کشمیر کیا ہوا پرایا دل نے ان کا دکھایا

ملک کی سیاست کچھ ایسے نقاط پر اٹک کر رہ گئی ہے کہ عوام آٹا دال چاول تیل تندور کو بھول گئے ہیں جب اتنی چیزوں کو بھول سکتے ہی تو کشمیر تو ہم ساٹھ سال سے بھولے بیٹھے تھے اب کیسے یاد رکھتے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٢ نومبر، عدلیہ، وزیراعظم کے اختیارات اور صدر کے ناجائز اختیارات اور دھرنے اگر مگر کے چکر میں ہم کو ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے اور نام کو ہی لگ رہا تھا کہ ہم بھول گئے وہ تو شکر کریں کہ ملک کے سابق صدر جناب عزت مآب پرویز مشرف جو کہ ہمارے ملک عزیز کے سپہ سالار یعنی چیف آف آرمی اسٹاف بھی تھے وہ بھارت کے دورے پر گئے ہوئے ہیں اور جس طرح وہ کشمیر کا مقدمہ بھارتی میڈیا اور عوام کے سامنے لڑتے پائےگئے اور پاکستان کا دفاع کرتے پائے گئے ہم پاکستانیوں کو فخر کرنا چاہیے کہ ہمارا ایک سولجر ایکس ویکس میں نہیں جا بیٹھا بلکہ حقیقتآ ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرتا پھر رہا ہے وہ ناصرف امریکی اداروں میں جا کر انکو آنکھیں دکھانے کی جرآت کر رہا ہے بلکہ لائن آف کنٹرول کے اس پار جا کر بھی اس کا لب و لہجا ڈپلومیٹک نہیں ہوا بلکہ وہ وہاں جس طرح کشمیر کے مسئلہ کے حل اور پاکستانی خفیہ اداروں اور حکومتی اداروں کا دفاع کر رہا ہے اسے کہتے ہیں جزبہ ہو تو بے سیف بھی لڑتا ہے مومن۔ ہمارے نام نہاد ایسے ایسے سیاستدان پڑے ہوئے ہیں جنہوں نے کشمیر کے نام پر کیا کچھ نہیں بنایا کیا کیا سیاسی فائدے حاصل کیے اور کتنے معصوم لوگوں کا خون مٹی میں ملایا اور جب موقع آتا ہے تو ایسے بے ضمیر نام نہاد سیاستدانوں کو ہم کبھی دیکھیں تو ایسی باچھیں کھلا کھلا کر بھارتی سائڈ پر جاکر باتیں کرتے ہیں کہ دیکھ کر عقل حیران و پریشان رہ جاتی ہے۔ اگر مشرف نے پاکستان بھارت دوستی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا تو وہ کیوں وہاں بیٹھا پاکستان کا دفاع کر رہا ہے اور بس دوستی اور پتہ نہیں کون کون سی دوستیوں کے دعوے دار کیا کر رہے ہیں جو لوگ اپنے مخصوص صوبے سے نکل کر پاکستان کے باقی کے تین صوبوں میں جا کر قوم سے نا مل سکیں اور باقی کے تین صوبوں سے دوستی نہ رکھ سکیں کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ بھارت سے دوستی کی باتیں بھگاریں ۔ کیا جناب سابق پاکستانی وزیراعظم نے اپنے کسی دھرنے اور جلسے میں کشمیر کے حل کے لیے کچھ کرنے کا وعدہ کیا یا لیا اپنی قوم سے یا صرف اپنی حکومت کی بحالی اور دو یا تین افراد پر باقی حلف سے محروم رہ جانے والی عدلیہ (دراصل معزول چیف جسٹس) کے لیے ہی نعرے مارتے ہیں۔

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اسے کہتے ہیں سیاست، سیاست نام ہے اچھے طریقے سے حکمرانی کا فن، کیا ہمارے سیاست دان سیاست کر رہے ہیں یا محلاتی سازشیں کر رہے ہیں۔ عوام مہنگائی، نا انصافی، بدامنی، بے چینی، بے روزگاری، عزت نفس کے مجروح ہو جانے کے عوامل کے نیچے دبتی چلی جا رہی ہے مگر ہمارے سیاستدان، ہمارے نام نہاد علمائے سو اور ہمارے بکاؤ مال قلم کار جنکا پیشہ ہی لکھنا ہے اور جو زیادہ دے اس کے لیے لکھنا ہے یہ تمام خدا کے لیے بس کریں ان تمام کے بچوں کو دیکھو اچھی طرح پل پلا کر یا تو بیرون ملک میں بیٹھے ہونگے یا اگر کہیں خدا نا کرے اس ملک میں رہ گئے ہونگے تو بھی بڑے فائدے اٹھارہے ہونگے اور مزے کر رہے ہونگے اور ہم عوام ہمارا برا حال ہے ہر گزرتا دن ہمارے دلوں میں امید و نا امیدی کے دیے روشن اور گل کرتا ہے سوتے ہیں تو سوچوں میں گم سوتے ہیں کوئی کام کرتے ہیں تو پتہ نہیں کس دل و جان سے کرتے ہیں کھاتے ہیں تو خوف کھاتے ہیں پیتے ہیں تو غم و غصہ پیتے ہیں اور دیکھتے ہیں تو افراتفری بے چینی اور قیامت دیکھتے ہیں ۔ کیا خوب کسی نے کہا ہے ۔۔۔۔۔ اب تو گھبرا کر کہتے ہیں مر جائیں گیں مر کے بھی چین نا پایا تو کدھر جائیں گے۔

ویل ڈن مسٹر مشرف ہم یقیناً آپ کو مس کرتے ہیں آپ نے یہ کیا جمہوری تحفہ عوام کو دے دیا کہ جسنے ہمارے ملک سے ایک عظیم رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو چھین لیا اور ایسے ایسے بحران ہمیں دے دیے۔ کاش آپکے کچھ فیصلے ایسے نا ہوتے کہ جس کی بنا پر ہم آپ جیسے صدر سے محروم ہو گئے۔ آپ کی انڈین میڈیا کے سامنے بیٹل یعنی جنگ دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو چلا ہے کہ آپ سے جو کچھ غلط ہوا بحرکیف اس کا جواب آپکو اپنے رب کے حضور دینا ہو گا مگر لگتا ہے ہمارا ملک بڑا بدنصیب ہے کہ جسے ایک قوم کی تلاش ہے اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے ایک لیڈر کی تلاش ہے نام نہاد لیڈر تو ہم میں بہت ہیں مگر کیا کوئی لیڈر ایسا ہے جسے کسی ملکی عہدے و منصب کی ہوس و بھوک نا ہو ہاں لوگ کہتے ہیں ایک لیڈر ایسا ہے دیکھو وہ کب ہمارے درمیان آتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں سچ بولنے والا تین باتوں کو حاصل کر لیتا ہے
نمبر ایک ۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں
نمبر دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور
نمبر تین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی ہیبت چھا جاتی ہے

ایسی صفات رکھنے والے کسی شخص کو موجودہ سیاست ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں ہے کیا آپکی نظر میں ایسا کوئی ایک شخص ملکی سیاست میں ہے ؟ چاہے ملک میں ہو یا بیرون ملک

تبصرے وزن دار، زور دار اور با تہزیب ہوں تو تو بہتر ہے
بجائے اس کے کہ آپ اپنا وقت ضائیع کریں پورا آرٹیکل بڑھنے اور تبصرے میں
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532766 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.