موبائل کل اور ہماری منافقت

واہ کیا زبردست ڈانس کررہی ہے یار مزہ آرہا ہے - یہ وہ کمنٹس ہیں جو گذشتہ دنوں میرے اپنے دفترکے ساتھی موبائل فون کے ذریعے لی جانیوالی ڈانس کی ریکارڈنگ دیکھتے ہوئے میرے ساتھی کررہے تھے -اس ڈانس کو دیکھنے والے ہرعمر کے لوگ شامل تھے اور بڑے مزے لیکر کسی نامعلوم شخص کی شادی میں ان کے گھریلو خواتین کے ڈانس کو دیکھ رہے تھے جو شائد اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی مرد یا خاتو ن نے موبائل فون کے ذریعے بنائی تھی اور بعد میں یہی ویڈیو موبائل فون کے میموری کارڈ میں رہ گئی اور کسی " بے غیرت"نے وہ ویڈیوریلیز کردی اور اس پر گانوں کی ڈبنگ کروا دی- گھر میں شادی کے موقع پر خوشی کے عالم میں ڈانس کرنے والی خواتین کو اپنے گھر میں موبائل کیمرے کے ذریعے بننے والی کلپ / مووی میں دیکھ کر مجھے دکھ ہوا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ "یار یہ کیا بکواس دیکھ رہے ہو" جواب میں میرے دوستوں نے کہا کہ ہم کیا کرے اب مارکیٹ میں یہی لوکل چیزیں دستیاب ہے - کچھ ساتھیوں نے مجھے پاگل کہا اور کچھ کہنے لگا کہ " چھوڑو یار اس کا دماغ خراب ہے " اپنی انجوائے کرو- یہی کمنٹس سن کر میں نے بھی اپنی کان لپیٹ لئے اور سوچنے لگا کہ کیا ہم اپنے آپ کو پختون اور مسلمان کہلوانے کے قابل ہیں -میرے اتنے لمبے تمہید کا مقصد اپنے آپ کو شریف النفس ظاہر نہیں کرنا- میں بھی ایک عام اور گناہ گار انسان ہوں اپنے آپ کو پختون اور کمزور ترین مسلمان سمجھتے ہوئے میں یہ سوال اپنے آپ سے کررہا ہوں کہ کیا میں اپنی خاندان کے کسی خاتون کو دوسرے لوگوں کے سامنے نچاتے ہوئے برداشت کرسکوں گا-نہیں کبھی نہیں بلکہ اس سے میری لئے موت اچھی ہے کیونکہ یہ انتہائی درجے کی بے غیرتی اور بے شرمی ہے لیکن کیا ہم اور آپ دوسرے لوگوں کے خاندان کی خواتین کو اسی ماڈرن اور پختون معاشرے میں ڈانس نہیں کروا رہے اور اس سے مزے بھی لیتے ہیں -یہی وہ عمل ہے جو اس وقت ہمارے ارد گرد ہر جگہ ہورہا ہے لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں- موبائل فون اس وقت ہر ایک شخص کی ضرورت ہے لیکن ہم نے اس ضرورت کو اپنے سر پر سوا ر کرتے ہوئے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کررہے ہیں -

ہم پختون دیگر صوبوں کے لوگوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بہت زیادہ مسلمان اور راسخ العقیدہ کہلواتے ہیں نماز روزے کی پابندی کرتے ہوئے اس پرفخربھی کرتے ہیں اگر ہمارے خاندان کی کسی خاتون کے حوالے سے غلط بات سننے کو ملے تو ہم قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے اور نسل درنسل دشمنیاں پالتے ہیں لیکن اسی معاشرے میں رہتے ہوئے دوسرے لوگوں کی خواتین ہمارے لئے اتنی احترام کی لائق نہیں جتنی ہمارے اپنے خاندان کی ہوتی ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ہم سننا بھی پسند نہیں کرتے -اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ کیا تم رنگین مزاج ہو تو میں جلدی سے کہوں گا کہ نہیں نہیں میں تو بہت " پہنچا ہوا بزرگ "ہوں اور میرے "دامن " پر نماز ہوتی ہیں یہ ردعمل صرف میرا نہیں بلکہ ہمارے اس معاشرے میں 80 فیصد لوگ ایسا ہی کرتے ہیں حالانکہ ان کا باطن اپنے ظاہر کے بالکل مترادف ہوتا ہے -آپ کسی بھی شخص کا موبائل فون لیکر اس کو دیکھ لیں اس میں لازما کوئی نہ کوئی ایسا کلپ / مووی ہوگی جس میں کسی کے گھر میں ہونیوالے خوشی کی تقریب میں ہونیوالے پروگرام کے ڈانس یا اپنے خاندان کے لوگوں کی تصاویر موجود ہونگی کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی خاندان کی خواتین کی فلمیں موبائل فون کے ذریعے بنوائیں اور پھر غیر ذمہ داری کرتے ہوئے اس موبائل فون کو ہر کسی کو دیں یا پھربغیر میموری کارڈ کے چیک کئے اسے فروخت کریں-یہی میموری کارڈ اور تصاویر بازار میں کاروبار کرنے والے کچھ " بازاری " لو گ پشتو /انگلش گانوں کی ڈبنگ کیساتھ عام مارکیٹ میں فروخت کررہے ہیں -کچھ انتہائی بے شرم لوگ انہی ویڈیوز کو " یو ٹیوب " پر ڈالتے ہیں تاکہ اپنے معاشرے کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں یہ پیغام لوگوں کو مل سکیں کہ یہ ہمارا اصل چہرہ اور اوقات ہیں -شہر کے مختلف علاقوں میں خصوصا یونیورسٹی ٹائون اور صدر کے مخصوص لوگ جو کہ مارکیٹ میں موبائل فون کے کاروبار سے وابستہ ہیں عام لوگوں کے موبائل فون پر ریکوری سافٹ وئیر چلا کراس میں ریکارڈ ہونیوالا تمام ڈیٹا واپس لیکر آجاتے ہیں اور پھر اسی ڈیٹا کو بازار میں فروخت کیا جارہا ہے اس ڈیٹا میں لوگوں کے گھر وں میں خواتین کی ڈانس سے لیکر گھریلو خواتین کی تصاویر بھی شامل ہوتی ہیں جو ہم جیسے لوگ موبائل میںلئے بڑی خوشی سے دیکھتے ہیں- اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو یو ٹیوب پر جا کر دیکھ لیں ایسے ایسے نایاب کلپ/ فلم دیکھنے کو مل جائیں گی کہ آپ حیران ہونگے کہ کیا یہ ہمارا ہی معاشرہ ہے اور اس کو آن لائن سائٹس پر دینے والے ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں-اور تو اور گرلز کالجز میں ہونیوالی تقاریب سمیت گیسٹ ہائوسز میں ہونیوالی سرگرمیوں کی ویڈیوز بھی آسانی سے مل سکتی ہیں -

موبائل کے استعمال میں ایشیاء میں تیسرا بڑا ملک ہونے کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہے اور یہ اعزاز بھی شائدہمیں حاصل ہے کہ ہم "نام نہاد"مسلمان اخلاق سے گری ہوئی ویڈیوز بھی سب سے زیادہ لوڈ کرتے ہیں مجھے سفید چمڑی والوں کی ویڈیوز کی پروا نہیںکیونکہ شائد ان کے معاشرے میں بے حیائی اور بے شرمی قابل فخر بات ہوگی لیکن ہم بحیثیت انسان/ بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان اس طرح کے عمل کرکے دنیا والوں کو کیا دکھانا چاہتے ہیں-اپنے آپ کو امت محمدی کہلوا کر ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرکے ہم مذاق اڑ اتے ہیں کیا اس صورت میں ہماری گلو خلاصی ہوگی- افسوس اس بات کا ہے کہ ہم دوسروں کے گھر وں میں ہونیوالی تقریبات کی موویز/کلپ موبائل فون پر دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں لیکن یہی عمل جب ہمارے اپنے کسی پیارے کے ساتھ ہو تو ہم انتہا تک جاتے ہیں کیا یہ ہمارے منافقت کی انتہاء نہیں-

کیا موجودہ حالات میں ہم اپنے موبائل فون کو صرف ضرورت کیلئے استعمال تک محدود نہیں کرسکتے اگر بحالت مجبوری ہم لوگوں کو اپنے موبائل فون فروخت کرنا پڑے تو کیا ہم اپنے موبائل فون کی میموری کارڈ جلا نہیں سکتے اسی کے ساتھ ساتھ کیا ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے "ڈنڈا اور بیلٹ" والی سرکار کچھ نہیں کرسکتی-یہ مکروہ کاروبار اس وقت مختلف تھانوں کے حدود میں ہورہا ہے لیکن سب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیںکیونکہ کچھ کو" منتھلیاں" ملتی ہیں اور کچھ کے بقول کون " اپنے لئے" درد سر ڈھونڈے یعنی جیسا ہورہا ہے چلنے دو- بقول ایک صاحب کے اگر کوئی خاتون موبائل فون کے سامنے ڈانس کرتی ہیں تو کیا وہ نہیں سمجھتی کہ یہ غلط بھی استعمال ہوسکتا ہے -حالانکہ ویڈیو بنانے والے کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ آج شادی /خوشی کے موقع پر بننے والی موبائل فون کی ذریعے ویڈیو شائد ہی غلط استعمال ہو اور یہی غلط فہمی اس کو لے ڈوبتی ہیں- میرا سوال آپ سب سے ہیں کہ کیا ہم دوسروں کے گھر کی خواتین کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھتے ہوئے خوش ہوتے ہیں لیکن اگر یہ عمل ہمارے اپنے خاندان میں کسی کیساتھ ہو توہمارا رد عمل کیا ہوگا-یہ وہ سوال ہے جو شائد ہم سب لوگوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کرے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 625 Articles with 480143 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More