کسی بھی نئے صوبے کے قیام کےلئے
ضروری ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے قرار داد منظور کرے
اور پھر اس کی روشنی میں قومی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کے قیام
کا فیصلہ کرے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام
کےلئے ایک ایسی سیاسی چال چلی ہے جس نے اپوزیشن کو بے بس کر کے رکھ دیا
ہے۔ان کی نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت ہے اور اپو زیشن اس میں
پھنس کر رہ گئی ہے۔ مسلم لیگ( ن) نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی بساطِ
سیاست پر اسی مہلک چال سے مجبور ہو کر پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کےلئے
پنجاب اسمبلی میں قرارداد تو منظور کر لی لیکن اس پر عمل د ر آمد کےلئے حیل
و حجت سے کام لے رہی ہے کیونکہ اسے اپنے اقتدار کے سکڑ جانے کا دھڑ کا لگا
ہوا ہے۔ اس کی سر توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح سے پنجاب کی تقسیم کی نوبت نہ آئے
تاکہ ان کی موج مستیوں میں کو ئی کمی نہ آئے اور اربوں روپوں کے وہ فنڈز جن
پر پنجاب کے دوسرے شہروں کا بھی حق ہے انھیں صرف لاہور اور رائے ونڈ کےلئے
مختصص کئے رکھیں اور دوسرے علاقے اسی طرح محرومیوں کا شکار بنے رہیں ۔ اپنی
اس خوا ہش کی تکمیل کی خا طر مسلم لیگ( ن ) مختلف قسم کے حربے استعمال کر
رہی ہے۔آج کل وہ ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ کر رہی ہے جو پورے ملک میں نئے
صوبوں کے قیام کےلئے سفارشات مرتب کرے ۔ان کی یہ سوچ صوبائی خود مختاری میں
کھلی مداخلت ہے کیونکہ نئے صوبوں کے قیام کا فیصلہ کرنا صو بائی اسمبلی کا
کام ہے اور اس سے یہ حق چھیننا اس کے صوبائی حق پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے ۔کمیشن
کا یہ کام نہیں کہ وہ نئے صوبوں کے قیام کا فیصلہ کرے یہ کام صوبائی اسمبلی
کا ہے اور سے ہی یہ کام کرنا ہے چاہے کسی کو یہ برا لگے یا بھلا لگے۔ ہم نے
اس طرح کے رو یوں کا اظہار ماضی میں بھی کیا اور صوبوں کی آواز کو دبانے کی
پالیسی اپنائے رکھی جس کا نتیجہ ان کے اندر بغا وت کی صورت میں پروان چڑھا۔
بلوچستان کے مسئلے کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ا یک شیش ناگ کی طرح پھن
پھیلائے ہمیں ڈسنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے نپٹنے کے لئے ہم ہر ممکن کو شش
کر رہے ہیں لیکن یہ شیش ناگ کسی طرح رام نہیں ہو رہا بلکہ ہماری ہر کاوش کے
بعد مزید زہر انگیز ہو تا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کی تقسیم چاہتی ہے
اور اس کےلئے اس نے پہلے بھی کئی دفعہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا نے کی
کوششیںکی ہیں ۔ میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں بڑے جارحانہ بیانات بھی
دئے تھے جس کا بھر پور جواب ایم کیو ایم نے دیا تھا تو میاں شہباز شریف
ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے تھے ۔سندھی شہباز شریف کے بیانات پر بڑے خفا ہو ئے
تھے کیونکہ صوبوں کی تشکیل کا فیصلہ متعلقہ صوبا ئی اسمبلی کے علاوہ کوئی
دوسرا ادارہ نہیں کر سکتا اور شہباز شریف دھڑلے سے بیابات کے گولے داغ رہے
تھے ۔اگر کو ئی یہ چاہتا ہے کہ سندھ کو ایک سے زیادہ صوبوں میں تقیم کر دیا
جائے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس بات کا فیصلہ کرنے کا
حقیقی فورم صوبائی اسمبلی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا سندھ
اسمبلی میں کوئی بھی منتخب ممبر نہیں ہے لہذا مسلم لیگ (ن) علیحدہ صوبے کی
قرار داد بھی اسمبلی میں پیش نہیں کر سکتی اسے دو تہائی ا کثریت کے ساتھ
منظور کروانا تو بہت دور کی بات ہے لہذا وہ گیدڑ بھبھکیوں سے کام چلا رہی
ہے۔۔
موجودہ جمہوری سسٹم میں پی پی پی کی سب سے مضبوط حلیف عوامی نیشنل پارٹی
ہے۔ مسلم لیگ (ن)س مجوزہ اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کے لئے ہزارہ صوبے کا شوشہ
بھی چھوڑ ا ہے حالانکہ شروع میں مسلم لیگ (ن) اس صوبے کی تشکیل کے سخت
مخالف تھی جس کی وجہ سے ان کی سیاسی پوزیشن ہزا رہ ڈویژن میں انتہائی کمزور
ہو چکی ہے۔یہی حال اس کا جنوبی پنجاب میں بھی ہے ۔ اس کا واضح ثبوت جیت کی
وہ ہیٹ ٹرک ہے جو پی پی پی نے ملتان میں ضمنی انتخابات میں مکمل کی۔اسی
سال(چند ماہ قبل) پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے صوبائی ا سمبلی کی وہ سیٹ
بھی جیت لی تھی جو 1977 سے پی پی پی نے کبھی نہیں جیتی تھی ۔کھسیانی بلی
کھمبا نوچے کے مصداق اب مسلم لیگ (ن) کو ہزارہ اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی
تشکیل کا جھوٹا بخار چڑھا ہوا ہے لیکن ان کے اعمال ان کے دعووں کا ساتھ
نہیں دے رہے۔وہ اب بھی جنوبی پنجاب کے صو بہ بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی
کر رہے ہیں لیکن انھیں اپنے عزائم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ
جنوبی پنجاب کا صوبہ بن کر رہنا ہے۔جیسا کہ میں نے اوپر بھی بیان کیا ہے کہ
کسی کو نئے صوبے بنا نے پر کو ئی اعتراض نہیں ہو نا چائیے لیکن اس کے لئے
ضروری ہے کہ صوبے کی اسمبلی نئے صوبے کے حق میں دو تہائی اکثریت سے قرار
داد منظور کرے۔ خیبر پختو نخواہ کے اندر نیا صوبہ بنانا ہے تو پھر اس کے
لئے ضروری ہے کہ خیر پختو نخواہ کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کی
قرار داد منظور کر کے اس کے قیام کی پہلی اینٹ رکھ دے۔ میاں برادارن کو علم
ہے کہ ان کے پاس خیبر پختو نخواہ میں عددی اکثریت نہ ہونے کے برابر ہے لہذا
وہ نیا جال بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک ایسا پارلیمانی کمیشن چاہتے
ہیں جو صوبوں کی تشکیل کا فیصلہ بھی کرے اور صوبے بھی تشکیل دے۔ پی پی پی
کو مسلم لیگ (ن) کی اس سازش سے با خبر رہنا ہو گا اور اسے اسی آئینی راہ کا
ساتھ دینا ہو گا جو آئین میں درج ہے۔مسلم لیگ (ن) اگر اپنا بائیکاٹ ختم کر
کے پارلیمانی کمیشن کی کاروائی کا حصہ نہیں بنتی تو اسے سیاسی طور پر مزید
نقصابات برداشت کرنے پڑیں گئے۔ منفی حربے ہمیشہ شکست کاپیش خیمہ بنتے ہیں
اورپارلیمانی کمیشن کا با ئیکا ٹ بھی ایسا ہی منفی حربہ ہے جو مسلم لیگ (ن)
کے مصا ئب میں مزید اضا فہ کر دے گا۔
۔۔۔ پارلیمانی کمیشن کے ارکان۔۔۔۔
فرحت اللہ بابر۔سید خور شید احمد شاہ۔ موسی گیلانی۔ جمشید دستی۔فاروق
ستار۔عباس رضوی۔ حاجی عدیل۔کامل علی آغا۔مولانا عبدا لغفور حیدری۔ صغری
امام۔عارف عزیز شیخ۔رفیق رجوانہ۔ تہمینہ دولتانہ۔سعود مجید۔پنجاب اسمبلی کے
دو ارکان کی نامزدگی سپیکر پنجا ب اسمبلی کریں گئے۔
پارلیمانی کمیشن کا پہلا اجلاس منعقد ہو چکا ہے جس میں سینیٹر فرحت اللہ
بابر کو اتفاقِ رائے سے اس کمیشن کا چیر مین منتخب کر لیاگیا ۔ جمشید دستی
نے ان کا نام پیش کیاتھا جب کہ مسلم لیگ(ق) کے آغا علی کامل نے ان کی تائید
کی تھی۔فرحت اللہ بابر بڑے دھیمے، شریف النفس اور سمجھدار انسان ہیں اور
پاکستانی عوام میں غیر متنازع شخصیت کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے بھی ہیں
اور سارے سیاسی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی جا تے ہیں۔ ان
کی موجودگی اس بات کی دلیل تھی کہ کمیشن کے سارے معا ملات اصو ل و ضوابط کی
روشنی میں طے کئے جائیں گئے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری پہلے ہی مفاہمتی
سیاست کا علم اٹھا ئے ہو ئے ہیں لہذا یہ سوچنا کہ پی پی پی کوئی یک طرفہ
کاروائی کر کے کمیشن کے ممبران کی رائے کو اہمیت نہیں دے گی درست نہیں ہے۔
اس پارلیمانی کمیشن میں پارلیمنٹ کی ساری بڑی جماعتوں کی نمائندگی ہے جو اس
بات کی غماز ہے کہ مفاہتی سیاست کو بڑی ا ہمیت دی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن)
کی مخالفت سمجھ سے بالا تر ہے۔ عددی طور پر مسلم لیگ کمیشن کی سب سے بڑی
پارٹی ہے لہذا ان کی مخالفت کسی کی سمجھ شریف میں نہیں آ رہی ۔ اب یہ تو
نہیں ہو سکتا کہ مسلم لیگ (ق) ، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کی
نمائندگی کا فیصلہ بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرے ۔جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی
نمائندگی کا تعلق ہے اس کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کرنا ہے یہی وجہ
ہے کہ صوبائی اسمبلی کے دو ممبران کی نامزدگی کے لئے سپیکر پنجاب اسمبلی سے
درخواست کی گئی تھی جس کا انھوں نے فی ا لحال کمیشن کو کوئی جواب نہیں دیا۔
نئے صوبوں کی تشکیل پاکستان کی ۵۶ سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ عمل پذیر ہور
ہی ہے لہذا سارے سیاسی عناصر کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنا چائیے تا کہ نئے
صوبوں کی تشکیل کے سارے مراحل بخیر و خوبی سر انجام پا جائیں۔ یہ ہمارا
قومی تشخص بنتا جا رہا ہے کہ ہم نے ہر معاملے میں سیاست کرنی ہے اور سیدھے
سادھے مسئلے کو بھی پیچیدہ بنا دینا ہے۔ اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں
کمیشن کا قیام اسکا آئینی تقاضہ تھا اور وہ آئینی تقاضہ پورا ہوا اور اس
میں سب جما عتوں کو ان کی حیثیت کے مطابق نمائندگی بھی دی گئی لیکن مسلم
لیگ (ن) کو وہ پسند نہیں آیا اور اس نے حکومت کی نیک نیتی کو متنازع بنانے
کی کوششیں شروع کر دیں۔ایک جنگ ہے جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پنجاب
اسمبلی میں جاری ہے اور سرائیکی صوبے کے عوام اس جنگ کو بڑی دلچسپی سے دیکھ
رہے ہیں۔انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ مسلم لیگ (ن) نئے صوبوں کی تشکیل سے اتنی
خوف زدہ کیوں ہے؟اب تو خواتین بھی اس میں کود پڑی ہیں اور وہ بھی ایسی زبان
استعمال کر رہی ہیں جس سے ہر جمہوریت پسند شخص کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے
۔عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ اختلافِ رائے اور بد تمیزی میں فرق کیا ہے اور
اختلافِ رائے کہاں بد تمیزی میں بدل جا تا ہے۔میری دانست میں پنجاب اسمبلی
کونئے صو بوں کی تشکیل کا کام بخیر و خوبی آگے بڑھانا چائیے کہ یہی وقت کا
تقاضا ہے۔۔ ۔ |