حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی
ذات بڑی شجاع و بہادر اور پیکر استقامت،جنہوںنے اسلام کے چمن کی آبیاری
اپنے مبارک لہو سے کی۔
حضور ﷺ کے چچاﺅں کی تعداد میں مورخین کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک نو،بعض کے
نزدیک دس اور بعض کا قول ہے کہ گیارہ۔مگر صاحب مواہب الدنیہ نے ”ذخائر
العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ“کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ آپ کے والد
ماجدحضرت عبداللہ کے علاوہ حضرت عبدالمطلب کے بارہ بیٹے تھے۔ان میں سے صرف
حضرت حمزہ وحضرت عباس رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا۔حضرت حمزہ رضی اللہ
عنہ بہت ہی طاقتور، بہادراور حضور ﷺسے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے۔حضرت
حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی والدہ ھالہ بن عبد مناف بن زہرہ ہیں۔آپ
کی کنیت ابوعمارہ اور ابو یعلی دونوں بیٹوں کے نام سے ہے۔معجم بغوی میں ہے
کہ مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان
ہے،اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں لکھاہواہے کہ حمزہ” اسداللّٰہ اور
اسدرسول اللّٰہ“ (اللہ ورسول کا شیر)ہیں“۔
حضرت حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام:آپ بعثت کے دوسرے سال میں ایمان
لائے۔دوسری روایت میں ہے کہ بعثت کے چھٹے سال میں جب رسول اکرمﷺ دارارقم
میں داخل ہوئے تب آپ قبول اسلام سے مشرف ہوئے۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
کے قبول اسلام سے تین دن پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔اسلام کی سب سے پہلی
جنگ”غزوہ ¿ بدر“میںبھی آپ شریک تھے اوراس جنگ میں آپ نے شجاعت وجواں مردی
کے وہ جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے سرداران قریش کو واصل جہنم کیا۔
چند امتیازات:(۱)پیغمبر اسلام ﷺ نے مسلمانوں میں سب سے پہلا جھنڈاآپ ہی کے
لیے قائم فرمایا۔(۲)پیغمبر اسلام ﷺ نے پہلا سریہ بھی آپ ہی کے لیے تیار
فرمایا۔(۳)خالد الدمشقی نے یہ حدیث روایت کی ہے:خیر اعمامی حمزہ۔(میرے چچاﺅںمیںحمزہ
بہترین چچاہے۔)(۴)ابن السری نے مرفوعاً روایت کی ہے: سید الشہداء یوم
القیامة حمزہ بن عبدالمطلب۔(حضرت حمزہ بن عبدالمطلب قیامت کے دن شہیدوں کے
سردار ہونگے۔)(۵)سلفی نے بریدہ سے اس ارشاد باری کوذکرکیاہے:” یاایتھا
النفس المطمئنة“ترجمہ:ائے اطمینان والی جان (پارہ30،سورہ
فجر،آیت27)(۶)ارشاد باری:فمنھم من قضی نحبہ(پارہ21،سورہ احزاب)یعنی جو لوگ
اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس
آیت میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاذکرہے۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
شہادت:ہجری ۳ میںجنگ احد کے اندرآپ نے جام شہادت نوش فرمایااور
”سیدالشہدائ“کے لقب سے مشہور ہوئے۔شہادت کے وقت آپ کی عمرانسٹھ(59)سال
تھی۔آپ کی بہن امیمہ کے فرزند عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے
ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے،وہ بھی جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔مدینہ
منورہ سے تین میل دور خاص جنگ احد کے میدان میںآپ کا مزار پُر انوارزیارت
گاہ عالم اسلام ہے۔
جسدحمزہ رضی اللّٰہ عنہ کا مثلہ:علامہ پیر کرم شاہ ازہری تاریخ الخمیس کے
حوالے سے ضیاءالنبی ﷺ،جلد۳میں تحریر فرماتے ہیں کہ وحشی نے آپ کو شہید کرنے
کے بعدآپ کا پیٹ چاک کیا۔آپ کاکلیجہ نکالا اورسردار مکہ ابو سفیان کی بیوی
ہندکے پاس لے آیااور کہا یہ حمزہ(رضی اللہ عنہ)کاکلیجہ ہے۔ہند نے اسے
چبایا،اس نے نگلناچاہا لیکن تھوک دیا شاید نگل نہ سکی۔ہند نے اپنے کپڑے اور
زیور اتار کروحشی کو بطور انعام دیئے اور وعدہ کیا کہ مکہ جاکر وہ اسے مزید
دس دینار بطور انعام دے گی۔پھر وحشی سے کہا چلومیرے ساتھ مجھے حمزہ(رضی
اللہ عنہ)کی لاش دکھاﺅ،وہاں پہنچ کر اس سنگ دل عورت نے آپ کے اوردیگر
شہداءکے کان ناک کاٹے یعنی مثلہ کیا،پھر ان اعضاءکوپِرُویا،ان کے کڑے
بازوبنداورپازیب بنائے اور مکہ میںجب داخل ہوئی تویہ زیورپہن کر داخل ہوئی۔
قلب مصطفیٰﷺکوتکلیف:جنگ ختم ہونے کے بعدحضور ﷺ نے اپنے چچاکوتلاش کیا، بطن
وادی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لاشہ مبارک کوپایا،جس کامثلہ کیاگیا
تھا یعنی کان ناک کاٹ لیے گئے تھے اور پیٹ جگر کی جگہ سے چاک
کردیاگیاتھا،حضورﷺ نے اپنے چچا کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو سخت رنج ہوا،آپ
کی ہچکی لگ گئی،ابن ہشام نے لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:آپ بہت خیر
کاکام کرتے تھے اور بہت صلہ رحمی کرتے تھے،لوگوسن لو!واللہ میںآپ کے بدلے
مشرکین کے سترآدمیوںکاضرور مثلہ کروں گا۔تمہاری مثل کسی کو بھی ایسی مصیبت
نہیں پہنچی یعنی کوئی اس انداز پرقتل نہیںکیاگیا۔میں کسی ٹھہرنے کی جگہ
ہرگز نہیں ٹھہرا کہ میرے دل کو وہ جگہ زیادہ غیظ میں لانے والی ہے یعنی یہ
وہ جگہ ہے کہ میرے دل کو زیادہ غضب میں لارہی ہے۔اس سے زیادہ غضب میں لانے
والی جگہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوا۔چنانچہ آپ ﷺپر سورہ نحل کی آیتیں نازل
ہوئی۔ ترجمہ:اور تم سزادوتو ایسی ہی سزادوجیسی تمھیں تکلیف پہونچائی تھی
اور اگر تم صبر کرو تو بے شک صبروالوں کوصبر سب سے اچھا۔(پارہ14،سورہ
نحل،آیت126)۔چنانچہ آپ ﷺنے صبرکیا اور اپنی قسم کاکفارہ دیااور جو آپ نے
کیاتھا، اس سے رک گئے۔اس روایت سے چچاحمزہ رضی اللہ عنہ سے حضورﷺ کی محبت
کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ حتی کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے علاوہ حضور ﷺ کو اس قدر گریہ
وزاری کرتے ہوئے نہیں دیکھاگیا،آقاﷺ نے انھیں قبلہ کی جانب رکھا،پھر ان کے
جنازہ کے پاس آپ کھڑے ہوئے اورآپ فرماتے تھے:”یاحمزہ!یا عم رسول ﷺ اسداللہ
واسد رسولہ۔یاحمزہ یافاعل الخیرات۔یاحمزہ یاکاشف الکریات۔یاحمزہ یاذایاعن
وجد رسول اللہ!“
دین اسلام کی خاطر عظیم قربانی:راہ خدا میں شہید ہوناجہاں بڑی فضیلت ہے وہی
یہ بڑی قربانی بھی ہے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرماکر راہ
اسلام میں بڑی قربانی تو پیش کیں مگر شہادت کے بعد بھی آپ ﷺ کے چچانے اور
بھی کئی قربانیاں دیں جیسے آپ کامثلہ کیاگیا اور حضرت خباب بن ارث رضی اللہ
عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے کفن کے لیے سیاہ دھاریوںوالی
چادرجوچھوٹی تھی اس کے سواکچھ نہ مل سکا،اس سے جب سرڈھکاجاتاتوپیرکھل جاتے
تھے اور پیرڈھکاجاتاتوسرکھل جاتاتھا۔آخر میں اس چادر سے آپ کا سرڈھکاگیااور
پیرپراذخرگھاس ڈالی گئی،معلوم رہے کہ اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے جو عرب
میںپائی جاتی ہے۔
جناب وحشی کا قبول اسلام:ایک شخص نے وحشی سے کہاکہ نبی کریمﷺکسی ایسے شخص
کو ہرگز قتل نہیں کرتے جودین اسلام کو قبول کرلے۔چنانچہ جناب وحشی مدینہ
منورہ میں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے،داعی حق ﷺ نے اپنے بہادر اور ازحدعزیز
چچا کے قاتل کواپنے قابو میںپانے کے بعد فرط غضب سے اس کے پرکھچے اڑانے
کاحکم نہیںدیابلکہ حضور پر نورﷺکی زبان اقدس سے وہی بات نکلی جو ہادی برحق
کی شان رفیع کے شایاںتھی،فرمایا:اسے رہنے دواسے کچھ نہ کہو،ایک آدمی کامشرف
بااسلام ہوجانامجھے اس بات سے بہت عزیز ہے کہ میں ایک ہزار کفار کو تہ تیغ
کرودں۔
نتیجہ:اسلام ہم تک بڑی مشقتوں اور تکلیفوں کے ساتھ پہونچاہے،اس کی تبلیغ
واشاعت کے لیے ہمیں بھی قربانی دینی چاہئے مگر افسوس!آج جتنا نقصان اسلام
کو اسلام کے ماننے والے پہنچا رہے ہیںشایدہی کوئی دوسرا پہنچا رہاہوگا،ہمیں
ایک عزم کرنا ہوگا کہ ہم شمع اسلام کی تابناکی کوبڑھانے کے لیے صبح قیامت
تک کوشش کرتے رہینگے اگر ہم سے دین کی خاطرخواہ خدمت نہیں ہوپاتی تو کم از
کم اتنا ضرور عہد کریں کہ ہم ہر اس کام سے بچے گے جو اسلام کی بدنامی کا
باعث ہو۔
(ماخوذ:ضیاءالنبی ﷺاز:علامہ پیرکرم شاہ ازہری ،ج۳،ص489،مواہب
اللدنیہ،ج۱،ص277،سیرت مصطفیﷺ،ص522،سیرت رسول اکرم ﷺ،ص185)
بے شک آپ کی ذات بڑی شجاع و بہادر اور پیکر استقامت تھی آپ نے اسلام کے چمن
کی آبیاری اپنے مبارک لہو سے کی
ان کے آگے وہ حمزہ کی جاں بازیاں
شیر غرّانِ سطوت پہ لاکھوں سلام |