بولتے رہو، مزا آ رہا ہے!

کِسی زمانے میں کراچی روشنیوں کے ساتھ ساتھ علم کا شہر بھی تھا۔ اب روشنی رہی نہ علم۔
بے بسی اب کیا بتائیں کِتنی خود سر ہوگئی
روشنی کے شہر میں ظلمت مقدر ہوگئی!

اب ہمیں صرف اِتنا علم ہے کہ علم حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ضروری ہے کہ چین تک جائیے کہ کراچی میں ایسے ادارے خال خال ہیں جو علم کی بات کریں اور معیاری تعلیم کے ذریعے نئی نسل کو منزل کی طرف لانے کی خواہش اور سکت رکھتے ہوں۔

کراچی کے ُرخ پر پایا جانے والا ایک ایسا عِلمی خال (تِل) ”کومیکس کالج“ بھی ہے جس کا اعلیٰ معیار کِسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گزشتہ دنوں اِس ادارے نے بین الجماعتی تقریری مقابلے کا اہتمام کیا تو روزنامہ دُنیا (کراچی ایڈیشن) میں رفیق کار اور سِٹی ایڈیٹر عابد حسین کی تجویز پر ادارے کی کوآرڈینیٹر انیلہ خان نے خاکسار کو بھی یاد کیا۔

ہم نے گھر میں ذکر کیا تو اہلیہ نے کہا آپ تو صحافی ہیں۔ تعلیمی ادارے سے آپ کا کیا تعلق! ہم نے وضاحت کی کہ وہ لوگ خدا ناخواستہ پڑھانے کے لیے نہیں بلا رہے بلکہ ہمیں تقریری مقابلے میں گیسٹ آف آنر کی حیثیت سے مدعو کیا جارہا ہے۔ جب ہم نے ادارے کا نام بتایا تو اہلیہ نے کہا کہ آپ چونکہ طنز و مزاح لکھتے ہیں اِس لئے ایسے ہی ادارے نے مدعو کیا ہے۔ ہم نے حیران ہوکر وضاحت چاہی تو بولیں آپ کو comics کالج نے بلایا ہے نا! یہ سُن کر ہم سَٹپَٹائے اور (اپنا) سَر تھام لیا! عرض کیا کہ بیگم! ادارے کا نام comics نہیں، Commecs ہے! کہنے لگیں کامِکس اور کومیکس میں کون سا زیادہ فرق ہے۔ ہم نے عرض کیا کل کو آپ کہیں گی کون سا زیادہ فرق ہے، منہ کے بجائے ناک سے کھانا کھا لیا کیجیے!

کِسی کو تقریری مقابلے میں مدعو کیا جائے اور جوانی کا حسین زمانہ یاد نہ آئے، ایسا تو ہی نہیں سکتا۔ گویا
.... کئی کہانیاں یاد سی آگے رہ گئیں!

ہمارا خیال ہے بہت سے کسی تعلیمی ادارے کے تقریری مقابلے میں مصنف یا مہمان خصوصی بنائے جانے پر یہ سوچ کر زیادہ مسرت محسوس کرتے ہوں گے کہ اِس بہانے ”شبابی تاریخ“ اپنے کو تھوڑا سا دُہرا لیتی ہے! عندلیب شادانی نے کہا تھا۔
کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے کو دُہراتی ہے
اچھا، میرا خواب جوانی تھوڑا سا دُہرائے تو!

ہائے ہائے، وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ ہم بولنے کا ارمان رکھتے تھے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم شادی سے پہلے کے زمانے کی بات کر رہے ہیں! طالب علمی کے زمانے میں تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو، کِسی نہ کِسی حد تک، بولنے کا شوق، بلکہ ہَوکا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کا معاملہ تو ہم نہیں جانتے، مگر ہاں لڑکوں میں بولنے کا شوق غنیمت ہے کہ بعد میں ساری زندگی تو اُنہیں خاموش ہی رہنا پڑتا ہے!

”کومیکس کالج“ میں طلبا اور طالبات کو بولتے دیکھا تو دِل دِل باغ باغ ہوگیا۔ ایک انجانی سی خوشی ہوئی کہ چلیے، کِسی سطح پر تو اِس قوم میں اب تک جوش اور ولولہ سلامت ہے۔ چار چھ سال کا عہدِ جوانی اپنے ساتھ بہت سی خواہشات اور اُن خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کا جذبہ اور جُنون بھی لاتا ہے۔ جوش اور ہوش میں توازن قائم رکھنے والے اِس دور کو پوری زندگی پر محیط کرلیتے ہیں۔ بے ڈھنگے انداز سے گزاری جانے والی جوانی بُڑھاپے کو تیزی سے گھسیٹ کر قریب لے آتی ہے!

پُرجوش تقاریر کرنے والے طلبا اور طالبات کو دیکھ کر ہمیں اپنی جوانی یاد آگئی۔ ایک بڑے میاں سڑک پر گر پڑے۔ گِرتے ہی چلّائے۔۔ ہائے جوانی! پھر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کوئی نہیں تھا جو اُنہیں اُٹھاتا۔ کوشش کرکے خود ہی اُٹھے اور اپنے آپ پر لعنت بھیجنے کے انداز سے بڑبڑائے۔۔ جوان میں کون سا تیر مارا تھا!

ہم نے کبھی اپنے آپ پر اِس طور ملامت نہیں کی کیونکہ ہماری جوانی ایسی گئی گزری نہیں تھی! آپ سوچیں گے لڑکھڑا کر گِرنے کی عمر بھی تو ابھی وارد نہیں ہوئی! خیر، ہم بھی ”بھری جوانی“ میں یہ کیا باتیں لے بیٹھے! بڑھاپے کو جب آنا ہے تب وہ آئے گا۔ اور تب کی تب دیکھی جائے گی۔

”کومیکس“ کے تقریری مقابلے میں بہت ہی دُھواں دار تقاریر سُننے کو ملیں۔ بعض تقاریر تو واقعی ایسی تھیں کہ ہال میں دُھواں سا بھر گیا۔ حاضرین یعنی ساتھی طلباءو طالبات کی تالیاں تقریر کرنے والوں کو مزید ایڑ لگاتی ہیں۔ اور وہ جوشیلے جُملوں کی مزید دو لتّیاں جھاڑنے کے لیے زیادہ تازہ دَم ہو جاتے ہیں! ایک طالب علم عُمر کا جوش و خروش تو حد سے گزر گیا۔ تقریر کے دوران جوش کی شِدّت اور اشتعال سے کانپنے لگے! ایک لمحے کو خیال آیا کہ شاید وہ خود کو نشتر پارک میں سمجھ کر ہمارے دِل و دِماغ پر نشتر لگا رہے ہیں! اُن کے انداز خطابت نے دِل کو ڈھارس بندھائی کہ ابھی کچھ ”بچّے“ ایسے ہیں جو بڑے ہوکر اینکرز کے کان کتریں گے! عُمر کو ہم مشورہ دیں گے کہ ذرا سنبھل کر رہے، ایسے ہی بانکے سجیلے، پُرجوش اور ولولہ بردار نوجوان کی تلاش میں رہتی ہے اِس قوم کی ہر .... سیاسی جماعت!

وہرہ نے دلیپ کمار کی حیثیت سے تقریر کا آغاز کرنے کی کوشش کی اور دو ہی جملوں کے بعد راجیش کھنّہ یا جیتیندر میں تبدیل ہوکر پوڈیم چھوڑ گئے! یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ جب انسان پہلی بار تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ایسا ہوتا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب بھی پہلی بار (!) تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں، ایسا ہی ہوتا ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ وہرہ نے کمال کر دکھایا یعنی بے ہوش نہیں ہوئے! ہم وہرہ کی ہمت کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ دوبارہ پوڈیم پر آئے اور نئے سِرے سے تقریر کی۔ گویا
شاید مُجھے نِکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

انٹر اور بی اے کی سطح کے طلبا اور طالبات کی تقاریر میں جوش اور ولولے کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ نئی نسل کم وقت میں بہت کچھ کہنے کے فراق میں رہتی ہے اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ چند منٹ کی تقریر میں ایک نئی دُنیا بس جاتی ہے! بیشتر تقاریر ایسی ہوتی ہیں جیسے ایک پلیٹ میں سال، مٹھائی، نمکو، سموسے سبھی کچھ رکھ دیا جائے!

ایک طالبہ نے کچھ ایسی تقریر کی کہ اُن کا ہر جُملہ جانا پہچانا سا لگا۔ اُن کی تقریر میں غیر معمولی اپنائیت تھی۔ محترمہ نے fools کو موضوع بنایا تھا! ہم بالکل سامنے بیٹھے تھے۔ تقریر کی ابتداءمیں ہمیں ایسا لگا کہ وہ ہمی کو تختہ مشق بنا رہی ہیں مگر جب غور کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ singular یعنی fool نہیں بلکہ plural یعنی fools کی بات کر رہی ہیں! ثابت ہوا کہ pluralism بہت اچھی چیز ہے! دِل کو یہ سوچ کر کچھ سُکون مِلا کہ ایک ہم ہی تختہ مشق یا کُشتہ سِتم نہیں۔
.... محفل میں نِشانے اور بھی ہیں!

جب مسلمانوں کی نئی نسل کو اُس کی ذمہ داریاں یاد دلائی جاتی ہیں تو قرون اوّل اور قرون وسطیٰ کے مسلم ہیروز کو یاد کیا جاتا ہے۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ کئی مقررین نے کہا ”کہاں ہے وہ محمد بن قاسم، کہاں ہے وہ ابراہیم؟“ ہم تو سامنے ہی بیٹھے تھے، اِس قدر پُرجوش انداز سے چلّاکر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی! یعنی یہ کہ پُرجوش خطابت کے دوران ذہن بھلے ہی کام نہ کر رہا ہو، آنکھیں ضرور کُھلی رکھنی چاہئیں!
آخر میں مہمان خصوصی کمانڈر (ر) نجیب انجم صاحب نے خاصی پُرمغز تقریر کی۔ کچھ دیر کے لیے ہال کا ماحول بدل گیا۔ اُن کی سنجیدگی دیکھ کر خیال آیا کہ ہمیں بھی بولتے وقت تھوڑا سنجیدہ ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ خیال بھی آیا کہ ہم نے جب بھی سنجیدہ ہوکر بولنے کی کوشش کی ہے، کچھ زیادہ ہی مزاح پیدا ہوا ہے!

”کومیکس“ میں طلباءو طالبات کی تقاریر سُن کر اپنا یعنی طالب علمی کا زمانہ یاد آگیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہمیں بھی، جیسا کہ فطری ہے، معلوماتِ عامہ اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ معلوماتِ عامہ کا شوق تو اِس قدر تھا کہ یہ شعبہ ہمارے لئے معمولاتِ عامہ میں تبدیل ہوگیا تھا اور بہت سے سینئرز یہ شکایت کرتے پھرتے تھے کہ ہم کچھ زیادہ ہی جان گئے ہیں!

خیر، تقریر کرنے کا شوق جب ہم میں حد سے بڑھا تو دوستوں کے کہنے پر ایک تقریری مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ مقابلہ کراچی کے ایک ہوٹل میں تھا، یعنی پنڈال نہیں تھا بلکہ ہال تھا۔ جب ہم ہال میں داخل ہوئے تو دل میں ”ہَول“ سا اُٹھا! ساتھیوں پر نظر ڈالی تو اُن کے چہروں پر خاصا اطمینان تھا۔ یہ اطمینان دیکھ کر دِل کو ایک گونہ مسرّت ہوئی کہ ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کوئی تو موجود ہے۔

جب تقریر کے لیے ہمارا نام پکارا گیا تب اندازہ ہوا کہ پوڈیم پر جاکر مائکروفون کے ذریعے حاضرین کا سامنا کرنا کیا ہوتا ہے! دِل و دماغ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ ایسا لگا جیسے کسی نے اچانک سر پر بھاری گٹھڑ رکھ دیا ہو! ساری کائنات کی توانائی اپنے وجود میں سموکر ہم کِسی نہ کِسی طور اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھے۔ مائکروفون کے سامنے ہمارا پہنچنا تھا کہ ہال کی بَتّیاں اچانک بند ہوگئیں۔ دو تین سیکنڈ گزرے تو اندازہ ہوا کہ بَتّیاں بند نہیں ہوئیں، ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا ہے! تب سمجھ میں آیا کہ 1980 کے عشرے میں کالی آندھی یعنی ویسٹ انڈیز کے مشہور زمانہ فاسٹ باؤلرز کا سامنا کرتے وقت ہمارے بیشتر بَلّے بازوں کی کیا کیفیت ہوا کرتی ہوگی!

کِسی نہ کِسی طور ہم نے اپنے بکھرے ہوئے وجود کو جمع کیا یعنی انگریزی کی اصطلاح میں کہیے تو خود کو recollect کرکے حاضرین سے مخاطب ہوئے۔ یہ ایسا لمحہ تھا جب ہمیں پہلی بار ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوا کہ ہمارے جسم میں کتنے نظام ہیں اور کون کا پُرزہ کِس طرح کام کرتا ہے۔ دِل نے بتایا کہ اُسے دھڑکنا آتا ہے! رگوں میں خون کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے لگا! کبھی کبھی سارا خون کھنچ کر دماغ میں گھستا ہوا محسوس ہوتا۔ کبھی ایسا لگتا کہ ٹانگیں نہیں ہیں اور ہم ہوا میں کھڑے ہیں! یہ 1985 کی بات ہے۔ تب موبائل فون کا تصور تک نہیں تھا۔ مگر یقین کیجیے تب ہمیں vibration کا پورا پورا اندازہ ہوچکا تھا کیونکہ بولتے وقت ٹانگیں مسلسل vibrate کر رہی تھیں!

چند لمحات کے توقف کے بعد ہم نے سوچا جب سمندر میں اتر ہی گئے ہیں تو غوطے لگانے میں کیا ہرج ہے۔ بس، بولنا شروع کردیا۔ چند بے ربط سے جملوں کو جوڑ کر ہم نے جب بولنا شروع کیا تو ہال پر سَنّاٹا طاری ہوگیا۔ حاضرین تالیاں بجانا بھی بھول گئے۔ کِسی کی سمجھ میں کچھ آتا تو تالیاں بھی بجاتے! خیر، ہم نے جب بولنا شروع کیا تو اِس بات کا اطمینان ضرور تھا کہ ہر مقرر کے لئے ڈھائی منٹ کا وقت مقرر ہے۔ یعنی ہم پر جو کچھ بھی گزر رہی تھی وہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی منٹ تک گزرنی تھی۔ اِس کے بعد پھر وہی نارمل زندگی تھی! جب ہم نے بولتے بولتے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈھائی منٹ گزر چکے تھے۔ ہم مطمئن ہوگئے کہ اب گھنٹی بجی سو بجی۔ مگر صاحب، یہ کیا؟ گھنٹی بجانے پر مامور طالب علم ہمارے ”خطاب“ سے اِس قدر مسحور اور مرعوب ہوچکا تھا کہ گھنٹی بجانا ہی بھول گیا! جو وقت پر بجائی نہیں گئی وہ گھنٹی ہمارے لئے گھنٹہ بن گئی! ایک منٹ اور گزر گیا۔ ہم انٹ شنٹ بولتے ہی جا رہے تھے۔ وقت کی قانونی حد کے دوران بولتے وقت ہماری آنکھیں بند تھیں اِس لئے اندازہ ہی نہ ہوا کہ حاضرین ہمیں صرف دیکھ ہی نہیں رہے، محسوس بھی کر رہے ہیں، محظوظ بھی ہو رہے ہیں! اب جب ہم نے آنکھیں تو حاضرین کو اِس حالت میں دیکھا کہ اُن کے لیے ہنسی ضبط کرنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا تھا۔ چند ایک منچلوں نے ہوٹنگ کے نام پر ہمارے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی مگر جو ہار مان لیں وہ ہم کہاں! ہم نے بھی قسم کھالی تھی کہ جس طرح ڈھیٹ قسم کے سیاست دان بار بار ضمانت ضبط ہو جانے پر بھی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں بالکل اُسی طرح بولتے ہی رہیں گے! جب مزید ڈھائی منٹ گزر گئے تو ہمیں خیال آیا کہ اب حاضرین پر کچھ رحم کرنا چاہیے! یہ سوچ کر ہم مائکروفون کے سامنے سے ہٹے اور تقریب کے صدر سے رخصتی کی اجازت چاہی۔ اُنہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں روکا۔ ہم سمجھے بولنے سے روک رہے ہیں اِس لئے مطمئن ہوکر پوڈیم سے رخصت ہونے لگے تو اُنہوں نے اپنا مائکروفون آن کرکے کہا ”بولتے رہے، مزا آ رہا ہے!“

اِس پر ہال میں ایسا قہقہہ پڑا کہ بھائی عمر شریف بھی سُن لیتے تو کمتری کے احساس میں مبتلا ہوتے کہ ایسا جاندار قہقہہ تو اُن کے جملوں پر بھی نہیں پڑتا! ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ ہماری باتوں سے نئی نسل کچھ سیکھ رہی ہے اور اب پتہ چلا کہ لوگوں کو مزا آ رہا ہے! کچھ مت پوچھیے کہ ہمارا کیا حال ہوا۔ اور ”اہل ہال“ کا تو یہ حال تھا کہ ہماری تقریر کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کے کھاتے میں ڈال کر حِظ پر حِظ اُٹھا رہے تھے! ہم نے بڑی مشکل سے کوزے کو دریا میں بند کیا یعنی اپنی بے سَر و پا باتوں کو سمیٹا اور اسٹیج سے نیچے آئے۔
کچھ دیر بعد تقریب کے صدر کی باری تھی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں دُنیا جہان کے موضوعات چھوڑ کر ہماری تقریر کو موضوع بنایا اور ہم پر طنز کے اِتنے تیر برسائے کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے وہی ہوا۔ یعنی ہم نے طے کرلیا کہ آئندہ کبھی اپنے آپ کو تقریر کے لئے زحمت نہیں دیں گے۔ اب خیال آتا ہے کہ وہ فیصلہ کِس قدر غلط تھا۔ اگر ہم دل برداشت نہ ہوئے ہوتے اور ذہن میں کُلبُلانے والی انٹ شنٹ باتوں کو سمیٹ کر تقریریں جھاڑتے رہتے تو آج ہمارا شمار بھی کامیاب اینکرز میں ہوتا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486337 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More