مارشل لائ.... مڈ ٹرم انتخابات ....قومی حکومت.... یا....؟
نوازشریف اور صدر زرداری کا مستقبل ؟ کون ہوگا کامیاب ....؟
امریکہ میں یہودی مفادات کی نگہبان ہلیری کلنٹن کی سیاسی جوڑ توڑ
وکلاﺀ تحریک کا سیاسی ہائی جیک ‘ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے امکانات
معدوم
پاکستان کی سیاست امریکی قیادت کے بعد اسرائیل کے شکنجے میں پھنسنے جارہی
ہے
فوج وطن عزیز کی سالمیت و دفاع اور تشخص کی حفاظت کےلئے اپنا کردار ادا
کرنے کے لئے تیار
وطن عزیز کو امریکی و اسرائیلی تسلط سے آزادی دلانے اور مارشل لاﺀ سے بچانے
کےلئے تکلیف دہ مناظر ہٹائے جانے کی نوید
صدر زرداری و شریف برادران کی لمبی چھٹی ‘ گیلانی نے بازی مارلی ‘ نگراں
سیٹ اپ میں بھی چیف ایگزیکٹیوبنائے جانے کا امکان
پنجاب میں گورنر راج ‘ صوبائی خود مختاری کے مخالفین بھی صوبائی معاملات
میں مرکز کی مداخلت کی شکایت اور صوبائی خود مختاری کی حمایت پر مجبور
25فروری کو شریف برادران اہلیت کیس میں عدالتی فیصلے کے نوازشریف کے خلاف
آنے اور شریف برادران کو” سیاست “کےلئے ”نااہل “ قرار دیئے جانے کے بعد جلد
بازی میں پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے نتیجے میں ملک میں جس سیاست کا
آغاز ہوا اس نے پاکستانی سیاست پر کی گئی ’‘افہام و تفہیم “ کی ملمع کاری
کو اُتاکر ”ہوس اقتدار “ کی اس کی اصل صورت بے نقاب کردی ہے اور وطن عزیز
کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بجنے والے طبل جنگ نے ماہرین جنگ کو
”دعوت “ دینی شروع کردی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ”جمہوریت “ بس کچھ گھڑی کی
مہمان ہے ‘ سیاسی تجزیہ نگار اس صورتحال کو جمہوریت کےلئے خطرناک قرار دے
رہے ہیں ‘ ایک جانب ”نا اہل “ قرار دیئے جانے کے بعد شریف برادران نے جہاں
’‘علم بغاوت “ بلند کرنے صدر زرداری کو بھیانک نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی
ہیں وہیں موجودہ پارلیمنٹ کو نہ چلنے دینے کا عندیہ دے کر یہ بھی ثابت کرنے
کی کوشش کی ہے کہ حکومت کی رخصتی کے دن قریب ہیں جبکہ دوسری جانب افہام و
تفہیم کی خواہشات کے اظہار اور عدالتی فیصلے پر اثر انداز نہ ہونے کی یقین
دہانی کے باوجود حکومت کی جانب سے اب تک نہ تو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا
گیا ہے اور نہ ہی گورنر راج کے خاتمے کا کوئی عندیہ دیا جارہا ہے البتہ
دونوں جانب سے دیئے جانے والے دھواں دار اور مشتعل بیانات کی وجہ سے دونوں
ناراض و حریف جماعتوں کے درمیان ثالث کا کردار اداکرنے والی جمہوری قوتوں
کےلئے اپنا کام جاری رکھنا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے جبکہ اس ساری صورتحال
میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اپنی اپنی کہہ رہے ہیں اور اپنی اپنی
گا رہے ہیں کوئی نوازشریف کو موردِ الزام ٹہرا کر ان پر پنجاب کارڈ کھیل کر
پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا اور غداری کا مقدمہ چلانے کی بات
کررہا ہے تو کوئی صدر زرداری کے کردار پر انگلیاں اٹھارہا ہے کہ انہوں نے
اپنے مخالفین کو جس طرح میٹھی چھری سے کاٹا ہے اس سے شریف برادران کی ان سے
ناراضگی فطری و بجا ہے مگر اس سارے منظر نامے میں سب سے زیادہ پریشان عوام
ہیں جنہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جانے جارہا ہے ۔
پہلے سے اقتصادی اور معاشی بحران کا شکار پاکستان کیا اس سیاسی بحران کو
جھیل پائے گا ؟
یہ وہ سوال ہے جو آج ہر شہری کی زبان پر ہے ۔
آج پاکستان کا ہر فرد اپنے مستقبل سے مایوس دکھائی دے رہا ہے ۔
کیونکہ پاکستان کے عدالتی نظام کے بعد جمہوری نظام سمیت سیاسی نظام بھی
خطرات سے دوچار دکھائی دے رہا ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں اچانک آنے والی اس تبدیلی کی وجوہات اور اس کے مستقبل
پر رونما ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں پاکستان کی محدود
فضاؤں سے نکل کر عالمی سیاست کا جائزہ لینا ہوگا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے
کہ انسانی تاریخ لمحہ لمحہ بدلتے حالات ،ایجادات اور ان واقعات سے عبارت ہے
جو تسلسل سے رونما ہوتے رہے ہیں۔جن میں کچھ حسب توقع تھے تو کچھ خلاف توقع
بھی رونما ہوئے۔ لیکن جتنی تیزی سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے آخری برس
کے پہلے دو ماہ یعنی جنوری اور نصف فروری 2009 میں حالاتِ دنیا بدلے شاید
ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔
ان ڈیڑھ دو ماہ میں جس بڑے واقعہ نے حالات دنیا کے بدلنے کے سو فیصد
امکانات روشن کئے وہ بڑا واقعہ ہے امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی بش کی جگہ
اوباما کا آنا۔یہ تبدیلی اس وقت آئی جب ساری دنیا اک ہنگامہ آرائی و بدامنی
کا شکار تھی اور ساری دنیا معہ امریکی عوام اس صورت حال کا ذمہ دار بش کو
قرار دے رہے تھے۔ یورپی دنیا کے خلاف مسلم دنیا کی نفرت انتہاء کو پہنچ چکی
تھی اور امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سمیت دو اسلامی ممالک افغانستان اور
عراق میں اتر کر بیڑیاں جلا چکا تھا۔ایسے وقت میں ایک امکان تو یہ تھا کہ
امریکی پالیسی ساز افغانستان و عراق پر قبضہ‘ اپنے صرف ایک فر د بش کے سر
تھوپ کر اسے بش کی غلطی قرار دیکر اپنی باعزت واپسی کو یقینی بنائیں
گے۔دوسرا امکان یہ تھا کہ اگر بش کی پالیسی کو جاری رکھا گیا تو صرف اس حد
تک رکھا جائیگا کہ عراق اور افغانستان میں امریکی مفاد کو اس طرح استحکام
ملے کہ مسلم دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت کم ہو۔گو کہ یہ مشکل تھا دو
مسلم ممالک پر قبضہ برقرار رکھ کر مسلم دنیا کی سوچ بدلنا ایک مشکل کام تھا
لیکن انتخاب اسی کا کیا گیا۔ایسے میں یہ امکان بھی موجود تھا کہ اگر امریکہ
نے مسلم دنیا کے بارے میں کوئی نرم پالیسی اختیار کی تو یہ امریکہ اسرائیل
دوستی کے لئے ایک زبردست خطرہ ہو گا۔
ان امکانات کے روشن ہونے پر اخذ یہ کیا جا رہا تھا کہ ایسا ہونے سے دنیا پر
کس کس جگہ کا کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔؟ یہ چند ماہ میں واضح ہو سکے گا
لیکن نئے پیدا ہونے والے واقعات نے تمام امکانات کو زمین بوس کر دیا اور
صرف ڈیڑھ دو ماہ میں محسوس ہونے لگا کہ جنوبی ایشیاء میں کوئی نیا کھیل
شروع ہونے والا ہے۔ وہ کونسے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے کسی
نئے کھیل کے شروع ہونے کے امکانات ہیں۔؟ تو ان واقعات کی ترتیب تقریباً یہ
ہے کہ اچانک اور تقریباً غیر متوقع طور پر سوات میں امن معاہدے کے بعد
مالاکنڈ ڈویڑن میں نفاذ شریعت کا اعلان ہو گیا۔
یہ واقعہ اتنا بڑا ہے تھا کہ امریکہ پر سکتہ طاری ہوگیا اور اس کا فوری
ردِعمل امریکہ کی ناراضگی کی صورت میں سامنے آیا اور بلا جھجک کہا جا سکتا
ہے کہ اس قسم کے کسی معاہدے کی امریکہ کو توقع نہ تھی۔ لہٰذا توقعات کے
برخلاف جانے والوں کو امریکہ جو سزا دیا کرتا ہے آج پاکستان اسی سزا سے
دوچار ہے ۔ابھی امریکہ نے امن معاہدے پر پوری طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا
نہ پاکستانی حکام سے باز پرس کی تھی کہ صدر زرداری نے دورہ چین کر کے
امریکہ کو ایک اور خلاف توقع جھٹکا دے دیا ۔دورے ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ
دور ہ عین اس وقت ہوا ہے جب امن معاہدے کا سن کر امریکی غصہ انتہاء پر تھا
اور اس غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ دورہ ہو ا تو پھر یقیناً یہ ایک ایسا
بڑا واقعہ تھا جس کی سزا پاکستان کو دیا جانا لازم تھا سو جنوبی ایشیا میں
ایک نئی گیم کا آغاز کردیا گیا ۔ اس کی پیش گوئی سوات امن معاہدے ، امریکی
ناراضگی اور صدر کے دورہ چین ہی سے ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ایک مزید امریکی
خدشہ بھی یہی پیش گوئی کرتا دکھائی دیتا ہے۔اور وہ امریکی خدشہ وہ امریکی
بیان ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو ناکام یا کمزور
کرنے کی روس کوئی کوشش نہ کرے۔
جسکا مطلب یہ ہوا کہ اندر خانے دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے تو پھر یہ
کالا کالا اس مختصر وقت کا چوتھا بڑا واقعہ ہو گا جس کے دنیا پر اچھے یا
برے اثرات بھی ضرور مرتب ہونگے۔اس طرح ایک مختصر ترین وقت میں ان چار غیر
متوقع قسم و اقعات کا رونما ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ کوئی محض اتفاق کی بات
نہیں۔کچھ ہونے والا ہے اور امکان یہ نظر آتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں کوئی
نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جس کھیل کے شروع
ہونے کے امکانات اچانک روشن ہوگئے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔؟
تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نقطہ مرکز پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو یہ
بات بھی خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ اس کھیل کا فائدہ ہوا یا نقصان وہ
پہلے پارٹی کا ہوگا پھر پاکستان کا اگر اس متوقع تبدیلی کو قومی نقطہ نظر
سے دیکھا جائے تو یہ وہ قومی مطالبہ ہے پاکستانی عوام جو مطالبہ پاکستانی
سیاستدانوں اور حکمرانوں سے عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں کہ امریکہ نواز
پالیسی ترک کرو۔ان حالات کو ، تازہ زمینی حالات و واقعات اور ماضی کے
تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو حیرت کی انتہاء ہوتی ہے۔اس طرح کہ پیپلز
پارٹی کی حکومت کوئی ایسا کام کرے گی جو امریکہ کو ناگوار گزرے اس بارے میں
سوچا بھی نہیں جا سکتا اس لئے کہ سارا پاکستان تو کیا ساری دنیا جانتی ہے
کہ پیپلز پارٹی کو بڑی اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی ناراضگی کتنی مہنگی پڑ
سکتی ہے۔موجودہ حکومت کوئی ایسا رسک لے گی! ایسا جہاں ماضی کے واقعات کے
حوالے سے نہیں سوچا جا سکتا وہاں اس وجہ سے بھی نہیں سو چا جا سکتا کہ اس
وقت پیپلز پارٹی کی حکومت اتنی مضبوط ہرگز نہیں کہ کوئی خطرہ مول لے
سکے۔پیپلز پارٹی کو جن حالات و واقعات سے ماضی میں واسطہ پڑا ان کے بارے
میں تو سب کو معلوم ہے اور یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ اسے آج اندرون ملک ایک
طرف تو شدید مہنگائی کی وجہ سے عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔دوسری طرف سیاسی
خلفشار اپنی اس انتہاء کو چھونے والا دکھائی دیتا ہے جو پہلی مرتبہ سامنے
ہے۔ اس طرح کہ عین اس وقت جب امریکہ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اس وقت
پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے ذریعے پیپلز پارٹی نے خود اپنے لئے گڑھا
کھودنا شروع کردیا ہے دوسرا شریف برادران کے خلاف دیا جانے والا عدالتی
فیصلہ بھی امریکہ کےلئے جنوبی ایشیا میں گیم پلان کرنے میں معاون و مددگار
ثابت ہوا ہے سو اور اب ملک میں جو کچھ ہو گا یا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے یہ سب
کچھ پیپلز پارٹی کو بھی یقینا نظر آ رہا ہو گا۔یعنی ایک طرف تو پی پی کی
قیادت کو یہ معلوم ہے کہ بڑی طاقتوں کو ناراض کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے
اور دوسری طرف اندرون ملک انتشار بھی اسکے سامنے ہے۔ اس کے باوجود وہ اس
نئے کھیل کے ابتداء کرچکی ہے تو پھر یہ حیرت کی انتہا نہیں تو اور کیا
ہے۔؟اگر یہ سب کچھ جو ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگر دانستہ ہے تو انتہائی حیرت
انگیز اور غیر دانستہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی کو امریکی مخاصمت
اس حد تک مہنگی پڑنے والی ہے کہ حکومت اس سے چھینی جاسکتی ہے ۔
امریکن لابی سے نکلو چین کی طرف بڑھو۔یہ ساری قوم اور تمام چھوٹی سیاسی
جماعتوں کی مشترکہ آواز و مطالبہ ہے اگر یہ مطالبہ پورا ہونے کے آثار واضع
کرنے والے پیپلزپارٹی کے خلاف امریکہ نے جس طبل جنگ کو بجایا ہے اس کے آثار
و اثرات ملکی سیاست میں ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب
پیپلز پارٹی انتہائی مشکلات کا شکار اور امریکی حمایت سے محروم ہوچکی ہے
نوازشریف اہلیت کیس کا فیصلہ کیا جانا اور پھر انتہائی منظم طریقے سے اسے
عدالتی سے زیادہ صدارتی قرار دے کر حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز ‘
پنجاب میں بلوے اور احتجاج کی آڑ میں تشدد و اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
امریکہ نے پیپلز پارٹی کو چین سے دوستی اور امریکہ سے نظر بدلی کی سزا دینے
کی ٹھان لی ہے اور مستقبل کے لئے کچھ پرانے دوستوں سے وفاداری کا عہد لےکر
ان کے لئے لابنگ کا آغاز کردیا ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ امریکہ وہ
”ہما “ ہے کہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دے وہی بادشاہ اور جس کے سر سے ہاتھ
اٹھالے وہ“ گدا“ بن جاتا ہے ۔
جنوبی ایشیا کے لئے نئے گیم پلان میں امریکی سیکریٹری داخلہ ہلیری کلنٹن کا
کردار انتہائی اہم دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں ”تبدیلی
“ کے نعرے کے ذریعے برسر اقتدار آنے والے بارک اوبامہ نے جب اپنی حریف
پارٹی کی رکن اور سابق صدر امریکہ کی زوجہ ہلیری کلنٹن کو اپنی کابینہ کے
سب سے اہم ترین عہدے پر فائز کیا تو تجزیہ نگاروں نے اسے امریکی جمہوریت کی
”خوبصورتی “ قرار دیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ اگر امریکہ میں جمہوریت ہوتی
تو صدر بس کابینہ کے اختلافات کے باوجود پوری دنیا کے امن کو برباد کرنے
میں کامیاب نہ ہوتے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن کی حکومت میں شمولیت
اور اوبامہ کابینہ میں اہم عہدے کا حصول امریکی جمہوریت کی خوبصورتی نہیں
بلکہ امریکہ پر موجود اسرائیلی اجارہ داری کا ”اثر “ اور حکومت چلانے کےلئے
بارک اوبامہ کی ”مجبوری “ تھی جسے اگر اسرائیل کی ”خوشنودی“ کا نام دیا
جائے تو بےجا نہ ہوگا یوں امریکہ کی اقتصادیات پر قابض اسرائیل ہلیری کلنٹن
کو اوبامہ کابینہ میں شامل کراکر بارک حسین اوبامہ کو ابتدا و آغاز سے ہی ”
تبدیلی “ سے دور رکھنے اور ان پر ”چیک اینڈ بیلنس “ قائم کرنے میں کامیاب
ہوگیا جس کے اثرات اس وقت سامنے آنا شروع ہوگئے جب حلف اٹھانے کے بعد بارک
اوبامہ نے امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی بجائے نہ صرف بش کی پالیسیوں کے
تسلسل کو جاری رکھا بلکہ ان میں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی اور سختی لانا
شروع کردی جبکہ اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے بعد امریکی صدر کی خاموشی
اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت نے اس بات کو ثابت کیا کہ
ہلیری کلنٹن انتہائی وفاداری سے اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات کو نبھارہی
ہیں اس لئے یہ بات بڑی واضح ہے کہ پاکستانی سیاست میں اقتدار کا پرندہ اسی
کے سر بیٹھے گا جس سے اسرائیل و امریکہ مشترکہ ملکہ ہلیری کلنٹن خوش ہوں گی
اگر ماضی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے عہد حکومت میں
میاں صاحب کے تعلقات اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کی زوجہ ہلیری
کلنٹن سے بہت اچھے رہے ہیں جس کا تذکرہ فروری کے آخری عشرے میں رائے ونڈ
میں جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کے دوران میاں نواز شریف خود بھی کرچکے ہیں
جو اس بات کا عندیہ دے رہا ہے چین سے دوستی کے جرم میں صدر زرداری کے
امریکی حمایت سے محروم ہونے کے بعد امریکہ کی نگاہ التفات میاں صاحب پر پھر
میاں صاحب پر مرکوز ہے اور انہیں پاکستان میں متبادل قیادت کے طور پر ایک
بار پھر نمایاں ہونے کے مواقع فراہم کرنے شروع کردیئے گئے ہیں یہی وجہ ہے
کہ میاں صاحب نے اپنے مزاج کے برخلاف جو تقریری لب و لہجہ اپنایا ہے وہ ان
کا خاصہ تو کبھی بھی نہیں رہا لیکن شاید یہ امریکہ کی ضرورت ضرور رہی ہو ۔
بہرحال اگر امریکہ کے نئے گیم پلان میں صدر زرداری کی رخصتی کو لکھ دیا گیا
ہے تو اسے کوئی نہیں ٹال سکتا مگر میاں صاحب بھی یہ لکھ لیں کہ امریکہ اپنے
وقتی مفادات کےلئے تو ان سے راہ و رسم بڑھا سکتا ہے مگر اقتدار ان کے حوالے
کرنے کا خطرہ کبھی بھی مول نہیں لے گا کیونکہ وہ اس رات کو کبھی بھی فراموش
نہیں کرپایا ہے جب امریکی صدر کی ٹیلیفون کال کے باوجود میاں صاحب نے بھارت
کے پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ”ایٹمی قوت “ کے
اعزاز سے سرفراز کردیا تھا لہٰذا مڈ ٹرم انتخابات کے کے نتیجے میں قیادت کی
تبدیلی کا معاملہ تو زیر بحث آہی نہیں سکتا کیونکہ امریکہ کا مقصد صدر
زرداری کو اقتدار سے محروم کرنا تو ہوسکتا ہے مگر میاں صاحب کو اقتدار میں
لانا کبھی نہیں ہوسکتا جبکہ ہلیری کلنٹن کی دوستی پر بھی آنکھ بند کر کے
اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ جو امریکی ہونے کے باوجود اسرائیلی مفادات کی
نگہبان ہو اس کی دوستی کیا ‘ دشمنی کیا اور کردار و اعتبار کیا ہوسکتا ہے
جبکہ ہلیری کلنٹن کا پاکستان میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور پاکستانی سیاسی
قیادتوں پر التفات و ساز باز اس بات کو بھی ثابت کررہی ہے کہ اسرائیل
امریکہ ذریعے پاکستان کو اپنے شکنجے میں پھانسنے کی بجائے اپنے نئے انداز
سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے براہ راست اپنے شکنجے میں پھانسنے کی کوششیں
کررہا ہے اس لئے حزب اقتدار و حزب اختلاف دونوں ہی جانب کی قیادتوں کو مکمل
طور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
وطن عزیزمیں ”مڈٹرم انتخابات “ کا انعقاد اسلئے بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا
کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں اکثریت کا حصول کسی بھی پارٹی کےلئے
ممکن نہیں ہے اور لے دے کر مڈٹرم انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر ایسی
ہی لولی لنگڑی حکومت تشکیل پائے گی جو اپوزیشن کی چیرہ دستیوں کا شکار رہے
گی جبکہ ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی باتیں اس لئے بھی قابل اثر دکھائی
نہیں دیتیں کہ سربراہ عساکر جنرل پرویز اشفاق کیانی اس بات سے اچھی طرح
واقف ہیں کہ آمریت کبھی ملک کے مستقبل کےلئے سودمند ثابت نہیں ہوئی جبکہ وہ
ایک محب وطن شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ آمر وقتی طور
پر حصول اقتدار میں تو کامیاب ضرور ہوجاتا ہے مگر زندگی بھر کےلئے تذلیل و
تضحیک کا نشانہ بھی بن جاتا ہے اور وہ ایک عزت دار انسان ہیں اسلئے وطن
عزیز میں آمریت یا فوجی حکومت کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں البتہ یہ
ہوسکتا ہے کہ قومی حکومت کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں کے معتدل مزاج اور
باشعور سیاستدانوں پر مشتمل ایسی نگران حکومت قائم کی جائے جو جی ایچ کیو
سے احکامات کے تابع رہے اور فوج خود سامنے نہیں آئے ایسی حکومت کے قیام
کےلئے اصل مسئلہ چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت کےلئے ایک ایسے غیر متنازعہ
سیاستدان کی تلاش ہوتی ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کےلئے قابل قبول ہو اور
موجودہ بحران میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جس طرح اپنا پہلو آلودگی سے
صاف رکھنے کی کوشش کی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ فوج کو نگران وزیراعظم تلاش
کرنے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑے گا اور موجودہ سیٹ اپ ہی جاری رہ سکتا ہے
صرف دونوں اطراف کے تکلیف وہ عناصر منظر سے ہٹا دئیے جائیں۔ یعنی آصف
زرداری کے ساتھ ساتھ شریف برادران کی بھی لمبے عرصے کے لئے چھٹی! دوسری
جانب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں وکلا تحریک ‘ عدلیہ کی آزادی
اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا کیا ہوگا تو اس سوال کا
جواب تو اسی وقت ہی سامنے آگیا تھا جب وکلا کی اس تحریک میں سیاستدانوں نے
اپنے عمل دخل کے ذریعے اس کے کردار کو سیاسی رنگ دینا شروع کیا تھا اور
میاں نواز شریف نے عدلیہ بحالی کا اسٹینڈ تو مکمل خلوص نیت سے لیا مگر
نااہلی کے غصے میںنادانستگی میں وکلاء تحریک کے لانگ مارچ اور دھرنے کو
مسلم لیگ (ن) سے منسوب کرکے وکلا کی اس تحریک کو اس طرح سے ہائی جیک کرلیا
ہ اب یہ تحریک افتخار چوہدری یا عدلیہ بحالی تحریک کی بجائے حکومت گرا
تحریک بن چکی ہے لہٰذا نہ تو عدلیہ کو 2نومبر والی پوزیشن ملے گی اور نہ ہی
معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی عمل میں آئے گی ۔
قطع نظر اس کے کہ سیاسی پوزیشن کیا ہوگی اور آنے والا وقت کیا گل کھلانے
والا ہے دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی ‘ وفاق کی پنجاب میں
مداخلت ‘ گورنر راج کا نفاذ اور میاں شہباز شریف کی جانب سے پنجاب کے
مینڈیٹ کی توہین کے الزام کے بعد پنجاب میں ہونے والی لسانی سیاست نے متحدہ
قومی موومنٹ کے اس مؤقف کو درست ثابت کردیا ہے کہ وطن عزیز کی سالمیت اور
احساس محرومی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پائیدار جمہوری نظام کے قیام کے لئے
صوبائی خود مختاری ناگزیر ہے اور صوبائی خود مختاری سے گریز کرنے والے
سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن ) بھی آج اس کی افادیت کو تسلیم کرکے یہ کہنے پر
مجبور ہوچکی ہے کہ مرکز کو صوبوں کے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں
ہونا چاہئے جبکہ یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ اگر جلد سے جلد مؤثر قانون
سازی کے ذریعے صوبوں کو خود مختار نہیں بنایا گیا تو صوبوں کے معاملات میں
مرکز کی بڑھتی ہوئی غیر دانشمندانہ مداخلت نہ صرف بار بار جمہوریتوں کی
رخصتی کے اسباب پیدا کرتی رہے گی بلکہ وطن عزیز کو بھی بحرانوں سے دوچار
رکھنے کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت کےلئے بھی خطرات پیدا کرنے کا باعث بنے رہے
گی ۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں جاری سیاسی محاذ آرائی کے باوجود مسلم
ل؛گ (ق) نے خود کو ابھی تک اس محاذآرائی سے دور رکھتے ہوئے دونوں جماعتوں
کے مابین صلح کا جو راستہ کھلا رکھا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ (ق) ل؛گ نہ
تو موجودہ حکومت و اقتدار میں شرکت چاہتی ہے کیونکہ اس کی عمر طویل نہیں
اور نہ ہی مسلم لیگ ( ن ) میں شامل ہونا چاہتی ہے کیونکہ اس کا مستقبل واضح
نہیں بلکہ وہ اب بھی صدر مشرف کے ہمراہ ہے جو اکتوبر میں دوسال پورے ہونے
کا انتظار کررہے ہیں اور دوسال پورے ہوتے ہیں ”پاسبان وطن “ کے ہمراہ
پاکستانی سیاست میں کچھ نئے گل کھلانے کی کوشش کریں گے اور شاید مسلم لیگ
(ق ) اسی وقت کا انتظار کررہی ہے تاکہ اسے جنرل مشرف کے کھلائے ہوئے گلوں
کی خوشبو سے ایک بار پھر سرور حاصل کرنے کا موقع مل سکے ۔ |