عصر حاضر میں پاکستان میں تعلیم
اور صحت کو ایک بہترین کاروبار سمجھا جاتاہے۔اس لئے کہ یہ دونوں شعبے در
اصل عوام کی دکھتی رگیں ہیں۔ہر شخص کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ اس کی اولاد
بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرے تاکہ اس کا مستقبل سنور سکے۔اسی طرح صحت کو
درست حالت میں رکھنا اور بیما ری کی صورت میں علاج کروانا ہر شخص کی مجبوری
ہوتی ہے یوں ان دونوں دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر کوئی بھی جتنی مرضی ہو،
رقم نکال سکتا ہے۔اور اگر حکومت کا ان دونوں شعبہ جات پر کوئی کنٹرول نہ ہو
تو مطلب پرست لوگ لوٹ مار کا بازار گرم کر لیتے ہیں۔جیسے کہ آج کل ہو رہا
ہے۔دونوں میدانوں میں یعنی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑے پیار و محبت کے
ساتھ لوگوں کے جیبوں پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔بہ ایں وجہ میں اس سے قبل کئی
بار حکومت سے اپیل کر چکا ہوں کہ نجی اسکولوں کو کنٹرول کر نے کے لئے ریگو
لیٹری اتھارٹی ضرور ہونی چاہئیے تاکہ ان کو اپنے ناجائز من ما نیوں سے رو
کنے کے لئے کوئی ایک ہاتھ تو موجود ہو۔
خیر دیر آید درست آید ،اب خیبر پختو نخواہ کی صوبائی کابینہ نے متفقہ طور
پر ” پرا ئیویٹ سکو لز ریگو لیٹری اتھارٹی بل،، کی منظوری دی ہے۔جو
پرائیویٹ سکولوں کو کنٹرول کرے گا۔ان کے نصاب کا تعین کرے گا،ان کی فیس
مقرر کرے گا،چھٹیوں کے بارے میں فیصلہ بھی ریگو لیٹری اتھارٹی کرے گا۔اس کے
علاوہ پرائیویٹ اسکو لوں کی رجسٹریشن،اسا تذ ہ کے لئے تعلیمی معیار اور
تنخواہ کا تعین بھی ریگو لیٹری اتھارٹی ہی کرے گا۔اس بل میں موجود کسی بھی
شق کی خلاف ورزی پر پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جر مانہ یا چھ ماہ سے دو
سال تک قید کی سزا بھی دی جا سکے گی۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس وقت اگر ایک طرف ؓعض نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے
فروغ کے لئے نہایت اہم رول ادا کر رہے ہیں تو دوسریطرف بے شمار نجی تعلیمی
ادارے خا لصتا تجا رتی بنیادوں پر چل رہے ہیں ۔ان کے مالکان کے پیش ِ نظر
بچوں کا مستقبل ہر گز نہیں ، بلکہ مالی فا ئدہ حاصل کر نے کے لئے وہ نت نئے
حربے استعمال کرتے ہیں ،پانچ مرلے، دس مرلے یا ایک کنال پر محیط گھروں میں
سکولز اور کا لج چلا رہے ہیں ، اساتذہ کو اتنی کم تنخواہیں دے رہے ہیں جسے
بتاتے ہوئے شرم آ تی ہے۔ فیسیں اتنی زیادہ رکھی ہیں کہ ہر مہینے ان اداروں
کے ما لکا ن کے ذاتی اکا ونٹ میں دوگنا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔پھر اس پر طرہ
یہ کہ فیسوں میں آئے روز اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔میں حال ہی میں اس کی مثال
پیش کرونگا ۔ میرا نواسہ ورسک روڈ کے ایک نجی سکول میں پریپ کلاس میں زیر
تعلیم ہے۔
ماہ اپریل میں اس کی ماہانہ کل فیس بارہ سو روپے مقرر کی گئی تھی ، گزشتہ
سکول کی طرف سے حکم مو صول ہوا کہ ماہ ستمبر سے اب پندرہ سو روپے فیس لی جا
ئیگی۔یعنی تعلیمی سال کے شرو ع میں بارہ سو روپے اور تین ماہ گزرنے کے بعد
یکدم تین سو روپے کا اضا فہ۔ اس طر ح اخلا قی اور قا نو نی طور پر با لکل
نا جائز کا روائیاں نجی تعلیمی اداروں کا معمول بن چکا ہے۔ اند ریں حالات
میں صو بائی کا بینہ کا زیر بحث منظور شدہ بل یقینا ایک بڑا مستحسن اقدام
ہے ۔
اس نیک کام میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالنے کے لئے مختصر طور پر چند تجا ویز
پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اول یہ کہ نجی تعلیمی ادارہ کھو لنے کے لئے با قا عدہ قاعدہ قانون وضع کیا
جائے اور جب تک وہ قاعدہ قانون مکمل نہ ہو ،کسی کو کلا سیں شروع کرنے کی
اجازت نہ دی جائے۔دوم یہ کہ پورے صوبے میں درسی کتابیں ایک جیسی ہو نی
چاہئے۔اس وقت سرکاری اور نجی سکو لوں میں پڑھا ئی جانے والی کتب میں زمین
اور آ سمان کا فرق ہے۔بلکہ اس وقت ہر نجی سکو ل کا اپنا ہی نصاب ہے۔سوم یہ
کہ تمام نجی سکولوں کے لئے ایک جیسا یو نیفارم مقرر کیا جائے اور آخری
گزارش یہ کہ جب یہ بل منظور ہو جائے تو اس کو عملی جامہ پہنانے کی بھر پور
کو شش کی جائے کیو نکہ اکثر نجی سکو لوں کے ما لکان بڑے اثر و رسوخ رکھنے
والے لوگ ہیں او ر وہ ایکا کرکے گو ر نمنٹ کی چلنے نہیں دیتے۔
البتہ پرائیویٹ سکو لوں کے جا ئز مطا لبات کو بھی ضرور زیر غور لانا چا
ہئیے۔اور حکو مت کو ان کی ہر جا ئز مدد کرنی چاہئیے۔کیونکہ تعلیم ان کا کا
روبار ہی سہی، لیکن کاروبار اگر ا یما نداری اور خلوصِ نیت سے کیا جائے تو
پھر اس میں کو ئی مضا ئقہ نہیں۔بلا شک و شبہ اگر عوامی نیشنل پا رٹی نے
عوامی مفاد کے اس بل کو عملی جامہ پہنایا تو صو بہ خیبر پختو نخواہ کے با
سی انہیں مد توں یاد رکھیں گے اور صو بہ خیبر پختونخواہ کے اہلِ قلم حضرات
انہیں ” ویلڈن صوبا ئی کابینہ،، ضرور کہیںگے اور لکھیں گے۔۔ |