹر کرتا اور معمولی قسم کی شکایات پر صرف سرزنش کرتا اور ان کو شرم دلاتا تاکہ ان کا مردہ ضمیر جاگ جائے اور یہ جرائم کی دنیا ترک کرکے اچھے انسان بن جائیں۔

والدِ محترم پھر مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے اگر میں رشوت لینا چاہتا تو ان سے فی کس مجھے پانچ ہزار رشوت کی پیشکش کی گئی تھی اور اکیلے سرفراز نے ایک لاکھ تک کی بولی لگا دی تھی جبکہ سونے کی قیمت اس وقت 60 روپے فی تولہ تھی۔

ایک بار میں نے ان سے پوچھا ابا جان! کبھی آپ نے کسی کی سفارش پر کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا تو وہ ہنسنے لگے اور فرمایا کہ مجھے سفارش کرنے کی کوئی جرأت نہ کرتا تھا۔ ایک بار ایک ایم۔این۔اے نے کسی جرائم پیشہ کو سفارشی خط دے کر میرے پاس بھیجا۔ میں تھانے میں بیٹھا تھا کہ ایک سب انسپکٹر نے آکر مجھے بتایا کہ جس ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے کل آپ نے مجھے ایک مثل دی تھی، وہ تھانے میں محرر کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پاس ایک ایم۔این۔اے کا سفارشی خط ہے۔خط کیا ہے، آپ کے نام پورا ایک حکم نامہ ہے۔اب آپ کا مزید کیا حکم ہے؟

میں نے اس سب انسپکٹر سے کہا کہ اسے میرے پاس آنے دیا جائے۔ جب وہ آیا تو آتے ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ کھڑے ہو جائو اور کھڑے ہوکر بیان کرو کہ کیسے آنا ہوا۔ وہ کھڑا ہوگیا اور خط جوکہ لفافے میں تھا، میری طرف بڑھایا۔ میں نے اسی سب انسپکٹر سے کہا کہ خط پڑھ کر سنائو۔ اس نے کہا کہ میں نے خط پڑھا ہے۔ میں نے کہا، نہیں، دوبارہ باآواز بلند اس کے سامنے پڑھ کر سنائو۔ سب انسپکٹر نے خط نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ جب خط ختم ہوگیا تو میں نے کہا کہ اس میں سے السلام علیکم اور دیگر متبرک الفاظ پھاڑ لیے جائیں اور خط کو دس جوتے مارے جائیں۔ لہٰذا اسی طرح ہی کیا گیا۔ اب میں نے کہا کہ ۲۰ جوتے اس چور اچکے کو لگائے جائیں اور اس کو رجسٹرشدہ مقدمے میں گرفتار کرلیا جائے۔ میں نے مزید کہا کہ اگر تمھارا ایم این اے خود آکر تمھاری سفارش کرتا تو وہ بھی جوتوں کا حقدار ہوتا۔

ایک اور واقعہ انھوں نے بتایا کہ میں بہاولپور سے پندرہ بیس میل دور ایک تھانہ میں تعینات تھا کہ رات کے وقت ایک شریف آدمی نے آکر ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے اسے اپنی رہائش گاہ پر ہی بلوالیا۔ خیریت وغیرہ دریافت کرنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اس وقت آنے کا مقصد بیان کرو تو وہ بولا کہ میں نے آپ کی نیک نامی اور اچھی شہرت سن رکھی ہے، اس لیے آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں گو کہ میرا ذاتی طور پر اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا، اگر اس سارے واقعہ میں میرا نام کہیں بھی آگیا تو بڑا شیخ مجھے میرے خاندان سمیت قتل کرادے گا۔ میں غریب آدمی ہوں اور صاحب اولاد ہوں۔ کوئی صاحب اولاد ہی کسی دوسرے کی اولاد کا غم محسوس کرسکتا ہے۔

اس کا انداز گفتگو بہت ہی دھیما تھا اور بہت نپے تلے الفاظ بول رہا تھا۔ میں اس کی بات بہت غور سے سن رہا تھا۔ میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ فکر نہ کرو اورنہ ہی کچھ خطرہ محسوس کرو، سمجھو کہ آپ اپنے بڑے بھائی سے بات کررہے ہیں اور آپ کی حفاظت میرا فرض ہے۔ آپ بغیر پیشگی تمہید کے اصل بات بیان کریں۔

اس نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریب ہی ایک غریب موچی کا گھر ہے۔ دو روز سے اس کی بیٹی غائب ہے۔ وہ کھیت میں بکری کے لیے گھاس کاٹ رہی تھی کہ غائب ہوگئی۔ لڑکی جوان اور بہت خوبصورت ہے۔ دونوں میاں بیوی اور ان کے دیگر بچے اس لڑکی کو تلاش کرتے رہے۔ آخرکار انھوں نے کسی نہ کسی طرح پتا چلالیا ہے کہ لڑکی بڑے شیخ نے اغوا کرائی ہے اور اس وقت شیخ کی حویلی میں لڑکی موجود ہے۔ چونکہ میں بھی دو بیٹیوں کا باپ ہوں اور خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی غریب آدمی کی عزت محفوظ نہیں ۔ پہلے بھی کئی دفعہ ایسی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ لوگ اپنی عزت اور شیخ کے ڈر کی وجہ سے پولیس میں رپورٹ نہیں کرتے اور یہ کہ پولیس بھی شیخ سے ڈرتی ہے۔

میں نے اس شخص کو اپنے پاس ہی بیٹھا رہنے دیا اور فورًا دو سمجھ دار سپاہی موچی کو بلانے کے لیے روانہ کیے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد سپاہی موچی کو لے کر آگئے۔ میں نے اس کی خیر خیریت دریافت کی تو وہ رونے لگ گیا اور بولا ،حضور مجھے کیوں بلوایا ہے؟ مجھ سے کیا غلطی ہوگئی ہے؟

میں نے اسے حوصلہ تسلی دی اور کہا کہ تم نے سنگین غلطی کی ہے، دو روز سے تمھاری بیٹی گھرسے غائب ہے اور تم نے تھانہ میں رپورٹ درج نہیں کرائی۔ وہ مزید رونے لگ گیا اور ہاتھ جوڑنے لگا کہ جو میرا مقدر تھا، مجھے مل گیا۔ میں مزید کوئی مصیبت مول نہیں لینا چاہتا اور نہ اپنے دیگر بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے معاف کردیں اور مجھے جانے دیں۔ مجھے کسی کے بھی خلاف رپورٹ درج نہیں کرانی۔

میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ تمھارے ساتھ انصاف ہوگا۔ اپنی بیٹی پر ظلم نہ کرو۔ آخر میں نے موچی کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی اور دونوں سپاہیوں، جو کہ موچی کو رات کے اندھیرے میں لیکر آئے تھے، کے حوالے کردیا اور انھیں کہا کہ یہ بہت پریشان ہے، اسے باہر لے جائیں اور پیار سے سمجھائیں کہ یہ اپنی بیٹی کے ساتھ انصاف نہیں کررہا اور میری طرف سے اسے تحفظ کا یقین دلائیں۔ ایک گھنٹہ کے بعد وہ موچی کو لے آئے۔ اب وہ نیم رضامند تھا۔ میں وردی وغیرہ پہن کر تیار بیٹھا تھا۔ میں نے محرر کو رہائش گاہ پر ہی بلوالیا اور تمام واقعات و حالات من و عن درج کرکے کیس رجسٹر کرلیا۔ بڑے ملزم کے طور پر بڑے شیخ کا نام لکھا گیا۔ میں نے موچی اور اطلاع دینے والے کو فوراً اپنی حفاظت میں لے لیا اور محرر کو حکم دیا کہ جب تک میں واپس نہ آئوں، کوئی بھی اُن سے نہ ملے البتہ ان کے آرام اور کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائے۔

میں فوراً بہاول پور ایس۔پی صاحب ملک بشیروارن کی کوٹھی پر پہنچا، انھیں سوتے ہوئے جگایا اور تمام حالات و واقعات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اسی وقت مجسٹریٹ سے تلاشی وارنٹ منگوایا، پولیس لائن سے سپیشل فورس دی۔ ایک ٹرک میں ہم سب سوار ہوکر تھانہ پہنچ گئے۔ موچی اور تھانہ کی نفری کو ساتھ لیا اور رات کے ڈھائی بجے شیخ کی حویلی جا پہنچے۔ میں نے شیخ کی بہت کہانیاں سن رکھی تھیں۔اس کی حویلی کیا تھی ایک قلعہ تھا۔ میں دروازے کے راستے سے اندر نہیں جانا چاہتا تھا، اس طرح لڑکی کے ملنے کے امکانات بہت کم تھے۔ آخر میں نے حکم دیا کہ ایک سپاہی کے کندھے پر دوسرا سپاہی کھڑا ہوکر دیوار کود جائے اور اندر سے جا کر دروازہ کھول دے۔ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا اور میں بہت خاموشی کے ساتھ صدردروازے کو نہ صرف کھلوانے میں کامیاب ہو گیا بلکہ صدردروازہ اب میرے قبضے میں تھا۔ میری سرکردگی میں پوری کی پوری پولیس فورس قلعہ نما حویلی میں داخل ہوگئی۔

ہم کمروں کی تلاشی لیتے ہوئے زنان خانے میں جا پہنچے۔ میں نے سپاہیوں کو عورتوں کے کمرے میں نہ جانے دیا بلکہ دروازے پر دستک دی اور کہا کہ آپ میری بہنوں اور بیٹیوں جیسی ہیں، کارسرکار میں مداخلت بالکل نہ کریں، آپ کی عزت و احترام کا بے حد خیال رکھا جائے گا۔ایک عمر رسیدہ عورت جوکہ کافی سمجھ دار معلوم ہوتی تھی، بولی بھائی صاحب! آپ لوگ کیا تلاش کررہے ہیں۔ مجھے بتائیں میں آپ کو صحیح راستے پر لگائوں گی۔ میں نے کہا، بہن !مجھے بڑے شیخ صاحب کا کمرا بتا دیں، باقی بات میں ان سے خود ہی کرلوں گا۔ اس نے کافی پس وپیش کے بعد اپنی راہ نمائی میں ہمیں بڑے شیخ صاحب کی خواب گاہ تک پہنچا دیا۔ میں نے خاتون سے کہا کہ اب آپ اپنے کمرے میں جائیں اور کمرے سے باہر بالکل نہ آئیں۔ میں نے اے۔ایس۔آئی کو اشارہ کیا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ کوئی جواب نہ پا کر میں نے حکم دیا کہ دروازہ توڑدیا جائے۔

ابھی دوچار ضربیں ہی ماری گئی تھیں کہ ایک طرف سے شور بلند ہوا اور سپاہی کھڑکی میں سے کودتے شیخ اور ایک نوجوان لڑکی پکڑ لائے۔ چونکہ میں نے تمام فورس حویلی کے ہر راستے پر متعین کی ہوئی تھی اور کوئی بھی اندر سے باہر نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی باہر سے اندر آ سکتا تھا۔ میں نے فورًا شیخ کو حراست میں لے لیا اور لڑکی سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس نے اپنے والد کا نام بتایا اور تسلیم کیا کہ شیخ کے غنڈے کھیت میںسے زبردستی اٹھا کرلائے تھے اور دو روز سے شیخ کی ہوس کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔ تقریباً ساڑھے تین بجے یہ آپریشن ختم ہوا اور میں کامیاب و کامران واپس تھانے پہنچ گیا۔سب سے پہلے میں نے باپ سے اس کی بیٹی کی شناخت کرائی۔

دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب دھاڑیں مار کر روئے۔ بہت رقت آمیز منظر تھا۔ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شیخ بہت پریشان تھا اور باربار کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ میری حویلی میں داخل کس طرح ہوئے، آپ لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا، میں پولیس کی اور خاص طور پر ایس۔ایچ۔او کی قبریں حویلی میں ہی بنا دوں گا۔

جب اسے یقین ہوگیا کہ آج وہ نہیں بچ سکے گا تو پھر وہ منتیں کرنے لگا۔ اس نے ۲۰ہزار روپے موچی کو دینے کی پیشکش کی۔ پہلے مجھے ایک لاکھ کی پیشکش کی، پھر رقم بڑھاتا چلا گیا اور پانچ لاکھ تک کی بولی لگانے کے بعد منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہوگیا۔ میں نے اسے کہا کہ شیخ صاحب آج کی رات آپ حوالات میں گزاریں۔ صبح میں آپ کی پیشکش اور دھمکیوں کا جواب دوں گا۔

لڑکی میں نے باپ کے حوالے کردی اور گھر جانے کی اجازت بھی دے دی۔ جو آدمی اطلاع دینے آیا تھا، اسے خفیہ طور پر پہلے ہی فارغ کرکے گھر بھیج دیا گیا تھا تاکہ اسے کوئی نہ دیکھ سکے۔دوسری صبح میں نے موچی سے کہا کہ جوتوں کا ہار تیار کرکے لے آئو۔ جب وہ لے آیا تو میں نے اسے کہا کہ شیخ کے گلے میں ڈال دو اور سپاہیوں سے کہا کہ اسے ہتھکڑی لگا کر سارے بازار میں سے جوتے لگاتے ہوئے لے کر جائو تاکہ غریب آدمی کی عزت خراب کرنے اور پھر پیسے کے زور پر اپنے آپ کو بچانے کا مزا اس کو چکھا دیا جائے اور اسے کہا کہ شیخ صاحب آپ نے منہ مانگی رقم دینے کی جوپیشکش مجھے گزشتہ رات کی تھی، میرا آپ کی پیشکش کے سلسلے میں یہ ہی جواب ہے۔

پھر مجھے فرمانے لگے، بیٹا! اس وقت پانچ لاکھ بہت بڑی رقم تھی، سونا ۱۰روپے تولہ تھا اور ایک لاکھ روپے سے چھ مربعے زمین خریدی جا سکتی تھی۔
Muhammad Tauseef Paracha
About the Author: Muhammad Tauseef Paracha Read More Articles by Muhammad Tauseef Paracha: 16 Articles with 18340 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.