اسلامی تعلیم کے اثرات اور ہماری ذمہ داریاں

بلا شبہ اسلام ہی کامل و اکمل دین ہے؛اسلامی تعلیمات و احکام کی اساس قرآن حکیم اوراحادیث مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ہے؛جن کی روشنی میں علمائے ربانیین اور فقہائے کرام احکام و مسائل اخذ کرتے ہیں۔ اس لیے اس نظام کو شریعت یا نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔اسلامی احکام و تعلیمات کوبلامبالغہ امن سوز ماحول کے لیے امید کا آفتاب کہاجاسکتاہے؛جس کی نوری کرنیں کائنات کو امن و سلامتی اور محبت و اخوت سے منور کرتی ہیں۔یہی وہ نظام ہے جس نے دنیا کے خاک نشینوں کو اُٹھایا اور ہم دوشِ ثریا کردیا۔عرب کے صحرا نشینوں کو ہدایت و رہ نمائی کے نجوم کا مقام عطاکیا۔سسکتی ہوئی نسانیت کو انسانی اقدار سے روشناس کروایااور آدم کی جانشینی کے لایق بنایا۔

اسلامی تعلیمات کی پیروی ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان پوری دنیا پر غالب و فاتح رہا۔جس سرزمین کا رخ کرتا وہ اس کے لیے اپنا سینہ کشادہ کردیتی۔آبِ گنگا کی روایات ، گلستانِ اندلس کے جمال اوردریائے دجلہ کی موجوں سے جب بھی مظلوم آبادیوں نے انصاف کے لیے پکارا مسلم فاتحین کبھی محمد بن قاسم ،کبھی طارق بن زیاد، کبھی موسیٰ بن نصیر تو کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی کی شکل میںمظلوموں کی داد رسی کو پہنچتے۔ یورپ کے کلیساؤں سے نغمہ توحید و رسالت بلند ہوا
اے آب رودِ گنگا !وہ دن ہے یاد تجھ کو؟
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
اے گلستانِ اندلس!وہ دن ہے یاد تجھ کو؟
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا

ماضی میںجب بھی دنیا میں علمی و فکری انقلاب آیا مسلم علما وصوفیااور مفکرین نے صالحیت کے قیام و بقا کے لیے قابل ِ فخر خدمات انجام دیں۔ہارون رشید،امام محمدغزالی،امام رازی،فارابی،البیرونی،جابر بن حیان،غوث اعظم،ابن خلدون سے لے کر مجدد الف ثانی وشاہ ولی اللہ اور امام احمد رضا تک بہت سارے ایسے اربابِ فکر ودانش گزرے ہیں جنہوں نے اسلامی افکار و تعلیمات کی روشنی میں دنیا کو نئے نئے اور مفید علوم و فنون عطاکیے۔دینیات،سماجیات،معاشیات،ارضیات، ادوےات، طبیعیات ، ادبیات، سیاسیات، فلسفہ، تاریخ، ریاضی وغیرہ غرض کہ تمام شعبہ ہائے علم کو اسلامی چشمہ علم سے سیراب کرکے نئے نئے تجربات و مشاہدات سے مالامال کیا،جہاں بانی و جہاں گیری کاشعور بخشا،اسلامی علوم کو سائنس اور دیگرعصری علوم کے مقابل معذرت خواہانہ انداز میںپیش نہیں کیا بلکہ دیگر علوم کو اس کا تابع و مرہونِ منت کرکے ،مغرب سے مرعوب اذہان کو یہ پیغام دیا
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

مسلمانوں کی ہر شعبہ ہائے حیات میں کام یابی سے اسلام دشمن طاقتیں چراغ پا تھیں۔وہ تو ابتدائے اسلام ہی سے اسلام کے سیلِ رواں سے خوف زدہ تھیں اورمسلمانوں کے خلاف پرسرِپیکار بھی۔لیکن صلیبی جنگوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے مسلسل شکست کھانے کے بعد دشمنانِ اسلام نے اپنی پالیسی میں اہم تبدیلی لائی۔جس کے مطابق تب ہی سے یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف روبہ رو آمادہ جنگ نہیں ہوتے بلکہ اسلامی عقاید و نظریات اور تعلیمات پر ان کے معاندانہ ری مارکس اور تحریک استشراق کے ذریعے انہوں نے اسلامی افکار و نظریات پر جو گمراہ کن نشتر لگائے ہیں اس سے اہلِ اسلام کے سینے آج بھی چھلنی ہورہے ہیں۔شعوری یالاشعوری طور پر کم علم یا ضعف ِ اعتقاد رکھنے والے مسلمان ان کے دامِ فریب میں پھنس کر اپنی عاقبت کا خسارہ مول لے لیتے ہیں۔تحریکِ استشراق کا سب سے بھیانک چہرہ اس وقت ہمیں اور بھی مضطرب کردیتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں انہوں نے علومِ مشرق بالخصوص علومِ اسلامی کی تعلیم و تدریس کے لیے بڑے بڑے جامعات کھول رکھے ہیں۔ان کے اساتذہ و پروفیسرز کی اسلامیات پر کتابیں مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں،ان لٹریچرز میں تو بظاہر اسلام کی آفاقیت اور حقانیت کو سائن ٹیفِک انداز میںپیش کیا جاتا ہے مگر اسی میں کمالِ ہوش یاری سے اسلام کے کسی قانون ،اصول یانظریہ سے اختلاف کا شوشہ ”جدت“کے نعرہ کے پردے میں چھوڑکر ذہنوں کو اغواکرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔کسی ایک اسلامی اصول پر شدت سے عمل کی تعلیم دیتے ہوئے دوسرے کسی اہم اصول سے انحراف کرواکے منافقت کی تبلیغ کی جارہی ہے۔ تحریک استشراق کا مقصد مسلمانوں کو مغرب کا ذہنی غلام بناکر اپنے مذہب سے بیگانا کردیناہے یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تواس گمراہ کن تحریک کا مقصد اسلام بیزار نظریات کی اشاعت ہے۔اس سلسلے میں مسلم ممالک میں بنام مسلم یا سیکیولر یا انسانی و علمی خدمت کا لیبل لگاکردینی تعلیمی ،رفاہی و فلاحی اداروں کا قیام کر کے اس میں غریب اور سادہ لوح مسلم بچوں کی ذہنی تربیت کی جارہی ہے،اسلام کے کسی ایک اصول کو بتا کر دوسرے اصول سے روگردانی کا درس دیا جارہا ہے۔مثلاً توحیدِ خالص کا نعرہ بلند کرکے طلبہ کو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں بے باک و جریح اور جسور بنایاجارہاہے،زمانے کا تقاضا ،وقت کی ضروت یا جدت کانام دے دورِ حاضر کی سائنسی ایجادات کے مضراثرات سے نظریں پھیرکر دین میں نئی نئی بدعات کو فروغ دیا جارہاہے۔اسی طرح مسلمانوں میں اپنے ایجنٹوں انتخاب اور نمایندہ افراد کو مقرر کرناان کا اہم مقصد ہے تاکہ جبہ و دستار اور قرآن و سنت کے (کھوکھلے) دعوؤں کو دیکھ کر عوام اس تحریک کے میٹھے زہر سے بے پرواہ ہوجائیں اور رفتہ رفتہ ان کے ہم نوا بن جائے۔آج متعدد مسلم تعلیمی ادارے(دینی و عصری) جواسلامی تعلیمات سے جزوی رُوگردانی کاشکار”جدت“کے نام پر ہورہے ہیں اسی صہیونی سازش کا نتےجہ ہے۔تعلیمی نصاب میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معصومیت،اختےار،علم اور حیات کے انکار پر مشتمل اقتباسات ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔اسی طرح مزعومہ توحید کے نام پر اسلاف کے مسلمہ عقاید و نظریات سے انحراف بھی اسی اسلام مخالف تحریک کا عطیہ ہے جس کانعرہ یہ ہے کہ ع
روحِ محمد (ﷺ)اس کے بدن سے نکال دو

دشمنانِ سلام کے سازشوں اور ان کے اسلام کے خلاف موجودہ طرزِ عمل کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج اسلام کے خلاف جو سب سے بڑی جنگ کی جارہی ہے اس کا مقصد محض مسلم ممالک اور قومِ مسلم کی تاراجی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم ان کے لیے یہ بات ہے کہ مسلمان اپنی دینی شناخت کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کردے،مسلمان تو رہے مگراسلامی چہرہ باقی نہ رہے،اس میں دینی حمیت کا عنصر معدوم ہوجائے،وہ اپنے دین سے غافل ہوجائے،اپنی روایات اور اسلاف کا باغی ہوجائے۔اس سے خطرناک صہیونی سازش کیا ہوسکتی ہے کہ اپنے اسلاف کے مسلمہ عقاید و نظریات سے اختلاف کو مغرب زدہ لوگ دین سمجھ رہے ہیں،اپنے اور ساری انسانیت کے محسن مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان گھٹانے کی مذموم کوشش کو توحید کا نام دے رہے ہیں!!!مسلمانوں کے دلوں سے محبت و تعظیمِ رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر انہیں اس مقدس بارگاہ کا جریح وبے ادب بنانے کی صہیونی سازش کو محسوس کرنا آج بہت ضروری ہوگیا ہے خصوصاً تعلیمی اداروں میں ان امور کی نگرانی ازحد ضروری ہوگئی ہے کہ اللہ و رسول کی بارگاہوں کا ادب و احترام ہی ہماری متاعِ ایمان اور تقاضہ ایمان ہے اسی جوہر کی وجہ سے ہم ماضی میں سرخ رو تھے۔اور حال میں بھی ہمارے جملہ مسائل کے حل کے لیے، من حیث القوم اتحاد و اخوت کے لیے ”محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم“کا جذبہ نقطہ پَرکار ہے ۔اور اسی شمعِ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلائے رکھنااوراس کی حفاظت کرنا آج اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ہمارے ایمان اور دینی و فکری تشخص کی حفاظت و صیانت !!!
ہمیں کرنی ہے شہنشاہِ(ﷺ) بطحا کی رضا جوئی
وہ اپنے ہو گئے تو رحمتِ پروردگار اپنی
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 122407 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.