ملک کی راجدھانی دہلی میں تقریبا
پانچ لاکھ چھ ہزار 500 سے زائد مکان خالی پڑے ہیں جہاں کوئی نہیں رہتا
مکان انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اس کے بغیر انسان کا جینا دوبھر ہے۔یہ ایسی
جگہ ہے جہاں کسی شخص کے اور اسکے گھرانے کے رہنے، سونے، آرام کرنے، کھانہ
پکانے، نہانے اور ملنے جلنے کا بندوبست ہوتا ہے ۔مکان انسان کیلئے اس قدر
ضروری چیزہے کہ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وہ کہیں بھی
ہو وہ اپنے مکان میں آنا چاہتا ہے۔ یہ ایک عام انسان کی پناہ گاہ ہے۔مکان
انسان کی شخصیت کا عکس بھی ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کو بناتا بھی ہے۔مکان
ملک کی شہر کی یا قصبہ کی بنیادی اکائی ہے۔مکان ہمیشہ سے انسان کے لیے اہم
رہا ہے۔جن کے پاس مکان نہیں ہوتا وہ ہر وقت اسے حاصل کرنے کی جستجو میں لگے
رہتے ہیں ۔اس لئے ابراہم ایچ میزلو نے گھر کو انسان کی بنیادی ضرورت قرار
دیا ہے۔ لوگ گھریا مکان اس لئے بنواتے ہیں کہ وہ اس میں خوش و خرم رہیں اور
نھیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو لیکن ملک کی راجدھانی دہلی میں تقریبا پانچ
لاکھ چھ ہزار 500 سے زائد مکان خالی پڑے ہیں جہاں کوئی نہیں رہتا ۔
ان خالی پڑے مکانوں میں کسی کے نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ اس میں الو ﺅں کا
بسیرا ہو گیاہے۔ بعض مکانات تو کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بعض غنڈوں اور
اوباشوں کی آماجگاہ بن گئے ہیں بلکہ رات ہوتے ہوتے یہ مکان شرابیوں اور غیر
سماجی عناصر کا محفوظ ٹھکانا بن جاتے ہیں۔کئی جگہ تو کوئی نگہبان نہ ہونے
کی وجہ سے یہ مکانات غلاظت خانہ میںتبدیل ہوچکے ہیںیاپھر غیر سماجی
سرگرمیوں کا اڈہ بن گئے ہیں۔ گندگی اور تعفن کی وجہ سے گشت کرنے والے پولیس
اہلکار ان کی طرف جھانکتے تک نہیں ہیں۔اس سلسلہ میں کئی جگہوں سے اس قسم کی
بھی خبریں بھی سننے کو ملی ہیں کہ ان کی بنیاد کمزور ہو چکی ہیں اور کبھی
بھی یہ حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مرکزی وزارت برائے رہائش اور خاتمہ ¿
غربت کی طرف سے 12 ویں پنچ سالہ منصوبے (سال 2012-17) کےلئے تشکیل تکنیکی
گروپ کی رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے باضابطہ طور پر کماری شےلجا نے یہ بات کہی
ہے ۔ اس خبرکو پڑھتے ہی مجھے پروین شاکر کا ایک شعر یاد آ گیا
عجب مکاں ہے کہ جس میں مکیں نہیں آتا
حدودِ شہر میں کیا دل کہیں نہیں آتا
پروین شاکر اگر زندہ ہوتیں تو ہم انھیں بتاتے کہ شہروں کے لوگ اتنے زندہ
اور فراخ دل ہوتے تو اسی دہلی میںہزاروں افراد بے گھر نہیں ہوتے اور یہ بھی
کہ اسی سر زمین دہلی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد نفوس یونہی بغیر چھت کے اپنی
زندگی نہ گذار رہے ہوتے۔صحیح معنوں میں اسے المیہ ہی سے تعبیر کیا جائے گا
کہ ملک کی راجدھانی میں پانچ لاکھ چھ ہزار پانچ سو مکانات خالی پڑے ہیں۔ یہ
ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ حکومتی اعداد و شمار ہی یہ باتیں ظاہر کر رہی ہے۔
یقین نہ آئے تو مردم شماری 2011کی رپورٹ کو دیکھ لیجئے جس میں بتایا گیا ہے
کہ دہلی کی ایک فیصد آبادی بے گھر ہے۔یہاں یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ
ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہے، جوکہیں رکشہ یا فٹ پاتھ پر رات گزارتے ہیں،
جھگیوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، کہیں پلاسٹک شیڈ کے نیچے اپنا دن
کاٹتے ہیںیاپھر کہیں درختوں کی چھاؤں میں یافٹ پاتھ پر جاڑا، گرمی، برسات
میںشب بسری کرتے ہیں اور وہ حکومت کی تجاہل عارفانہ کے سبب در در کی ٹھوکر
کھاتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یہ محض کوئی تخمینہ یا
اندازہ کی بات نہیں ہے بلکہ وزیر محترمہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دہلی میں 4
لاکھ 90 ہزار مکانوں کی کمی ہے ،جبکہ 2011کے مردم شماری محکمہ کی مانیں تو
دہلی میں کل 46 لاکھ 5 ہزار مکانوں کی گنتی کی گئی تھی جو مردم شماری مکان
کہا جاتا ہے۔ اس میں سے 11.1 فیصدمکان خالی پائے گئے تھے۔مردم شماری کے
دوران خالی ملنے والے مکانوں سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ تمام رہائشی مکان
ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ دکانیں ہوں یا ایسا ڈھانچہ ہو، جہاں رہا
نہیں جا سکتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دہلی جیسے بڑے شہر میں لوگوں کے
پاس کئی کئی مکان ہیں اور وہ خالی پڑے ہیں۔
اس بابت تکنیکی گروپ جس نے یہ رپورٹ مرتب کی ہے کے صدر پروفیسرامیتابھ نے
بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مکانات پرائیویٹ بلڈر
اور پراپرٹی ڈیلروں کے پاس ہیں۔ اگر ان مکانوں کو استعمال میں لایا جائے تو
مکانوں کی کمی کو کافی حد تک دور کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے انھوں نے ایسے
مکان مالکان پر بھاری ٹیکس لگانے کی تجویز رکھی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل
ذکر ہے جس کو وزیر کماری شےلجا نے بھی تسلیم کیااور کہا کہ کچھ خامیوں کی
وجہ سے راجیو رہائش منصوبہ کے تحت دہلی میں 14 ہزار سے زیادہ مکانات بن تو
گئے، لیکن ان میں تقریباً تمام مکانات خالی ہیں، حکومت ان خامیوں کو دور
کرے گی۔انہوں نے جھگی بستیوں کی جگہ پر ہی فلیٹ بنانے کی دہلی ڈیویلپمنٹ
اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کی منصوبہ بندی کا بھی جائزہ لینے پر اتفاق ظاہر کیاہے
۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ دہلی حکومت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ حکومت
کرائے پر دینے کےلئے گھر بنائے گی۔جبکہ مذکورہ وزارت کے ذریعہ تشکیل تکنیکی
گروپ کے صدر امیتابھ کنڈو نے بھی یہ کہا کہ دہلی میں اقتصادی طور پر کمزور
(ای ڈبلیو ایس) و درج ذیل آمدنی طبقے (ایل آئی جی) کےلئے مکانوں کی کافی
کمی ہے، جبکہ حکومت فارم ہاؤس پالیسی بنا کر زمین کا بڑا حصہ ایک خاندان کو
دینے پر غور کر رہی ہے۔اس خبر کے آنے کے بعد ڈی ڈی اے نے اپنے تیور سخت
کرتے ہوئے کہا کہ یہ پوری طرح سے غلط ہے ۔ڈی ڈی اے نے مرکز کو بھیجی گئی
ایک تجویز میں کہا ہے کہ ایک ایکڑ کے فارم ہاؤس میں ایک خاندان کے رہنے
کےلئے مکان بنانے کی اجازت دی جائے، جبکہ ابھی تین ایکڑ پر بنے فارم ہاؤس
میں صرف چوکیدار کے رہنے کا انتظام ہے۔
ڈی ڈی اے جو بھی کہے لیکن اس بات سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس
کی وجہ سے جہاں غریبوں بلکہ وسط درجہ کے لوگوں کو جن پریشانیوں کا سامنا کر
نا پڑتا ہے وہیں امیروں کی جیبیںمزید بھردی جاتی ہیںجس کی وجہ سے مافیا
مزید شہ زور ہو جاتے ہیں اور انھیں اپنی من مانی کر نے کا موقع مل جاتا ہے۔
اس کااندازہ کسی کوہویانہ ہو غریبوں کو ضرور ہے حالانکہ یہ صرف غریبوں یا
بے گھر افراد کےلئے محض پریشانیوں کی ہی بات نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے
جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ان میں سے بعض جگہیں تو ایسی بھی ہیں
جن کے مکان مالکان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔کچھ لوگ کہیں دوسری جگہ شفٹ ہو
گئے لیکن انھوں نے مکان نہ تو کرائے پر دئے اور نہ ہی فروخت کیا ان میں سے
بہتیرے مکانات تو سرکاری ہیں جسے سرکار نے کئی منصوبوں کے تحت بنوایا لیکن
منصفانہ طور پر نہ تو اس کی تقسیم عمل میں آئی اور نہ ہی وہ افراد جن کے
نام پر یہ مکانات تعمیر کئے گئے تھے حوالہ کئے گئے ۔
اس معاملہ کولے کرحالانکہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ باتیں بھی کہی جا رہی
ہیں کہ جو ان گھروں کے مالک ہیں انہیں گھروں کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ان کے
پاس پہلے سے ہی ضروریات سے کہیں زیادہ جگہ یا گھرموجود ہے۔ جو حصہ ضرورت سے
زیادہ ہے، وہ کرایہ داروں سے بھرا ہے اور شہروں میں مکانوں کے کرائے کی شرح
بھی اتنی زیادہ ہے کہ عام طور پر ہر کرایہ دار دس سال میں ہی اس رہائشی حصے
کی قیمت ادا کر دیتا ہے جو اس کے پاس کرائے پر ہے ۔ وہ مکان نہیں خرید سکتا
کیونکہ اس کے پاس مکان کی یکمشت قیمت ادا کرنے کے لئے کافی رقم نہیں ہے ۔
اس لیے جن کے پاس پیسہ ہے، بلیک منی ہے، وہ اسے پراپرٹی میں لگا کر مستقل
اسٹیٹ میں تبدیل کر رہے ہیں۔ چالیس لاکھ کے مکانات کی خرید 5 لاکھ دکھادی
جاتی ہے، یعنی 35 لاکھ روپیہ دو نمبر میں ادا کیا جاتا ہے ۔
شاید اسی وجہ سے وہ ببانگ دہل یہ بات کہتے ہیں کہ اب کیا کر لیں گے انکم
ٹیکس والے؟ کالی کمائی کو چھپانے کا اس سے بہتر طریقہ اور بھلا کیا ہو سکتا
ہے؟اتنا ہی نہیں سرکاری نیم سرکاری رہائشی اداروں اور شہری ترقی اتھارٹیوں
کی عمارات اور زمینوں کے الاٹمنٹ میں سرکاری مشینری اپنی جیبیں گرم کرنے کا
جو کھیل کھیلتی رہی ہے، اس سے ان لوگوں کےلئے منصوبے بنائی گئی تھیں، انکا
شاید ہی بھلا ہو سکا ہو، لیکن با اثر اور کالی کمائی والوں نے ایک ہی ادارے
سے تین تین، چارچار مکان حاصل کر لئے ۔ خاندان میں چارفراد اور چاروں کے
نام پر الگ الگ مکان۔ کہیں تو ایک ہی نام پر تین تین مکان اور وہ بھی ایک
ہی شہر میں، ایک ہی تنظیم کی طرف سے الاٹ کرا لئے گئے، جب کہ انہوں نے
یقینا درخواست کے ساتھ یہ حلف نامہ داخل کیاہی ہوگاکہ شہر میں ان کے نام سے
کوئی اور رہائش نہیں ہے ۔اس بد عنوانی کے معاملہ میں ترقی اتھارٹیوں کے
افسروں سے لے کر چپراسی تک نے خوب کالی کمائی کی تو شہروں میں تعینات
لےکپال راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ۔دہلی میونسپل کارپوریشن سے لے کر لکھنو
ترقیاتی اتھارٹی کے بابوؤ کی کرتوت پر مبنی خبریں اخباروں میں کئی مرتبہ
شائع بھی ہوئیں اور ہوا بس یہ کہ نظام بدلا تو اتھارٹی کے بڑے افسر کو وہاں
سے ہٹا کر کسی دوسری پوسٹ پر بٹھا دیا گیا ۔
حکومت نے اگر اس پر جلد نوٹس نہ لی تو معاملہ اور بھی بد سے بدتر ہوگا
حکومت کو پہلی فرصت میں اس پر کچھ نہ کچھ کاروائی کرنی چاہئے ۔اس سلسلہ میں
ایک کام کرنے کا یہ بھی ہے کہ اولین فرصت میں حکومت ان خالی پڑے مکانات کو
الاٹ کر نے کے لئے اقدامات کرے کیونکہ اس سے ڈھیر سارے مسائل خود بخود حل
ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ اگر ان مقفل گھروں کو آباد کر دیا جائے اور اوسط
فی چھ ارکان پر مشتمل خاندان کو ایک چھت فراہم کر ادی جائے تولاکھوں لوگوں
کو اپنا گھر فراہم کیا جا سکتا ہے، یعنی پھر کسی کو نہیں سونا پڑے گا کھلے
آسمان کے نیچے ،پھر شاید حکومتوں اور ترقی اتھارٹیوں کو بے گھر لوگوں کےلئے
نئے گھر بنانے، ان کےلئے بجٹ حاصل کرنے اور زمینیں تلاش کرنے کی جدوجہد بھی
نہیں کرنی پڑے گی اور وہ پیسہ جو رہائشی منصوبوں میں خرچ کرنا پڑرہا ہے،
ترقی کے دیگر ضروری منصوبوں، شہری سہولیات کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جا
سکتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ حکومت اور ملک کے نظام میں ایسا کرنے کیلئے قوت ارادی
کی کمی ہے، نہیں تو محض ایک منصوبہ، ایک آرڈیننس کے ذریعہ ملک کی سب سے بڑی
پریشانی کا فوراًحل ممکن ہے لیکن کیا کبھی ایسا ہوگا؟ہم یہ نہیں کہتے کہ بے
گھرو ںکو گھر مفت میں دے دئیے جائیں، ان سے گھروں کی قیمت لی جائے اور اسے
سہولت کے مطابق قسطوں میں وصول کیا جائے، اس سے وہ اپنی رہائش گاہ کی قیمت
اداکر سکیں گے ۔ ساتھ میں اپنے گھر والوں کی سہولت اور حفاظت کے تئیں
اعتماد بھی پیدا کرنے میں کامیاب ہونگے۔اس سے وہ زیادہ دیر تک، زیادہ کام
کر سکیں گے،زیادہ کما سکیں گے اور اپنا خود کا گھر ہونے کا خواب شرمندہ
تعبیر کرنے کے لئے گھر کی قیمت ادا کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ تب شاید
جرائم کا گراف بھی گرے گا کیونکہ مجرموں کے جرائم کے مواقع گھٹیں گے اور
حکومتوں کا قانون اور ا نتظام کوبرقرار رکھنے کا بھاری بوجھ بھی کم ہوگا۔ |