اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنا یا اور اسے دنیا میں اپنا میر مقرر کیا جو اس سے قبل کسی
کویہ عظمت نہیں دی گئی تھی اور اسے دنیا میں بھیج کر اللہ تعالیٰ نے دنیا
میں زندگی کی ابتدا ءکی شروع میں حضرت آدم ؑ اور ماں حوا اس دنیا میں تشر
یف لائیں اور دنیا میں زندگی کی ابتدا ءہو گئی جوں جو ں آ با دی میں اضافہ
ہو تا گیا لو گ قبیلوں میں بٹتے گئے اور اپنی اپنی آ بادی بسا لیں اور اللہ
تعالیٰ نے ا ن کو راہ ہدایت دکھا نے کے لئے اپنی طرف سے رسول اور پیغمبر اس
دنیا میں بھیجے جو اس دنیا میں موجو د اپنی قومو ں کی راہنما ئی فر ما یا
کر تے تھے ۔قبل از اسلام ہر نبی اور رسو ل کسی خا ص قوم یا قبیلے پر نازل
فرمائے جا تے تھے تا کہ وہ اس بگڑتی ہو ئی قوم کو صراط مستقیم پر واپس لے آ
ئےں اور وہ اس قوم کی اخلاقی پسماندگی کو بھی ختم کر سکیں جو اس نبی یا
رسول کے ا ٓنے سے پہلے اس قوم میں مو جو د ہو تی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے واقتا فواقتا دنیا میں اپنے ایک لا کھ چو بیس ہزار نبی اور
پیغمبر ب بھیجے تا کہ وہ اپنی اپنی قوم کے ضمیروں کو جگائیں اور ان بھٹکے
ہوئے ہوں کو راہ دکھائیں جو اخلاقی بیماریوں کے سا تھ ساتھ اپنے دین سے بھی
راہ فرار حاصل کر رہے تھے او ر اپنی معاشر ے میں بگاڑ اور انتشارکا ذریعہ
بن رہے تھے، اخلاقی بے راہ راوی کو پسند کر نے لگے تھے ۔ا ور ان معاشروںمیں
ہر بگاڑ موجو د ہو تا تھا جسے ختم کر نے کے لئیے نبی اپنی پوری کو شش کرتے
تھے اللہ کا دی ہو ئی ذمہ داری کو پورا کیا کرتے تھے اپنے مالک کا پیغام
اپنی قوم تک پہنچا تے تھے اور یہ خوشخبری بھی سنا تے تھے کہ ہمارے بعد آ
خری نبی محمد ﷺ آ ئیں گے جو پوری دنیا کے لئے ا ٓ ئیں گے کسی خاص گر و کسی
خاص قبیلے سے ان کا تعلق نہ ہو گا اور نہ ہی وہ کسی خاص قوم کو راہ ہد ایت
دکھا نے آ ئیں گے بلکہ وہ تو فلاح انسانیت ہو نگے جو ہر خاص و عام اور ہر
مذہب کے لو گوں کو راہ ہدا یت کا راستہ دکھا ئیں گے اے لو گو ! ن پر ایمان
لانا ۔
اور باآخر وہ وقت آ ہی گیا جب چودہ سو سال قبل جب وہ شمس و القمر طلو ع ہوا
تو ہر طرف عید میلاد النبیﷺ کا اہتمام کیا خوشیونں کے شایا بجائے گئے ہر
طرف خوشیاں منا ئی گئیں جب وہ عظیم ہستی وہ عظیم راہنما اور پیغمبر دنیا
میں تشریف لا ئے تو دنیا سے بڑائی اور اند ھیر ے کے بادل چھٹ گئے لو گو ں
کو جینے کی امنگ نظرا ٓ گئی اور اپنی زندگی کا مقصد حیات نظر آ گیااور ہما
رے پیا رے نبیﷺ نے واقعی یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ کسی خاص گرو کسی خاص
قبیلے کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ وہ تو پوری انسانیت کے لئے رہبر بنا کر
بھیجے گئے ہیں انھوں نے واقعی ہی بھٹکے ہواﺅ وں کو را ہ دکھا ئی اور لو گوں
کی ہر با ت پر صبر کا دامن تھامے رکھا جو بھی کوئی تکلیف دیتا آپ اس کے لئے
دعا فرماتے آ پ ﷺ کا فرمان عا لیٰ شان ہے کہ ” میں پوری دنیاکے لئے رحمت
اللعامین بنا کر بھیجا گیا ہوں“ جن کی زندہ مثالیں مندرجہ بالا چند واقعات
ہیں جو یہ ثابت کر تے ہیں کہ ہمارے نبی الا خرالزمان نے ہر تکلیف بر داشت
کی مگر کسی کے لئے بددعا نہیں دی ۔مدینے میں ایک بڑ ھیا رہتی تھی آ پ ﷺ جب
بھی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے وہ آ پ ﷺ کے اوپر اپنے گھر کا کوڑا کر کٹ
پھینک دیتی جس سے آ پ ﷺ کے کپڑے گند ے ہو جا تے اور وہ خوش ہو جاتی مگر
کبھی بھی آ پ ﷺ نے اس سے شکایت نہیں کی ایک دن آپﷺ اس کے گھر کے سامنے سے
گزر ے تو کسی نے بھی آ پ ﷺ پر کو ڑا نہ پھینکا تو آ پ ﷺ نے اپنے صحا بیوں
کو حکم دیا کہ پتہ کیا جا ئے کہ اس بڑھیا کو کیا ہو ا ہے جب آ پ ﷺ کو یہ
پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے تو آ پ ﷺ اس بڑ ھیا کی عیا دت کر نے کے لئے تشریف
لے گئے وہ بڑ ھیا آ پ کو دیکھتے ہی گھبرا گئی اور یہ سمجھی کہ شاید رحمت
الالمین اس سے بد لہ لینے آ ئے ہیں مگر آ پ ﷺ نے اس کی عیا د ت کی اس کے
گھر کو صا ف کیا اور اس کا پانی بھر ا اورواپس آ گئے اور وہ عورت اسی حسن
سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو گئی دو سرے واقعے کو تو پوری دنیا جا نتی ہے جب
ہمارے نبی کر یمﷺ اسلام کی تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لو
گو ں نے آپ ﷺ پر حملہ کر دیا اور آ پ ﷺپر پتھر بر سائے جس کی وجہ سے آپ کے
جسم مبارک سے خون بہنے لگا اور آ پ ﷺ کے جو تے مبا رک اس سے بھر گئے مگر
یہاں بھی آ پ ﷺ نے ا ن لو گوں کے لئے راہ ہدایت اور اللہ تعالیٰ سے انکے
لئے بہتری کی دعا فرمائی آپ ﷺ نے اللہ تعالی ٰ سے دعا مانگی کہ یہ ناسمجھ
ہیں اے اللہ ! ان کو ہد ایت فرما جب کہ اس وقت حضرت جبرائیل ؑ آ پ ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہو گئے اور آ پ سے گزارش کی کہ اگر آ پ ﷺ اجا زت دیں تو میں
ان دو پہاڑوں کو سا تھ ملا دیتاہو ں جس سے ان لو گو ں کا نام نشان مٹ جا ئے
گا نست و نابود ہو جا ئیں گے مگر آپ نے انھوں ایسا کر نے سے منع کر دیا اور
خود واپس چلے آ ئے اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے ہی دعا فرمائی ۔اور یہی
امت محمدی کے لئے روشن پہلو ہے جو کہ ہمیں راہ ہدایت میسر کر رہے ہیں مگر
عرصہ دراز سے دنیا کے امن کو تباہ کر نے اور مسلما نو ں کو دہشت گرد ثابت
کر نے کی جو مہم پوری دنیا میں چلا ئی جا رہی ہے وہ آ گ اب عام لوگوں کو
چھوڑ کر ہمارے نبی الزمان تک جا پہنچی ہے مغربی دنیا کے شر پسند عنا صر اور
ان کی حکومتیں وقتا فوقتا دین اسلام پر اپنی حیوانیت سے حملے کر تے رہتے
ہیں اور کبھی قرآ ن پاک کو جلا کر مسلمانوں کو اشتعال دلا یا جا تا ہے تو
کبھی نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکت پر حملے کیئے جا تے ہیں کبھی نعوذ باللہ
ہمارے نبی کر یم ﷺ کے خاکے بناکر مسلمانو ں کو اشتعال دلایا جا تا ہے تو
کبھی کو ئی اور سا ز ش کر کے مسلمانوں کے دلوں سے کھیلا جا تا ہے اور اب تو
ان ٹیری جوزف جیسے بے غیرتوں نے ہمارے نبی کریم پر فلم بنا کر مسلمانوں اور
مسلمان ملکوں کو اشتعال دلا کر یہ ثابت کر نے کی کوشش کی جا تی ہے کہ مسلم
لوگ انتہا پسند ہیں وہ اجتجاج کر تے ہیں جب کہ اگر ایسا ہی اجتجا ج وہ کر
یں تو وہاں بے غیر ت انسانی حقوق کی تنظیمیں حقوق کی حفاظت کا نام دے کر ان
کو مبارکبا د پیش کر تی ہیں اور حکومتیں بھی خیر مقدم کر تی ہیں جب مسلم
ممالک میں اپنے مذہب اور اپنے رسولﷺ کے حوالے سے اجتجاج سامنے آ تا ہے تو
یہی بے غیرت تنظیمیں مسلمانوں کو انتہاءپسند ی کا لیبل لگا کر مغربی حمایت
حاصل کر تی ہیں اور ان سے مالی فائدے بھی ان کو ملتے ہیں ۔ اب بھی ایسا ہی
ہوا جب حضورپا کﷺ کے حوالے سے پوری دنیا میں اجتجاج ہوا توپو ری دنیا اس پر
اپنی زبان دارازی کر نے لگی کہ اجتجاج کا راستہ ٹھیک نہیں بجائے اس کے کہ
اس کے ذمے داروں کو سزا دی جاتی امریکہ نے پوری عرب دنیا کو یہ پیغام دیا
کہ ”امریکی سفیروں کی حفاظت کے لئے جو اقدامات بھی کر نے پڑ ے وہ ہم کر یں
گے“ چاہے اس کے لئے ہمیں کچھ بھی کر نا پڑے۔جب کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ
امر یکہ خود اس سا رے اجتجاج کا سبب بنے والے(فلم بنانے والے ،اداکار، پیسہ
لگا نے والے اور دوسری سہولیات فراہم کر نے والے ) ارکان کو پکڑ کر سر عام
پھانسی دیتا اور یہ ثابت کر تا کہ دین اسلام کے ساتھ ساتھ تمام دین قابل
عزت او ر قابل احترام ہیں مگر ان بے حسوں نے یہ کام کر نے کی بجائے ان ان
لوگو ں کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو ایسے شر ناک اور اشتعال انگیز کا م کر
رہے ہیں جب کہ کبھی بھی عام حالا ت میں یہ نہیں سنا کہ کسی بھی مسلم ملک
میں کسی بھی آسمانی کتا ب کی بے حرمتی کی گئی ہے یا اسے کسی طرح سے نقصان
پہنچا یا گیا ہے یا اس کے ماننے والوں کو اس سے روکا گیا ہے یا ان کو
زبردستی ان کے دین سے دور کیا گیا ہے ۔اور مسلمان تب تک مسلمان نہیں کہلا
سکتا جب تک وہ اللہ تعالی پر نبی کر یم ﷺ ، تمام پیغمبروں رسولوں اور تمام
آ سمانی کتا بوں پر ایمان نہ لائے۔غرض مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ
تمام انبیاءکرام اور تمام آ سمانی کتابوں پہ ایمان رکھتا ہو۔مگر ان بے غیرت
مغربی ممالک کی سو چ کہ وہ دین اسلام کو اور دین اسلام کو ما ننے والوں کو
کچھ نہیں سمجھتے بلکہ ان کو ذہنی تکلیف دینے میں خوشی محسوس کر تے ہیں اب
بحیثیت مسلمان ہمیں یہ سو چنا ہو گا کہ کس طرح ہم نے اپنے دین کی حفا ظت کر
نی ہے اس کے لئے سب سے پہلے تو ہمیں خود کو دین اسلام پر عمل پیرا ہو نے کے
لئیے اجتماعی کوشش کر نی ہو گی اور حکومتی سطح پر بھی اس کے لئے موثر
اقدامات ہو نے چاہیئں حکومت کوچاہیئے کہ وہ ملک میں اعلان کر ے کہ نماز کے
وقت تمام لوگ دوسرے عرب ممالک کی طرح نماز پڑ ھیں اور مردہ گھوڑے او آ ئی
سی میں بھی جا ن ڈالنا ہو گی کیو نکہ یہ نام کی مسلمانوں کی تنظیم ثابت ہو
رہی ہے بس وقت گزاری اس کا لوگو بن چکا ہے وہ مسلمان ممالک اور اس کے با
شندوں پر کسی بھی قسم کے ظلم پر اپنی آواز مو ثر طور پر نہیں اٹھاتی بلکہ
ہر وقت اس کے ممبران ممالک امریکہ کو اپنے مفا دات کے لئے ترجیح دیتے ہیں
یہ بے حس ممالک آ پس میں کبھی اکھٹے نہیں ہو تے بلکہ مغربی دنیا کی رنگین
مزاجیوں میں خوشی محسو س کر تے ہیں جب کہ ہمیں تو یہی ہمارے دین نے بتایا
ہے کہ ”یہ کفار اور غیر مذہب کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے“ اس لئے آپس
میں اتحاو یکجہتی کو اپنانا ہو گا اور دنیا عالم کو یہ بتانا ہو گا کہ ان
سے وہی کام کیا جا ئے گا جو دشمن کےساتھ کیا جا تا ہے ان ممالک کو آ پس میں
تجارت، کھیل، صحت، تعلیم غرض تمام شعبوں میں تعاون بڑھا ناچا ہیے اور ہر
طرح سے ان کو آ پس میں مدد فر اہم کر نی چاہئیے جب جا کر ہم کا میابی کی و
ہ منزل طے کر سکتے ہیں جو تمام عرب ممالک کے عوام کی دل کی آواز ہے اور اسی
طرح ہم اپنے دین کو ان شر پسند اور لا دین لوگوں کی شر انگیزیوں سے سے بچا
سکتے ہیں جب ہم خوداس پر عمل پیر اہو نا شرو ع ہو جائیں٭٭٭٭٭٭ |