مجسمے کی ناک

حضور! آپ نے شہر کے چوک میں خداوند یسوع مسیح کا مجسمہ تو دیکھا ہوگا؟‘‘ مصری عیسائیوں کے وفد کے سربراہ بشپ نے والئی مصر عمروبن عاصؓ سے کہا۔
’’جی بارہا دیکھا ہے، کیوں کیا ہوا اسے؟‘‘ حضرت عمروبن عاصؓ نے حیرانی سے استفسار کیا۔
’’کل رات کسی نے اُس کی ناک اُڑا دی اور ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی مسیحی نہیں کر سکتا۔‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ کس نے کیا ہوگا؟‘‘

’’ہمیں یقین ہے کہ یہ کام کسی مسلمان نے ہی کیا ہے کیونکہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ایسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا۔‘‘
’’ممکن ہے کہ یہ کام کسی مسلمان نے کیا ہو کیونکہ اسلام بتوں کی پوجا کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی قرآنی اصولوں کے خلاف ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے معبُودوں کی تضحیک اور ہتک کی جائے۔ مجھے اس واردات پر افسوس ہے۔ آپ اس کی مرمت کروالیں۔ مرمت کے اخراجات سرکاری خزانے سے آپ کو ادا کر دیے جائیں گے۔‘‘ والئی مصر نے مسیحی وفد کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں حضور! اب اس کی مرمت نہیں ہوسکتی کیونکہ کٹی ناک ہمارے پاس نہیں اور موجود ہو بھی تو اسے جوڑنا ممکن نہیں۔ لیکن ہم تو آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہم اپنے مذہبی شعار کی توہین کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔‘‘ مسیحی بشپ کے مطالبے کی تائید میں سارے ارکانِ وفد نے سر ہلائے۔

’’اچھا آپ تاوان مقرر کردیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا مقررکردہ تاوان آپ کو ادا کردیا جائے گا۔‘‘

’’حضور! ہم یسوع کو خدا کا بیٹا اور خدا مانتے ہیں۔ اتنی بڑی توہین کا بدلہ چنددرہموں میں کیسے چکایا جا سکتا ہے۔ البتہ ایک صورت ہے اگر آپ منظور فرمالیں تو…‘‘

’’وہ کیا صورت ہے؟‘‘ والئی مصر پوری طرح ہمہ تن متوجہ تھے۔

بشپ نے دیگر ارکانِ وفد پر نظر ڈالی اور گویا ہوا:
’’وہ یہ ہے کہ آپ اپنے رسول محمدﷺ کا ایسا ہی بت بنوائیں اور ہم اسی طرح اس…‘‘ ’’خاموش اے گستاخ!‘‘ والئی مصر کا جلال ان کی آواز اور چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا۔ ان کا ہاتھ تلوار کی طرف بڑھا اور جسم تھرتھرانے لگا۔ مسیحی وفد کے اراکین ان کی اس حالتِ غضب کو دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ شاید ابھی ان کے سر ان کے تن سے جُدا کر دیے جائیں گے۔ آج انہوں نے پہلی بار مسلمان سپہ سالار کو غصے کی حالت میں دیکھا تھا۔

حضرت عمرؓ کے عہدِخلافت میں جب سے مسلمان مصر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے، اہلِ مصر اپنی عیسائی حکومت کی نسبت مسلمانوں کی حکومت کو اپنے لیے زیادہ مہربان سرپرست کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔
وہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک سے حددرجہ متاثر تھے کیونکہ انہوں نے عیسائیوں کو پوری مذہبی آزادی دی ہوئی تھی۔

آج صبح عیسائیوں نے یسوع مسیح کے مجسمے کی یہ درگت بنی دیکھی تو ان کے درمیان سنسنی پھیل گئی۔ ان کے جذبات میں ایک اشتعال تھا۔ ان کے مذہبی قائدین نے اس مسئلے کی فریاد والئی مصر حضرت عمروبن عاصؓ سے کی تھی۔

’’تم لوگ انتہائی گستاخ اور سخت بدتہذیب ہو، دل تو چاہتا ہے کہ تمہارے جسموں سے تمہاری گردنوں کا بوجھ اُتار دیا جائے۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم اپنے آقا حضرت محمدﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ہمارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے، ہمارے سامنے ہماری اولاد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں، خود ہمارے جسم کا آخری قطرۂ خون بہا دیا جائے، یہ سب ہمیں قبول ہے لیکن یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ کوئی خفیف سا کلمہ بھی آقا محمدﷺ کی شان کے خلاف سنیں۔ تم نے یہ نازیبا فقرہ بول کر ہمارا دل دکھایا ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ہم لوگ بت پرست نہیں اور نہ ہی بتوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس بات کا تو گمان بھی نہیں کر سکتے کہ ہم اپنے آقاؐ کا مجسمہ بنائیں۔ تمہارا یہ مطالبہ انتہائی لغو ہے۔ تم اس قابل نہیں کہ تم سے بات کی جائے لیکن تمہاری اس جہالت کے باعث تمہیں یہ رعایت دی جاتی ہے کہ اس نامعقول مطالبے کے علاوہ انصاف کی کوئی اور صورت ہو و پیش کرو جس سے تمہارے مذہبی جذبات کی شکستگی کا مداوا ہوسکے۔‘‘

عمروؓبن عاص یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ انہوں نے وفد کے اراکین پہ نظر ڈالی جو ابھی تک خوف و دہشت کی وجہ سے مبہوت بیٹھے تھے کہ فاتح لشکر کا سالار نہ جانے ان کے لیے کیا سزا تجویز کرتا ہے۔ بالآخر والئی مصر نے مہرِسکوت توڑی اور گویا ہوئے۔ ’’جس بت کو تم مقدس سمجھتے ہو، اس کی توہین سے یقینا تمہیں رنج ہوا ہے، مجھے تمہارے جذبات کا پورا احساس ہے لیکن حضورﷺ کا بت بنا کر اس کی ناک اُڑانے سے بہتر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تم ہم میں سے کسی ایک کی ناک کاٹو۔ اپنی رعایا کو انصاف مہیا کرنا ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘

اہلِ مصر کا وفد حیران و پریشان سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر سکوت رہا اور بالآخر بشپ نے نہایت لجاجت سے کہا:
’’حضور ہمیں افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ ہمیں اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آپ اپنے نبیﷺ سے اس قدر محبت کرتے ہیں۔ ہمیں آپ کی پیش کردہ تجویز منظور ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ والئی مصر نے ہامی بھرتے ہوئے کہا ’’تم شہر میں منادی کروا دو کہ کل عوام الناس شہر کے بڑے میدان میں جمع ہوجائیں۔ یہ کام سب کے سامنے کیا جائے گا تاکہ آیندہ کسی کو کسی کے مذہبی شعائر کی توہین کی جرأت نہ ہو۔‘‘

دوسرے دن شہر کے بڑے میدان میں ہزاروں شہری جمع تھے۔ اسلامی سپاہ بھی موجود تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔ کچھ دیر بعد والئی مصر گھوڑے پر سوار آ پہنچے۔ انہوں نے عیسائی بطریق اعظم کے پاس کھڑے ہو کر سپاہِ اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’آپ لوگوں کو شاید خبر نہ ہو کہ ہم یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پرسوں رات کسی آدمی نے چوک میں رکھے حضرت عیسیٰ ؑ کے مجسمے کی ناک کاٹ دی ہے۔ مسیحی وفد نے ہم سے اس بات کی شکایت کی اور کہا کہ کوئی مسیحی اس بات کا تصور نہیں کر سکتا، یہ حرکت ضرور کسی مسلمان کی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر والئی مصر نے چند لمحے کے لیے توقف کیا، مسیحی عوام کے مجمع پر نظر ڈالی اور پھر مسلم سپاہ کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے:

’’مسلمانو! بت پرستی اور بت گری اگرچہ اسلام میں حرام ہے لیکن اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ آپ دوسروں کے مذہبی شعائر کی توہین کریں۔ اسلام ہمیں غیرقوموں سے بھی جس عدل و انصاف کا درس دیتا ہے اس کے پیشِ نظر ہم میں یہ معاملہ طے پایا ہے کہ اہلِ شہر اسلامی سپاہ کے جس آدمی پر بھی شک کا اظہار کریں، اس کی ناک کاٹ لی جائے لہٰذا آپ میں سے جس آدمی کا وہ مطالبہ کریں، وہ آگے آجائے۔‘‘

کچھ دیر مجمع میں لوگوں کے آہستہ آہستہ بولنے کی بھنبھناہٹ سی سنائی دی۔ مسیحی بطریق اعظم جو والئی مصر کے قریب ہی کھڑا تھا، آہستہ آہستہ اسلامی سپاہ کی طرف بڑھنے لگا۔

’’ٹھہریے! سالارِلشکر نے بطریق اعظم کو ٹھہرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ میں اسلامی سپاہ کا سالار ہوں اور اس حیثیت سے اس شہر کا حاکم بھی۔ میں نے ہی اہلِ شہر کو اپنے ہاتھ سے امان نامہ لکھ کردیا ہے۔ میری موجودگی میں کسی کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے تو میں اس کا ذمے دار ہوں، اس لیے اس کا نتیجہ بھی مجھے بھگتنا چاہیے، یہ تلوار حاضر ہے۔ آپ اس سے میری ناک کاٹ سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عمرو بن عاصؓ نے اپنی تلوار بطریق اعظم کی طرف بڑھا دی۔

مصری عوام کا جمِ غفیر فاتح لشکر کے سالار کو مفتوح قوم کے مذہبی راہنما کے سامنے خود کو ملزم کی حیثیت سے پیش ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ساری فضاپر ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ حیرت زدہ بیٹھے لوگ عدل و انصاف کے اس پیکرِمجسم کو دیکھ رہے تھے جس کی جبینِ نیاز پر طمانیت کا آفتاب ضوفشاں تھا۔ اس سے پہلے کہ بطریق اعظم تلوار اٹھاتا، سپاہ اسلام میں سے ایک افسر آگے بڑھا اور کہنے لگا:

’’کیابدلے میں میری ناک نہیں کاٹی جاسکتی؟‘‘ابھی اس افسر کی پیشکش کااسے کوئی جواب نہیں ملاتھا کہ ایک اورافسر آگے بڑھا۔
’’سالارِلشکر کی جگہ میری ناک کاٹنے سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہو تو میں حاضر ہوں۔‘‘
سالارِلشکر نے ان افسران کی طرف کچھ کہنے کے لیے دیکھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ افسروں کو کوئی جواب دیتے، سپاہِ اسلامی کا ہر سپاہی آگے بڑھ کر کہنے لگا کہ اس ی ناک کاٹ لی جائے۔

’’تم سب اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔‘‘ عمروبن عاصؓ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بطریق اعظم حضرت عمروبن عاصؓ کی ناک کاٹنا چاہتا ہو۔
لوگ اسی ساکت و جامد حالت میں تھے کہ سپاہِ اسلامی کی ایک طرف سے ایک گھڑسوار اپنے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے اس جگہ کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا جہاں بطریق اعظم ہاتھ میں تلوار پکڑے گومگو کی کیفیت میں کھڑا تھا۔ دھول اڑاتا گھڑسوار بالآخر بطریق اعظم کے قریب آگیا۔ اس نے بطریق اعظم کے سامنے آ کر اپنے گھوڑے کی لگامیں اس زور سے کھینچیں کہ گھوڑا اپنی پچھلی ۲؍ ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ سوار نہایت پھرتی سے نیچے اترا اور بآوازِ بلند پکارا:
’’میں اصل مجرم ہوں اور یہ ہے مجسمے کی وہ ناک جو میں نے کاٹی تھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے پتھر کی تراشیدہ ناک بطریق کی طرف اچھال دی۔
’’انصاف کا تقاضا ہے کہ تم میری ناک کاٹو۔‘‘

عیسائیوں کے بڑے بڑے مذہبی عمائدین یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ مسلمان انسان ہیں یا فرشتے۔ چند لمحوں کے سکوت کے بعد بطریق اعظم تلوار لیے حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف بڑھا۔ چلتے چلتے سالار کے بالکل سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
’’خداوند یسوع کی قسم! تم لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کا کامل ترین نمونہ ہو۔ تم زمین پر آسمانی بادشاہت کا کامل انصاف مہیا کرنے والے ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے مجسمے کی ناک کاٹنا اگرچہ بہت بڑا ظلم تھا مگر اس غلطی کا تم سے بدلہ لینا اس سے بڑا ظلم ہوگا۔ لہٰذا قیام عدل کے لائق تلوار تمہارے ہاتھ میں ہی زیب دیتی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے تلوار حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف بڑھا دی۔ والئی لشکر نے جب اپنی تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑلی تو بطریق اعظم نے مسلمان سپاہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا:
’’کس قدر سچائی اور انصاف کا پیکر ہوگی وہ ہستی جس کے تم پیروکار ہو۔ کاش میں ان کے زمانے میں ہوتا اور اُن کے پاؤں دھو دھو کر پیتا۔ میں بطریقِ اعظم کی حیثیت سے اہلِ شہر کی طرف سے تمہاری غلطی کو معاف کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اس ملک پر تمہاری حکومت قیامت تک قائم رہے۔‘‘

بطریق اعظم کی اس تقریر پر اہلِ شہر نے تحسین کے نعرے بلند کیے اور اب بطریق اعظم نے حضرت عمروبن عاصؓ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا:
’’میں تم سب کو رب کے حضور گواہ بنا کر اس بات کا اظہار کرتا ہوں۔ اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ُ وَ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ جب عیسائیوں نے اپنے بطریق کو اس بات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا توان میں سے کثیر تعداد نے بھی اس کی پیروی کی اور باقی نعرہ ہائے تحسین بلندکرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
Muhammad Tauseef Paracha
About the Author: Muhammad Tauseef Paracha Read More Articles by Muhammad Tauseef Paracha: 16 Articles with 18332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.