ملکی سیاست جتنے جمہوری پینترے بدل رہی ہے اس کی مثال کسی جمہوری دور میں
ہی ڈھونڈی جاسکتی ہے خصوصاً وہ دور جو پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں نے گزارا
کہ جس میں دونوں پارٹیوں کا ایک دوسرے کی حکومت کو برداشت کرنا کبھی ایک
سال اور کبھی دو سال سے زیادہ نہ ہو سکا۔ اور کسی بھی بہانے سے غیر جمہوری
قوتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ایک دوسرے کی حکومت کو گروا دیا گیا۔ کاش
کہ ہمارے ملک کی تمام اور خصوصاً ملک کی دو بڑی پارٹیاں ماضی سے کچھ سبق
سیکھ سکتیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ دونوں پارٹیاں اس
بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ماضی میں جو کھینچا تانی کی سیاست ہوتی رہی اس سے
نا صرف ان مزکورہ بڑی جماعتوں نے بلکہ ملک و قوم نے اچھا خاصا کافی مہنگا
سبق سیکھا اور جمہوری طور طریقوں کو مضبوط بناتے ہوئے بڑی پارٹیوں نے عہد
کیا کہ ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس کے ساتھ
گزارش عرض یہ ہے کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں وہی ماضی کی غلطیاں دہرانے
میں مصروف ہیں۔ ایک مخصوص ادارے عدلیہ کی بحالی کے نام پر ایک پارٹی دوسری
پارٹی کی حکومت کو چلتا کرنے کے چکر میں لگی ہوئی ہے اور اپنے تئیں یہ سمجھ
رہی ہے کہ یہ سب کچھ جمہوری طریقے سے ہو رہا ہے۔ مگر ہماری سمجھ میں یہ بات
نا معلوم کب آئے گی کہ اداروں کی بحالی کسی مخصوص پارٹی کے زریعے ہونے کا
کیا مطلب ہو سکتا ہے کیا یہ نہیں کہ وہ مخصوص پارٹی اس ادارے کی آڑ میں
اپنے سیاسی مقاصد (حکومت کو پانچ سال سے پہلے چلتا کر دینے کے لیے اس کے
علاوہ کوئی چارہ انہیں نظر نہیں آتا) پورے کرنے میں مصروف ہے۔
بڑی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ دیکھا گیا کہ ایک پارٹی کے لیے جب دوسری
پارٹی ناقابل برداشت ہوگئی تو ایک صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اب
دوسری پارٹی بھلا کیسے پیچھے رہ سکتی تھی اس نے ایک مخصوس لسانی نعرے کی آڑ
میں اپنی قوم کو جگانے کے لیے نعرہ دیا کہ جاگ فلاں جاگ۔ جسکے بعد گھوڑوں
کی تجارت جسے حرف عام میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے شروع ہوئی اور پاکستان
مسلم لیگ (ن) نے اپنی صوبائی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنی عددی طاقت سے
زیادہ طاقت دکھاتے ہوئے ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جو لوٹے سمجھے جاتے
رہے ہیں اب یہ تو ہوئی سیاست کی بات کہ ماضی کے لوٹے حال کے جگری اور بھائی
کیسے بن پاتے ہیں اس طرح مسلم لیگ ن نے عددی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٣٧٥
کے ایوان میں ٢٠٧ اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنی طرف سے دکھا دیا۔ اب یہ تیس
چالیس اراکین اسمبلی کہاں سے آگئے اور ان کے ضمیر اچانک کیسے جاگ گئے یا یہ
کہ تیس چالیس اراکین اسمبلی کے لیے کتنے کروڑہاں روپے نچھاور کیے گئے اور
ان سے کون کون سے مستقبل کے وعدے وعید لیے اور دیے گئے یہ تو وہی جانے
جنہیں اللہ نے شاید پیدا ہی اسلیے کیا ہے کہ ملک و قوم کی تقدیر کے ساتھ
کھلواڑ کریں اور کھل کر جمہوری کھیل کھیلتے رہیں۔ بحرحال آج جب جواب غزل کے
طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وہی جمہوری حق استعمال کیا اور ایوان
میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ستائیس اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ شامل کھڑا
ثابت کر دیا۔ اس معاملہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شاباش ہے کہ لاکھ کوشش
کے باوجود مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے کسی رکن کو توڑنے میں کامیاب نہ رہی
جس یقیناً پیپلز پارٹی کے لیے فخر کی بات ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ میاں
نواز کے جیتے جی اور ان کے ملک میں بلکہ صوبہ پنجاب میں ہوتے ہوئے بھی مسلم
لیگ ن کے اتنے کثیر اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی کی جھولی میں جا گرے۔ اور
مسلم لیگ ن کے مشہور زمانہ رہنما، اپنی کچھ خاص وجوہات کی بنا پر نا کہ
سیاسی بنا پر، جناب خواجہ سعد رفیق صاحب فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب
سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی نے ماضی سے کچھ
سبق نہیں سیکھا۔ کون قربان نا ہوجائے ایسے بھولے بادشاہوں پر، آپ تیس چالیس
کسی پارٹی کے توڑ کر اپنی طاقت دکھائیں تو وہ تو ہوئی جمہوریت اور دوسرا جب
وہی عمل کرے تو اس نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا واہ رے بادشاہوں واہ اسے
کہتے ہیں جمہوریت؟ اور مزید فرماتے ہیں چھ مارچ کا ریلا الطاف بھائی اور
پیپلز پارٹی کی ننھی منی ریلیوں کو بہا کر لے جائے گا۔ کیا ہی خوب تھا کہ
سعد رفیق صاحب غیر جانبدار مبصرین اور زرائع ابلاغ (اپنے زر خرید نہیں) کو
بیچ میں لاکر دکھا دیں کہ چھ مارچ کا ریلا کیا بلا ہوگی۔ ایک بات تو انصاف
کی ہے ملک کے سیاسی لیڈران جہاں جہاں عوام اور جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کر
رہے ہیں بغیر کسی حفاظتی شیلڈ کے کر رہے ہیں کاش کہ ن لیگ والے بھی اپنے
جھنڈے میں لگی شیر کی تصویر سے کچھ سبق سیکھ لیں کہ کسی شیلڈ اور بلٹ پروف
شیشے کے پیچھے سے تقریر کرنے سے یہ تاثر ہی ابھرتا ہے کہ شیر پنجرے میں بند
ہے اور پنجرے میں بند شیر اور کھلے عام پھرنے والے شیر میں جو فرق ہوتا ہے
وہ کاش آپ کی سمجھ میں آجائے، جبھی تو کہتے ہیں کہ شیر بنو شیر یہ نہیں کہ
پنجرے کے پیچے والا شیر بنو۔
جس طرح میاں صاحبان کے ملک میں ہوتے ہوئے بھی ان کی پارٹی سے فارورڈ گروپ
کا نکلنا چاہے وہ کوئی بھی وجہ ہو چاہے انہیں کسی نے ڈرایا دھمکایا ہو یا
خرید لیا ہو، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کیا یہ نہیں کہ نواز شریف صاحب کا
اپنی پارٹی پر کنٹرول کس طرح کا ہے کہ ملک عزیز میں رہتے ہوئے اتنے اراکین
اسمبلی ٹوٹ گئے اگر میاں صاحب کسی کام یا کسی اور وجہ سے ملک سے باہر جا
بسیں تو انکی جماعت کا وہی حشر تو نا ہو جائے گا جو محترم نواز شریف کی
جماعت کا اس وقت ہوا تھا جب آپ سعودی عرب کے دورے پر زبردستی بھیج دیے گئے
تھے۔ اس معاملے میں لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں کہ الطاف حسین تو ایسا اور ویسا
مگر شاباش ہے الطاف حسین بھائی پر کہ ملک سے چاہے خود ساختہ جلا وطنی ہی
اختیار کی ہوئی ہے مگر ان کی جماعت سے ایک بھی قومی رکن اسمبلی تو دور کی
بات صوبائی اسمبلی تو دور کی بات، ناظم اعلیٰ تو دور کی بات، ٹاون ناظم تو
دور کی بات ایک یو سی ناظم بھی آپ خرید اور توڑ سکیں تو کر دکھائیں۔ بات
اصل میں یہ ہے کہ میاں صاحبان کو اقتدار جتنا مرغوب ہے انکے اراکین اسمبلی
کو بھی اتنا ہی عزیز ہے چاہے وہ میاں صاحب کی پارٹی میں رہتے ہوئے حاصل ہو
یا کسی اور پارٹی میں شامل ہو کر حاصل ہوجائے۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے
اراکین اسمبلی کو پتہ ہے کہ الطاف بھائی کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں ہے
اور الطاف بھائی نے اپنے کسی بھائی، بھانجے بھتیجے ، ماموں چاچا کو اقتدار
پر لا کر نہیں بٹھانا اور جب یہ بات ایک عام ورکر سے لے کر اراکین اسمبلی
تک سمجھ میں آتی ہے تو جس منصب پر الطاف حسین کو ان کے کارکنان بٹھاتے ہیں
وہ تمام کے لیے قابل تقلید ہے اور جو باتیں ایم کیو ایم اور جناب الطاف
حسین سے منسوب کی جاتیں ہیں تو اس کے جواب میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر
ایم کیو ایم ایسی ویسی جماعت ہوتی تو اسے ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ
تعلیم یافتہ شہری رکھنے والے شہر پر کبھی ایسا مینڈیٹ حاصل نا ہو پاتا جس
تک پہنجنا تو دور کی بات اس کے خواب دیکھنا بھی بکاؤ مال تنظیموں کے بس کی
بات نہیں ہمیں سب سے پہلے یہ چاہیے کہ اپنی سیاسی جماعتوں کے آگے سے یہ ل م
ن و ق ٹائپ کی چیزیں ختم کریں جس سے یہ تاثر بھی ختم ہو کہ یہ تنظیمیں کسی
فرد واحد کی نہیں بلکہ ملک عزیز کی پارٹیاں ہیں۔ |