گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف
جمعے کو پوری قوم نے سڑکوں پر نکل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ملک بھر کی
طرح کراچی کی سڑکوں پر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثاروں کا سیلاب
اُمڈ آیا۔ مذہبی جماعتوں کی ریلیوں اورمظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
ملعون امریکی فلم ساز اور پادری کے پتلوں کوسڑکوں پر گھسیٹنے کے بعد نذر
آتش کیا گیا۔ امریکی پرچموں کو پاﺅں تلے روندا جاتا رہا۔ پورے ملک میں شٹر
ڈاﺅن اور پہیہ جام کی کیفیت رہی۔ یوم ِعشقِ رسول کے موقع پر کراچی میں
گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کے دوران 18 افراد جاں بحق اور 120 کے قریب
زخمی ہوئے۔ شہر کی سڑکیں دن بھر میدان جنگ بنی رہیں۔
کراچی میں اہل سنت والجماعت، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی، جماعت الدعوة
سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے تحت ریلیاں نکالی گئیں۔ ایم اے جناح روڈ پر
مزار قائد تا ٹاور حدِ نگاہ سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ اسی علاقے میں جلاﺅ
گھیراﺅ اور املاک نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آئے۔ واضح رہے کہ یومِ عشقِ
رسول کے سلسلے میںجمعے کے روز نکالی جانے والی ریلیوں کی منزل امریکن
قونصلیٹ تھا جہاں پہنچ کر مظاہرین نے مذمتی یادداشت پیش کرنا تھی۔ پر تشدد
کارروائیوں میں تیزی اس وقت آئی جب پولیس نے نیٹی جیٹی پل پر بلاوجہ آنسو
گیس کی شیلنگ کی جس کے بعد مظاہرین مشتعل ہوئے۔ پولیس کی فائرنگ سے صورت
حال گھمبیر ہوگئی اور افراتفری مچ گئی۔اسی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں۔ افسوس
تواس بات پر ہے کہ کراچی میں احتجاج روکنے اور امریکی قونصلیٹ کو بچانے کے
لیے 18 انسانی لاشیں گرائی گئیں مگر الیکٹرانک میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوا۔
چینلوں پر نام نہاد سیاسی زعما املاک نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے رہے مگر
کسی ایک رہنما کو بھی جیتے جاگتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مذمت
کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کیا ان مقتولین کا کوئی پُرسان حال نہیں؟ اتنے
بڑے سانحہ کے باوجود میڈیا کی جانب سے املاک نذر آتش کرنے کا رونا رویا گیا
مگر اس انسانی المیے پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کی گئی جو کہ قابل مذمت
ہے۔ حالاں کہ مذہبی جماعتوں کے رہنما اپنے کارکنوں کو شرپسندوں پر نظر
رکھنے اور جلاﺅ گھیراﺅ سے منع کرتے رہے۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ان
فسادات میں مذہبی جماعتوں کے مظاہرین شریک نہیں تھے۔
اہل سنت و الجماعت کراچی ڈویژن کے صدر مولانا اورنگزیب فاروقی نے کہا کہ
انتظامیہ نے ریلیوں کو پر تشدد بنایا۔ انہوں نے 8 کارکنوں کے جاں بحق اور
83 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ جس کے خلاف ہفتے کے روز اہل سنت والجماعت نے
یوم سوگ منایا اور مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ جب کہ اہل سنت
والجماعت کے مرکزی امیر علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ کراچی میں
اہل سنت والجماعت کی پر امن ریلی پر پولیس کی فائرنگ حکومتی دہشت گردی کا
کھلا ثبوت اور انتظامیہ کی بدترین نااہلی ہے۔ انہوں نے ان واقعات کی فوری
تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع حکومت کی
کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر پولیس اہلکار مظاہرین پر شیلنگ اور
فائرنگ نہ کرتے تو اتنی اموات نہ ہوتیں۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے
کہ آیا یہ فائرنگ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ہوئی یا پولیس کی وردیوں میں
ملبوس شرپسند وں نے کی۔ جب کہ موبائل فون کی سروس بندہونے سے بھی قائدین
اور کارکنوںکا رابطہ نہ ہونے کے باعث حالات دگرگوں ہوئے جس کا فائدہ شر
پسندوں نے اٹھایا۔ کیوں کہ اگر یہ سروس بحال ہوتی تو مظاہرین کو شر پسند
عناصر سے الگ رکھنا آسان ہوتا لیکن وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے امریکی
قونصلیٹ کو بچانے اور احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے یہ اقدام کیا جس کے
باعث لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈبل سواری پر
پابندی اور موبائل سروس کی بندش کی بجائے دہشت گردوں کو پکڑے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت ریلیوں کے موقع پر احتجاج میں تشدد
کا عنصر حکومت سے ناراضی کی علامت ہے۔ لوگ حکومت ِوقت کے اقدامات سے تنگ
آچکے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور حکمرانوں کی لوٹ مار سے عوام عاجز آچکے
ہیں جس کے باعث احتجاج میں لوگوں نے کھل کر اپنا غصہ نکالا۔
یہاں یہ بات حیران کن ہے کہ گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف مذہبی جماعتوں کے
علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں احتجاج سے گریزاں کیوں ہیں؟ جمعے کے روز نکالی
جانے والی ریلیوں میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا
حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، کیا ہماری سیاسی جماعتوں کو امریکی حکمرانوں کی
ناراضگی کا خدشہ ہے؟ یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے نام نہاد
سیاسی رہنما صرف اس وجہ سے طاقت کا مظاہرہ نہیں کررہے کہ کہیں ان کا نام
بلیک لسٹ میںنہ آجائے اور آیندہ حکومت کے دروازے ان کے لیے بند نہ ہوجائیں۔
گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے مگر اپنی املاک کو
نقصان پہنچانے کا رویہ درست نہیں۔ دینی جماعتوں کی تحریک کو تشددکے ذریعے
ہائی جیک کرنا سازش بھی ہوسکتی ہے تاکہ قوم کی ہمدردیاں ختم کی جاسکیں۔
کراچی میں اس سے قبل بھی متعدد بار ریلیوں پر فائرنگ میں متعدد افراد اپنی
جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ اگر حکومت نے ان واقعات پر ایکشن لیا ہوتا اور
تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا ہوتا تو اس طرح کے
واقعات دوبارہ رونما نہ ہوتے مگر حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کے باعث لوگوں کی
جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ لہٰذا آیندہ اس قسم
کی تخریب کاری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرکے
اس میں ملوث ذمہ داران کو فی الفور قرار واقعی سزا دے بصورت دیگر اس طرح کے
سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ |