دنیا میں کتنے خوش نصیب ہیں
جنہیں تایا جی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کچھ ایسے تائے ہیں جو اس منصب سے
عاجز آچکے ہیں اور کتنے ہیں جو اس منصب کو اعزاز سمجھتے ہوئے اس کے تقاضے
پورے کرتے رہتے ہیں۔ جو اس منصب یا رشتے سے عاجز آچکے ہیں وہ تو اس کا نام
تک نہیں سننا چاہتے تاہم جو اسے اعزاز سمجھتے ہیں وہ اس لقب سے مسرور اور
لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہر ایک تائے کے اپنے، اپنے حالات اور حوادث ہیں، جن کی
بناءپر ان کے رائے قائم ہوتی ہے۔
ہمارے تایا جی محمد انور خان عباسی صاحب انور عباسی کے نام سے پہچانے جاتے
ہیں۔ نیلہ بٹ، دھیرکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نیلہ بٹ سے موسوم برکات اور
کرامات سے یکسر انکاری ہیں۔آپ کا مسکن نیلابٹ یادگارسے متصل ہے لیکن وہ آج
تک یہاں منعقد ہونے والی تقاریب ”یوم نیلہ بٹ“ میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کے
پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہمیں پورا یقین ہے کہ نیلہ بٹ کے بارے میں ان کی رائے
زیادہ مقدم ہے، سو ہم بھی ان کی طرح یوم نیلہ بٹ سے موسوم من گھڑت کہانیوں
پر اعتبار نہیں کرتے۔ جو حقائق ہیں ان سے انکار کوئی نہیںلیکن زیب داستان
کو جس قدر بڑھایا گیا ہے وہ ناقابل اعتبار ہے۔ پہلی گولی چلانے والی جتنی
بندوقیں آج تک تحفے میں دی گئی ہیں، اتنی تو اس دور میں اس خطے میں میسر ہی
نہ تھیں۔
آج کے کالم کو تاریخ اور اس کی صحت کے بجائے صرف اپنے تایا جی تک محدود
رکھتے ہیں۔ ہمارے تایا جی نے زندگی کا بیشتر حصہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے
گزارا۔ آپ وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ اپنے مطالعے کی بناءپر وہ مذہب
سمیت زندگی کے ہر ایک معاملے میں اپنی منفرد رائے رکھتے ہیں۔ حنفی ہونے کے
باوجود تقلید جامد سے یکسر انکاری ہیں۔ بہت سے امور میں فقہ حنفی پر عمل
پیرا ہیں اور بہت سے معاملات میں وہ مختلف رائے کے حامل ہیں۔ اسلامی معیشت
ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ مطالعے کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے
کہ انہوں نے امام ابواعلیٰ مودودیؒ کی تمام تصانیف کا کئی بار مطالعہ کر
رکھا ہے اور اشاریہ مطبوعات مودودیؒ کے مصنف بھی ہیں۔ سید مودودی ؒ کی فکر
سے تعلق رکھنے کے باوجود کئی ایک امور میں وہ ان سے بھی اختلاف رکھتے
ہیں۔یہی ان کی شخصیت کا حسن ہے۔
1988ءمیں سعودی عرب میں ملازمت سے فارغ ہوکر اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں
اور تقریبا اسی دور سے ہماری نیازمندی بھی ہے۔ پہلا تعلق تو استاد شاگرد کا
تھا۔ ہم ان سے سیکھتے تھے اور وہ ہماری تربیت کرتے تھے۔رفتہ رفتہ یہ تعلق
دوستی میں بدلااور عصری نشستوں میں تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ بعض معاملات میں
وہ ہمیں اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب رہے اور کچھ امور میں ہم ان سے اتفاق
نہ کرسکے، اس میں بھی ہماری کم علمی آڑے آ رہی ہے۔ بہت سارے امور میں عدم
اتفاق کے باوجود ہمارا ذاتی تعلق دن بدن مضبوط تر ہوتا گیا اور وہ ہمارے
مربی اور دوست کے بجائے تایا جی قرار پائے۔ الحمدللہ وہ اس تعلق پر نازاں
ہیں اور روزانہ جب میں ای میل پر انہیں تایا جی سے پکارتا ہوں تو وہ اس سے
لطف اندوز ہوتے ہیں۔
حقیقی تائے کی طرح میری غلطیوں کی نشاندہی فرماتے ہیں اور اگر کوئی اچھا
کام ہوجائے تو حوصلہ افزائی میں بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔سعودی عرب
میں ایک ملٹی نیشنل بنک میں ملازمت کرنے کی وجہ سے ان کی عادات میں وقت
پابندی کا عنصر غالب ہے۔ ہمارے ہاں اس کا اطلاق مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس
کوتاہی پر اکثر ان سے ڈانٹ کھانا پڑتی ہے، اس میں بھی شفقت کی مٹھاس نمایاں
ہوتی ہے۔انہوں نے میری شادی کے موقعہ پر ایک وال کلاک تحفے میں دی اور اس
پر لکھا کہ وقت کے ہر سیکنڈ کی قدر کرو۔
ہمارے تایا جی اعلیٰ علمی ذوق کے باوجود جاہل سے جاہل انسان سے بھی بخوشی
دوستی رکھتے ہیں۔ جو انسان بھی ان سے ملے وہ ان کی شخصیت کے جادو میں
گرفتار ہو جاتا ہے۔ مجھے اچھی یاد نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی
اور یہ تعلق کس طرح قربت میں بدلتا گیا، حالانکہ عمر، علم، تجربے، اخلاقی
اقدار، سماجی مقام و مرتبے کے اعتبار سے وہ ہم سے بہت بلند تر تھے۔ اس کے
باوجود انہوں نے ہمیں اپنے دامن شفقت میں جگہ دی اور پھر گزشتہ 24 سالوں سے
مسلسل وہ ہماری انگلی پکڑ کر راہنمائی فرمارہے ہیں۔ ان کا یہ تعلق مجھ تک
محدود نہیں بلکہ ان سے ملنے جلنے والا ہر فرد میری طرح ہی نیازمندی کا
اظہار کرتا ہے اور ان کی شفقت بھی سب کے لیے یکساں ہے۔ ان کے حلقہ احباب
میں ہر عمر، ہر علاقے، ہرنسل اور ہر مسلک کے افراد شامل ہیں۔جنریش گیپ،
علمی گیپ، علاقائی تعلق اور فرقہ وارنہ اور سیاسی اختلاف سمیت کوئی بھی شے
ان کے ہاں حائل نہیں ہوتی۔
1988ءسے اب تک جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو یہی فرماتے ہیں کہ شامی کباب
آپ کے منتظر ہیں، یعنی ہم ان کے گھر حاضر ہوں اور شامی کباب سے لطف
اٹھائیں۔ہمارے تایا جی کو دیسی مرغ، سبز مرچ اور شامی کباب مرغوب ہیں۔ جیسے
ہم ان کے بہت سے افکار کو نہیں سمجھ پائے اسی طرح سبز مرچ کے بھی عادی نہیں
ہوسکے ، البتہ دیسی مرغ اور شامی کباب کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں۔
میں خود بھی الحمدللہ درجن بھر بچوں کا تایا ہوں لیکن اپنے تایا جی جیسا
نہیں بن سکا اور کوشش کے باوجود نہیں بن سکوں گا۔میرے علاوہ بھی وہ کئی اور
دوستوں کے تایا ہیں، جن میں ظفراللہ ثاقب اور راجہ خلیل باالخصوص شامل
ہیں۔یہ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ جو دوست اپنے ابا کی بات نہیں مانتے وہ تایا
جی کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی شخصیت کا جادو اور کیا
ہوسکتا ہے۔یہ بھی کتنا حسین اتفاق ہے کہ ایک عباسی بابا کے بھتیجوں میں ایک
گوجر، ایک سدھن اور ایک راجہ شامل ہیں۔بابا غلطی سے لکھ دیا ہے، وہ خود کو
بابا اور بزرگ ماننے پر آج تک تیار نہیں ہوئے۔ انہیں ان الفاظ سے چڑ ہے، سو
میں یہ الفاظ اسی سطر میں واپس لیتا ہوں۔
میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کا تایا سب کو عطا فرمائے اور ہمارے
تایا جی کا سایہ تا ابد قائم اور دائم رکھے۔ |