اگر آپ کو یہ پتہ ہو کہ آپ کی
زندگی کی قیمت صرف پچاس روپے ہے تو کیا آپ اسے دائو پر لگانا پسند
کرینگے-نہیں کوئی بھی ہوش مند شخص کیا پاگل بھی صرف پچاس روپے میں اپنی
زندگی کو داؤ پر نہیں لگائے گالیکن بم ڈسپوزل یونٹ کا انچارج انسپکٹر حکم
خان اپنے ساتھیوں سمیت پولیس کے وہ لوگ ہیں جن کی خدمات سنہرے حروف سے لکھے
جانے کے قابل ہے-صحافیوں کیساتھ ساتھ بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں کی بھی
عجیب سی زندگی ہے جہاں پر بم دھماکہ ہوتا ہے وہاں سے لوگ دور بھاگتے ہیں
جبکہ ہماری طرح بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکار اسی جگہ بھاگتے ہیں تاکہ
خدانخواستہ کوئی دوسرا دھماکہ نہ ہو یا پھر تحقیقات کیلئے انہیں بلایا جاتا
ہے- انسپکٹر حکم خان گذشتہ روز فرنٹیئر روڈ پر بم کو ناکارہ بناتے ہوئے
شہید ہوگیا شرپسندوں نے باڑہ شیخان میں فرنٹئیر روڈ پر دو بم نصب کر رکھے
تھے ۔ حکم خان نے ایک بم ناکارہ بنا دیا تھا لیکن دوسرا بم اس کی موت کا
پروانہ بن گیا ۔بم ڈسپوزل اسکواڈکے انچارج حکم خان نے1986 میں معمولی عہدے
سے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ بم ناکارہ بنانے میں مہارت حاصل
کرنا حکم خان کا شوق تھا جس کی وجہ سے اسے بم ڈسپوزل اسکواڈ کا انچارج بنا
دیا گیا ۔حکم خان موت سے کھیلتے ہوئے سات سو سے زیادہ بم ناکارہ بنا
چکاتھا۔خیبر پختونخوا کے بم ڈسپوزل اسکواڈ میں چودہ ماہرین تھے جن میں سے
ایک ملاکنڈ میں بم ناکارہ بناتے ہوئے شہید ہو گیا تھا جبکہ اسکواڈ کے
انچارج حکم خان کی شہادت کے بعد اب اہلکاروں کی تعداد صرف بارہ رہ گئی -
گذشتہ چار سالوں سے بم دھماکوں کی کوریج کرتے ہوئے بم ڈسپوزل یونٹ کے حکم
خان سمیت بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں سے ایک قلبی تعلق سا بن گیا ہے پولیس
ڈیپارٹمنٹ میں شریف لوگوں کا واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے ممبران ہر وقت سر
ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے ہیںاور ان میں بیلٹ والوں کی طرح نخرہ اور بدمعاشی
نہیں ہوتی-
بم ڈسپوزل یونٹ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے انچارج حکم خان سمیت دیگر ساتھیوں
کے ہاتھوں کی انگلیاں بم دھماکوں میں اڑی ہوئی ہے - 2009 ء میں جب پہلی
مرتبہ ایک دھماکے کی کوریج کے دوران میں نے حکم خان کو تحقیقات کرتے ہوئے
دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیاں نہیں تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیسا ادارہ
ہے کہ معذور یہاں پر کام کررہے ہیں لیکن جب پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس
سکواڈ میں کام کرنے والے زیادہ تر اہلکار بموں کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنے
جسمانی اعضاء کھو بیٹھے ہیں اور یہ ان کی ہمت ہے کہ انگلیاں کٹ جانے کے
باوجود جانفشانی اور محنت سے کام کرتے ہیں دھماکے کی اطلاع ملتے ہی موقع پر
پہنچ کر تحقیقاتی عمل میں سب سے آگے ہوتے ہیں حالانکہ جس طرح عام لوگ کو
دکھ اور درد ہوتا ہے یہ لوگ بھی ہماری طرح ہوتے ہیں انہیں بھی دکھ درد ہوتا
ہے اور ان کے بھی رشتہ دار خاندان کے لوگ ہوتے ہیں لیکن اپنے کام سے لگن
اور قوم کی خاطر یہ لوگ ہر وقت اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ڈیوٹی کرتے ہیں-
انسپکٹر حکم خان کی شہادت نے جہاں بہت سارے لوگوں کو اداس کردیا ہے وہیں پر
ہماری صحافی برادری کے لوگ جو اس کیساتھ تعلق رکھتے تھے کو بھی غمزدہ کردیا
جب بھی کہیں پر کوئی دھماکہ ہوتا تو ہم لوگ حکم خان سے رابطہ کرتے اور
تفصیلات پوچھتے- حکم خان کو مرحوم لکھتے ہوئے دکھ ہورہا ہے کیونکہ اس کی
خوش اخلاقی اور ہنس مکھ چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے -کبھی اس نے
بدتہذیبی کیساتھ جواب نہیں دیانہ ہی معلومات دینے سے کبھی انکار کیا اپنے
ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ کوئی اور بھی ملتا تو انتہائی خوش اخلاقی سے ملتا - کئی
مرتبہ حکم خان سے بموں کے حوالے سے معلومات لیتے تو ہر قسم کے بموں کو
ناکارہ بنانے کے ماہر حکم خان انتہائی عاجزی سے بات کرتے اور کبھی بھی
اکیلے جواب نہیں دیتے بلکہ اپنے دیگر ساتھیوں کو شامل کرکے مشورہ کرکے بات
کرتے حالانکہ ان سے کئی جونئیر بھی تھے لیکن اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی
کرنا میں نے انسپکٹر حکم خان سے سیکھا-
تقریبا ایک سال قبل اسی سکواڈ کے اہلکاروں کو دھمکیاں ملی تھی جس کے بعد
اہلکاروں نے اپنے فون نمبر تبدیل کردئیے تھے جس کے بعد انسپکٹر حکم خان سے
رابطہ کچھ وقت کیلئے نہیں رہا لیکن ٹائون ون کے دفتر کے سامنے صبح سویرے
ہونے والے دھماکے کے کوریج کے دوران ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے گلہ کردیا
کہ فون نمبر تبدیل کیا ہے تو ہمیں تو بتا دیا کریں تو انسپکٹر حکم خان
مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ " ناراض مت ہو فون نمبر ابھی لو لیکن کچھ سیکورٹی
کا مسئلہ تھا اسی وجہ سے فون نمبر تبدیل کیا ہے اور تمھیں تکلیف ہوئی اس
کیلئے معذرت خواہ ہوں" یقین کرے اس کے جواب نے مجھے شرمند ہ کردیا کہ اتنے
بڑے عہدے کا مالک کتنے سادہ شخصیت کا مالک ہے - ہم لوگ دفاتر میں ٹائمنگ کی
ڈیوٹی کرتے ہیںیعنی آٹھ یا بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے لیکن میں نے حکم
خان سمیت بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں کوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہوئے دیکھا ہے
کئی مرتبہ حکم خان ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد دھماکے کی اطلاع پر موقع پر پہنچا
اور تحقیقات کی-سفید ٹوپی اور سفید کپڑوں میں عجیب سی شان بے نیازی سے
ڈیوٹی انجام دینے والے حکم خان وی آئی پی کی ڈیوٹی کے دوران بھی ہمیشہ ہر
کسی سے جھک کر ملا حالانکہ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب کہیں پروی
وی آئی پی کی آمد ہو تو بہت سارے لوگ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے لیکن یہ
خوبی بھی انسپکٹر حکم خان کی تھی کہ وہ ہمیشہ ہر کسی خواہ وہ بڑا ہو یا
چھوٹا ہرایک کو عزت دیتا-
لوگوں کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے بم ڈسپوزل یونٹ کے
اہلکاروں کو ماہانہ صرف پچاس روپے "خطرہ الائونس" کے ملتے ہیں کئی مرتبہ اس
بارے میں مختلف ساتھیوں سے بات کی جب بھی حکم خان سے اس سلسلے میں بات کی
تو اس نے کبھی شکوہ نہیں کیا - مرحوم کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی کئی
باتیں یاد آرہی ہیں لیکن انسپکٹر حکم خان کیلئے لکھے جانیوالے ان چند فقروں
میں اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انہیں نہیں پتہ کہ حکم
خان جیسے نڈ ر لوگوں کو ماہانہ پچاس روپے خطرہ الائونس ملتا ہے حالانکہ
انہی وی آئی پی کی ڈیوٹی کیلئے یہ لوگ جلسہ گاہوںمیں اپنی جانوں کو خطرے
میں ڈالتے ہیں-حکم خان تو شہید ہوگیا اب اس کیلئے حکمران کچھ نہ کچھ اعلان
تو کرینگے - ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو زندہ لوگوں کی زندہ درگور کرنے کے
عادی ہے اور جب لوگ مر جاتے ہیں تو پھر ان کی یادمیں پروگرام بہت کرتے ہیں
اور انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں-کیا قوم کیلئے اپنی زندگیاں
خطرے میں ڈالنے والے حکم خان جیسے دیگر اہلکاروں کی خطرہ الائونس بڑھ نہیں
سکتی-دیگر صوبوں میں ہزاروں روپے ان لوگوں کو خطرہ الائونس کی مد میں دئیے
جاتے ہیں کاش " لالٹین "کے دور میں بھیجنے والے حکمران قوم کیلئے زندگیاں
قربان کرنے والوں کیلئے کچھ کرسکے- |