انسانی معاشرے میں جن شخصیات نے ظہور کیا
ہے اور تاریخ بشریت میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے
لکھا ہے ان لوگوں نے یہ ترقیاں اپنے معنوی امتیازات اور پاکیزہ اخلاقی جرآت
کے ساتھ ہی کیا ہے جس
معاشرے میں اخلاقیات کا فقدان ہو اور انسانی تعلیم اس معاشرے پر حاکم نہ ہو
تو وہ معاشرہ شائستہ حیات و زندگی نہیں ہو کرتا۔ بزرگ ترین تمدنوں اور بڑی
بڑی اقوام کی شکست کے اسباب صرف اقتصادی وضع کی خرابی ہی نہیں تھی بلکہ ان
کے سرمایہ معنوی و اخلاقی کا فقدان بھی تھا اسی لیے فضیلت و معنویت کے
ستونوں میں تنزل اور معاشرے کے ویران و برباد ہونے کی سب سے بڑی علت اسی
سرمایہ کا فقدا ہے۔
دوست بنانا وجود انسانی کی فطری ضرورت ہے مگر غیر فطری دوست بنانا یہ تو
زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔
خوشبختی و سعادت کا راز اس بات میں ہے کہ اچھے دوست بنائیں جائیں نا کہ
سیاسی دوست۔ بہت دیکھ بھال کر اور جانچ پرکھ کر چھان پھٹک کے دوست منتخب
کرنے چاہیے۔ جس شخص کی پاکیزگی اور فضیلت پر بھروسہ نہ ہو اس سے راہ و رسم
محبت پیدا کرنا غلطی ہے اور بعد میں اس دوست سے اپنی توقعات کے مطابق نا
فیصلے ہونے کے بعد اپنے اس دوست کو اپنا دشمن بنانا ایک اور بڑی غلطی ثابت
ہو سکتی ہے مگر جب ایک شخص دوست بنانے میں احتیاط سے کام نہیں لے پاتا تو
اس سے یہ بعید رکھنا کہ وہ اچھا دشمن بنا سکے گا ایک اور غلطی ہو گی۔ کسی
کا نا ہو سکے نا ہو اپنا تو بن۔ یہ تو ہو گئی ایک تمہید اب آتے ہیں اصل بات
کی طرف:
جسے انگریزی میں کہتے ہیں ناں ایٹ لاسٹ، تو جناب ایٹ لیسٹ نہیں ایٹ لاسٹ
پیپلز پارٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا (صحیح یا غلط کا فیصلہ عوام پر
چھوڑدینے دیجیے)۔ اور میاں صاحبان کی عجیب و غریب گفتگو اور انداز گفتگو کے
بعد پیپلز پارٹی نے بڑے مہذب اور بڑے پارلیمانی طریقے سے یہ اعلان کر دیا
کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا جدا ہیں۔ بیچ میں بڑے ماہرین
یعنی جناب مولانا فضل الرحمن صاحب، اسفند یار ولی صاحب اور رئیسانی صاحب نے
ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر توبہ کیجیے جو کوئی ملک و قوم کے حق میں کوئی
بات نکل کر سامنے آئی ہو اور بحرحال پیپلز پارٹی نے تو یہ فیصلہ کر لیا اور
اس فیصلے کے بعد بھی کئی فیصلے کر لیے گئے ہونگے جو دوسروں کے انداز گفتگو
کی طرح ہوئے تو ملک میں نوزائیدہ جمہوریت بڑے ازیت ناک مناظر دیکھنے پر
مجبور ہو جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جلسوں میں تو میاں صاحبان جس پنجرے
یا شیلڈ کے پیچھے سے چنگھاڑ رہے تھے جب لانگ مارچ کا دن آئے گا تو میدان
یعنی لانگ مارچ والے دن کیا شیلڈوں کے سائے میں میاں صاحبان جائیں گے یا
عوام کے ساتھ کھلے آسمان تلے قیادت فرمائیں گیں۔ ویسے ہمارے کچھ دوستوں کو
یہ بات ہضم نہیں ہوتی اور یار لوگ پوچھتے ہیں کہ یار یہ لانگ مارچ اگر کوئی
پنجاب یا سندھ سے کرتا ہے تو لانگ مارچ تو لانگ مارچ ہونی چاہیے ہمارے یار
کہتے ہیں کہ مارچ مطلب تو پیدل چلنا سمجھ میں آتا ہے یہ گاڑیوں اور ٹرینوں
میں سفر کرنے سے تو یہ گاڑی مارچ یا ٹرین مارچ بن جاتی ہے لانگ مارچ تو
نہیں رہتی تو ارے میرے بھولے یاروں یہ لانگ مارچ اصل میں عوام کے لیے کہا
جاتا ہے کہ تم کیونکہ عوام ہو تو پیدل چلو اور لانگ مارچ کرو ہم تو تمہاری
لانگ مارچ میں شرکت کرنے فوٹو ووٹو کھچوانے اور ٹی وی وغیرہ پر آنے کے لیے
آتے ہیں۔
بالاخر آخری خبریں آنے تک صدر پاکستان جناب محترم عزت مآب آصف علی زرداری
صاحب نے بارہ مارچ کو چند اہم کام نمٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور امکان یہ
ہے کہ سینٹ کی چیئرمین شپ جیسا بھاری بھرکم عہدہ جناب فاروق نائیک صاحب کے
کندھوں پر پہنچا ہی چاہتا ہے۔ اسکے علاوہ ق لیگ بھی بڑی حد تک سرگرم ہو چکی
ہے اور ق لیگ کس کی جھولی میں گرے گی اس کا فیصلہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے ہم
تو اپنی باتوں کو بار بار بدل نہیں سکتے اب تو اللہ ہی کرے جو ہونا ہو۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے ایم این اے جناب وقاص صاحب ٹی وی شو پر آرہے تھے
اور بڑی جزباتی باتیں کرگئے کہ ن لیگ کو جب ہی این آر او اور زرداری صاحب
کی بی اے نا ہونے جیسے مسائل جب ہی یاد آئے جب اپنی پنجاب حکومت ہاتھ سے
گئی۔ بات تو اچھی کہی دوسری طرف چلیں اس طرح نواز شریف صاحب نے پہلے تو اس
بات کا اعتراف کیا تھا اپنی پریس کانفرس میں کہ اس دور سے اچھا تو مشرف کا
دور تھا اور اب بی اے کی ڈگری کی بات پر چلیں شکر ہے مشرف صاحب کے گریجویٹ
ہولڈر ہونے کے آرڈینس کو بھی شرف قبولیت دے دیا کیا ہی پتا کچھ دنوں کے بعد
کچھ اور اور اس کے بعد کچھ اور اس طرح پہلے جان پھر جان جاں اور پھر جان
جاناں نا ہو جائیں نصیب دشمناں مشرف صاحب ویسے مشرف صاحب کی پنجاب میں
موجودگی کے باوجود صوبہ پنجاب میں محترم پرویز مشرف صاحب کے بہترین
پروٹوکول تو ملتا ہی رہا ہے ۔
ویسے جتنے پرمغز اور جزباتی جلسے نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان پنجاب
حکومت جانے کے بعد کر گزرے ہیں کاش ایسے ہی جلسے جلوس قریباً دو سال پہلے
برطرف اور معزول کی جانے والے عدلیہ کے لیے بھی لر لیے ہوتے تو شائد عدلیہ
آزاد ہی ہو چکی ہوتی۔ اصل میں بقول ہمارے ایک دوست شاعر
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے ہر دل پر یکساں
لیکن ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
بحرکیف جو ہوا اچھا نہیں ہوا ، جو ہو رہا ہے اچھا نہیں ہو رہا اور نصیب
دشمناں جو ہو گا اچھا نہیں ہوگا۔ میں اپنے اس مضمون کا اختتام اس دعائیہ
شعر کے ساتھ کرتا ہوں
نا وہ سمجھ سکیں ہیں نا سمجھ سکیں گے میری بات
الہی دے مجھ کو زباں اور جو نا دے دل ان کو اور
شاعر سے معزرت کے ساتھ
الہی ہمارے ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا اور جو اس ملک اور اسکی
بدنصیب قوم کے حق میں اچھا ہو الہی اپنے غیبی خزانے سے کچھ ایسا کر دے کہ
سب کچھ بگڑنے کے بعد بھی کچھ نا بگڑے کیونکہ یہاں کسی کا کھونا اور کسی کا
پانا اصل میں قوم کا کچھ کھونا اور قوم کا کچھ پا جانا ہے۔
بھائیوں اور سجنوں سے گزارش ہے کہ میں نے اپنے مقدور بھر یہ کوشش کی ہے کہ
میری زبان کسی بھی طرح غیر پارلیمانی نا ہونے پائے اس میں مجھے کتنی
کامیابی ملی یہ تو میرے مہربان مجھے بتا دیں گے مگر میں اپنے پڑھنے والے
بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ جہاں مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہو اور میرے
بھائیوں کو میری کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معافی اور معزرت کے لیے میرے
دونوں ہاتھ حاضر ہیں
میرا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہے ہر ایک کا اپنا ایک پوائنٹ آف ویو ہوتا
ہے جسے ہم نقطہ نظر کہتے ہیں اور ظاہر ہے آپ کا بھی ہو گا اور آپ کا اور
میرا نقطہ نظر ایک ہو جائے یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے۔ تو جس کو میرے نقطہ
نظر سے اختلاف ہے ان کے لیے تبصرے کا میدان حاضر ہے میں کوئی تبصرہ برائے
تبصرہ نہیں دوں گا آپ کی رائے اور تبصرے میرے لیے روشنی و معلومات کا سمندر
ثابت ہو سکتے ہیں |