ویسے تو دُنیا میں اور بھی بہت
کچھ ہے جس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مثلاً وینا ملک
کب کیا کر بیٹھے، کِسے دِل دے بیٹھے اور کِسے کہیں کا نہ چھوڑے! یا یہ کہ
میرا فَرفَر انگریزی بولنے لگے! یا پھر یہ کہ ہم اولمپکس میں کوئی گولڈ
میڈل (یا کوئی بھی میڈل) جیت لیں! مگر اِس امر پر بہتوں کا اتفاق ہے کہ
کرکٹ غیر یقینی اتفاقات کا کھیل ہے، یعنی اِس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ
کہا نہیں جاسکتا۔ یہ بھی لوگوں کی سادہ دِلی بلکہ سادہ لوحی ہے۔ قومی کرکٹ
ٹیم، اللہ نظر بد سے بچائے، اِس مزاج کی ہے کہ اُس کے بارے میں ایک بات تو
پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے، یہ کہ اُس کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین
سے نہیں کہی جاسکتی! آپ نے اگر جیوتش ودیا سیکھی ہے یعنی سِتاروں کی چال
سمجھتے ہیں تو ذرا قومی کرکٹ ٹیم کی کوئی ایک چال تو سمجھ کر دِکھائیے، اگر
آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہ ہو جائے تو ہمارا ذِمّہ!
جب قوم کی تمام اُمیدیں دم توڑنے لگتی ہیں اور ٹی وی سیٹس کے سامنے بیٹھے
ہوئے کروڑوں شائقین مایوس ہوکر دوبارہ اپنے اپنے دھندے سے لگنے کی سوچ رہے
ہوتے ہیں تب ہمارے کرکٹرز اچانک کچھ ایسا کر گزرتے ہیں کہ مخالفین پر قیامت
گزر جاتی ہے کہ میچ کا پانسا پلٹ جاتا ہے، پوری قوم ریچارج ہونے کے بعد
انگرائیاں لیتی ہوئی بیدار ہو جاتی ہے اور ہاتھوں سے جاتی ہوئی فتح دیکھتے
دیکھتے ہی بڑے پیار سے گرفتاری دے دیتی ہے!
کرکٹ کھیلنے والے کئی ممالک نے مختلف شعبوں میں بہت ترقی کی ہے۔ آسٹریلیا
اور جنوبی افریقہ اِس حوالے سے روشن مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ آسٹریلوی کرکٹ
بورڈ کا تو یہ حال ہے کہ کرنے کو اب کچھ نہیں رہا تو کرکٹ کو ٹیکنالوجی کا
شاہکار بنانے پر تُلا ہوا ہے! جنوبی افریقہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔
ہاشم آملہ جیسے کرکٹرز ایسے منظم انداز سے کھیلتے ہیں کہ کرکٹ محض کھیل
نہیں رہتا بلکہ پچ پر آرٹ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دِکھائی دینے لگتا ہے!
ہاشم آملہ ایسا فنکار ہے کہ جب بیٹنگ کرنے پر آتا ہے تو بڑے سے بڑے بولر کو
بھی آملے کے مُربّے کی طرح چٹ کر جاتا ہے!
مگر ایک بات ماننا پڑے گی۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے وہ کرکٹ کو بھلے
ہی لاکھ سمجھ چکے ہوں، ہمارے کرکٹرز کو سمجھنے میں اب تک ناکام ہی رہے ہیں!
اور اِس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ اپنے کرکٹرز کو تو اب تک خود ہم سمجھ نہیں
پائے ہیں! ہم نے بہت سے ثقہ ماہرین نفسیات سے سُنا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز
کی نفسیات کو سمجھنا ایک باضابطہ فن ہے جس میں یدِ طُولیٰ حاصل کئے بغیر
کوئی کرکٹ کو پوری گہرائی سے سمجھ نہیں سکتا! ماہرین نفسیات کی رائے سے
ہمیں ذرا سا اختلاف یہ ہے کہ قومی ٹیم کے بیشتر کرکٹرز کی نفسیاتی ساخت کو
سمجھنے کی کوشش سادہ لوحی کے سِوا کچھ نہیں کیونکہ جو نفسیاتی ساخت ہے ہی
نہیں اُسے سمجھنے کی کوشش چہ معنی دارد!
قومی ٹیم کے سُنہرے دور میں وسیم راجہ مرحوم ایسے بیٹسمین تھے جو کِسی بھی
وقت کچھ بھی کر گزرتے تھے۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جب تک وکٹوں
میں گیند کراتے رہیے، وہ آو ¿ٹ ہونے کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ چھکّے مارنے
پر تُل جاتے تھے۔ اور جہاں کِسی نے چھٹے یا ساتویں اسٹمپ پر گیند کی، وسیم
راجہ چوتھی یا پانچویں سلِپ میں کیچ دیکر پویلین کی راہ لیتے تھے! کِسی
ماہر نفسیات میں دم ہے تو ذرا اِس روش کو سمجھ کر دِکھائے!
آج کے زمانے کی بات کیجیے تو شاہد آفریدی ماشاءاللہ انتہائی روشن مثال ہیں۔
اور اِس مثال میں اِتنی اور ایسی روشنی ہے کہ ایک نظر دیکھنے پر بھی آنکھیں
چُندھیا جاتی ہیں! شاہد آفریدی اپنے ذہن (!) میں چند باتیں لکھواکر لائے
ہیں۔ مثلاً یہ کہ کوچنگ اور پریکٹس کے دوران جو کچھ بتایا اور سِکھایا جائے
گا اُسے کچھ ہی دیر میں بھول جانا ہے اور میچ والے دن گراؤنڈ میں اُتر کر
وہی کرنا ہے جو کرنا ہے! تماشائی میچ کے دوران حلق پھاڑ کر چلّاتے ہیں
”بُوم بُوم آفریدی“ مگر آفرین ہے کہ آفریدی بُرا نہیں مانتے۔ ثابت ہوا کہ
اُنہیں فارسی نہیں آتی۔ یعنی وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ
کہتی ہے ”مُجھ“ کو خلق خُدا ”حاضِرانہ“ کیا!
(واضح رہے کہ اُلّو کو فارسی میں بُوم کہتے ہیں!)
مگر کیا کیجیے کہ جس ٹیم کی غیر یقینی کارکردگی سے کرکٹ کا حُسن سلامت ہے
اُس کے لیے کرکٹ ہی کو کچھ اور بنادیا گیا ہے! تقریباً ڈیڑھ عشرے سے
پاکستانی کرکٹ ٹیم کِسی نہ کِسی سطح پر شدید دباؤ کا شکار رہی ہے اور
انجینئرڈ نتائج بُھگتنے پر مجبور ہے!
ٹی ٹوئنٹی کے سُپر ایٹ راؤنڈ میں جنوبی افریقہ کو ہراکر قومی ٹیم نے ایک
بار پھر ناقدین اور مُبصرین کو یکساں حیرت زدہ کیا۔ کچھ دیر کے لیے تو ہم
بھی حیران ہی رہ گئے کہ یہ کیا ہوگیا۔ پھر خیال آیا کہ پاکستانی ٹیم ہے،
کچھ بھی کرسکتی ہے!
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی بھارت سے ٹاکرا ہوا اور ہار بھی مُقدر میں
لکھی تھی (یا لکھ دی گئی)۔ جب پاکستان اور بھارت کرکٹ کے میدان میں آمنے
سامنے ہوتے ہیں تو کئی کھیل انڈر دی ٹیبل بھی کھیلے جارہے ہوتے ہیں! یہ سب
کچھ اب اِس قدر self-evident ہوگیا ہے کہ کرکٹ سے ذرا سا بھی شغف رکھنے
والوں کے ساتھ ساتھ خواتین خانہ بھی قومی کرکٹرز کی باڈی لینگویج اور
تاثرات سے اندازہ لگا لیتی ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے! اور کبھی کبھی تو
ایسا لگتا ہے کہ ساری کی ساری دال کالی ہے!
منگل کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ راؤنڈ کے آخری دو میچ تھے۔ پاکستان
کا مقابلہ آسٹریلیا اور بھارت کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے تھا۔ پاکستان کی
فتح کے امکانات بہت محدود تھے اور دوسری طرف بھارت کا جنوبی افریقہ سے
کانٹے کا مقابلہ متوقع تھا! پھر وہی ہوا جس کے لیے پاکستانی ٹیم بدنام یا
مشہور ہے یعنی آسٹریلیا حیرت انگیز طور پر نہ صرف یہ کہ شکست سے دوچار ہوا
بلکہ شکست بھی ایسی تھی کہ پاکستان کا رن ریٹ بہتر کرگئی! دوسری طرف بھارت
پر دباؤ بڑھ گیا کہ اُسے سیمی فائنل میں پنچنے کے لیے جنوبی افریقہ سے صرف
جیتنا نہیں تھا بلکہ اِس طرح جیتنا تھا کہ رن ریٹ بہتر ہو۔ پہلے بیٹنگ کرکے
بھارت وکٹوں سے فتح کے پہلو سے تو محروم ہوگیا۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ کِتنے
رنز کے مارجن سے فتح نصیب ہو کہ سیمی فائنل تک رسائی کی راہ ہموار ہو۔
جنوبی افریقہ کے خلاف بھارت نے 152 رنز اسکور کئے۔ لازم تھا کہ جنوبی
افریقہ کو 122 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر فتح بھی کِسی
کام کی نہ تھی۔ اور یہی ہوا۔ بھارت نے ایک رن سے میچ جیت تو لیا مگر یہ فتح
اُسے سیمی فائنل تک لے جانے میں معاون ثابت نہ ہوسکی! جنوبی افریقہ کی ٹیم
نے جیسے ہی 122 کا سنگِ میل عبور کیا، بھارتی کرکٹرز اور تماشائیوں کے
چہروں کی بَتّی بُجھ گئی! ”ٹیم انڈیا“ کے انوکھے لاڈلوں کو پاکستان کے خلاف
فتح خرید کر دی گئی مگر اُن کے نصیب میں یہ ذِلّت بھی لِکھی ہوئی تھی کہ
جسے پچھاڑ کر جنگ جیتنے جیسی خوشی سے سرشار تھے وہی سیمی فائنل میں گئی اور
آسمانی رنگ کی کِٹ پہننے والوں کو بے نیل و مرام گھر جانا پڑا!
ایک پس ماندہ اور واماندہ قوم کے آنسو پُنچھ گئے۔ بھارت کے ہاتھوں شکست کا
دُکھ ختم ہوا اور سیمی فائنل میں پہنچنے کی خوشی سے بڑی خوشی یہ تھی کہ
بھارت کی ٹیم نے گھر کی راہ لی! امن کی آشا کے نام پر سُپر ایٹ راؤنڈ کا
میچ بھارت کی گود میں ڈلوانے والوں کو یقیناً بہت مایوسی ہوئی ہوگی کہ لاکھ
سازش اور کوشش کے باوجود پاکستان سیمی فائنل تک پہنچ گیا۔
سیمی فائنل میں میزبان سری لنکا کے ہاتھوں شکست ضرور ہوئی مگر قوم کا دِل
زیادہ نہیں دُکھا۔ دُکھتا بھی کیوں؟ جن کی خوشی کے لیے اپنی ٹیم کے ہاتھ
پیر باندھ کر پُورا کا پُورا میچ بساط کی طرح لپیٹ کر دے دیا گیا تھا
اُنہیں سیمی فائنل میں پہنچنے کی خواہش دِل میں دبائے، آنسو بہاتے ہوئے
اپنے دیش واپس جانے پر مجبور جو ہونا پڑا تھا! جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے
کہ کھیل کو صرف کھیل سمجھنا چاہیے اور شکست و فتح کو دِل و دِماغ پر سوار
نہیں کرنا چاہیے کوئی ذرا اُن سے پوچھے کہ بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں شکست
کیوں قبول نہیں اور کیوں یہ معاملہ حکومتی سطح پر طے کرنے سے بھی گریز نہیں
کیا جاتا؟
اگر امن کی آشا ایک طرف ہٹادی جائے تو آج بھی پاکستانی کرکٹرز ”ٹیم انڈیا“
کو کِسی بھی وقت اور کِسی بھی گراؤنڈ میں عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ سُپر ایٹ راؤنڈ میں بھارت کے خلاف پاکستانی بَلّے بازوں
نے ابتدائی چار اوورز کے دوران دھوا دار بیٹنگ کرکے ثابت کردیا تھا کہ
بھارتی ٹیم کچھ بھی نہیں مگر کیا کریں، مجبوری ہے، ہارنا ضروری ہے!
اب حکومتوں کی سطح پر کھیلا جانا والا کھیل بند ہونا چاہیے۔ اچھا ہے کہ
کرکٹ کو کرکٹ ہی رہنے دیا جائے۔ بھارتی قیادت کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت
ہے کہ کِسی بھی کھیل کو جنگ کی سی کیفیت سے دوچار کرنا درست نہیں۔ علاقے کا
چوہدری بننے کا شوق اپنی جگہ مگر یہ کیا کہ اپنے گھر کو روشن کرنے کے لیے
دوسروں کے گھر کا چراغ بُجھادیا جائے!
اور آخر میں ایک کام کی بات۔ سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل میں شکست سے دِل
کا رنجیدہ ہونا فطری امر تھا۔ مگر صاحب، سری لنکن صدر نے قومی کرکٹ ٹیم کو
پاکستان جانے کے لیے گرین سگنل دیکر کہانی کو کِسی حد تک بیان کرنے کی کوشش
کی ہے! کھیل کے میدان میں مسابقت کے فیصلے جب اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے
ہیں تو ایسے ہی گرین سگنلز سامنے آیا کرتے ہیں! |