مجھے گزشتہ ہفتے ایک صاحب
کا خط موصول ہوا جو میرے سامعین کے لئے من وعن پیش خدمت ہے۔
”محترمہ نصرت صاحبہ! السلام علیکم!
میرا نام عبدالحق ہے میرا تعلق کراچی سے ہے۔ میں گاہے بگاہے آپ کا کالم
پڑھتا رہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں سے آپ اور دیگر کالم نگار بہت جوش و خروش سے
توہین آمیز خاکوں سے متعلق کالم لکھ رہے ہیں۔ جو میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں
اور عشق مصطفی کی جڑیں اپنے دل کی زمین میں گہری سے گہری کرتا رہتا ہوں۔ اس
خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں آپ کو اپنا ایک خواب سنانا چاہتا ہوں۔ مگر
پہلے اپنا تعارف کرادوں۔
میری عمر 35 سال ہے میں الحمدللہ باریش اور پنج وقتہ نمازی ہوں۔ علماءکی
صحبت میں رہنا پسند کرتا ہوں اور ان کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے
کی کوشش کرتا ہوں۔ یہود و نصارا کی سازشوں، شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں سے
نمٹنے میں اپنے ممکنہ کردار کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں
گستاخانہ فلم کی اشاعت کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے بہت دکھی اور
رنجیدہ ہونے والوں میں ، میں بھی شامل ہوں۔ پھر جب جمعہ 21 ستمبر2012ءکی
تاریخ کو سرکاری سطح پر عشقِ رسول کا دن منانے کا اعلان ہوا تو ہم بہت خوش
ہوئے کیونکہ ہمارے رہنماﺅں نے پہلے ہی جمعہ کو یوم احتجاج منانے کا ارادہ
کررکھا تھا۔ ہم نے اِس دن اپنے احتجاج کو رجسٹر کرانے کے لئے بہت سے منصوبے
بنا رکھے تھے امریکی ریسٹونٹس، بینک، سفارت خانے اور دیگر مقامات ہماری ہٹ
لسٹ پر تھے۔ کسی طرح جمعہ کا دن آیا میں نے نہا دھوکر نماز فجر ادا کی (گویا
آج کوئی عید کا دن ہو) پورا اہتمام کیا اور گھر سے نکل گیا۔ سوچ یہی تھی کہ
یقینا اگر آج کسی پولیس والے کی گولی کا نشانہ بن گیا تو شہید ہوں گا ورنہ
غازی !!
دل میں ٹھان رکھی تھی کہ کسی نہ کسی طرح امریکی املاک کو زیادہ سے زیادہ
نقصان پہنچانا ہے۔ ہم کئی عاشقانِ رسول ﷺ مل کر آگے بڑھے۔ قریب ہی ایک
امریکی بینک کی برانچ تھی جو ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کے گراﺅنڈ فلور پر قائم
تھی۔ وہ ہمارا پہلا ہدف تھا۔ ہم کوئی پچاس کے قریب عاشقانِ رسول ہوگئے تھے
جو ہاتھوں میں ڈنڈے،پٹرول اور دیگر ضروری سامان سے لیس تھے۔ عام تعطیل کی
وجہ سے بینک بند تھا۔ سارے لوگوں نے ایک ساتھ بلڈنگ پر دھاوا بول دیا۔
شیشوں کو ڈنڈوں سے توڑ دیا گیا مگر آگے لوہے کی گرل لگی ہوئی تھی۔ اندر سے
بینک کے دو باریش پٹھان گارڈز نے ہمیں للکارا مگر ہجوم کے سامنے اُن کی کیا
چلنی تھی۔ اندر گھسنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد چاروں طرف سے پٹرول چھڑک
کے آگ لگادی گئی اور ہم سب شعلوں کو بڑھتا دیکھنے لگے۔ دُور سے پولیس سائرن
کی آواز آئی تو ہم سب مخالف سمت میں دوڑنے لگے دُور ہوتے ہوئے میں نے مڑ کے
دیکھا تو آگ کے شعلے بہت بلند ہوچکے تھے اتنے بلند کہ اُس بلڈنگ کے اوپر
اپارٹمنٹ میں رہنے والوں کی بالکونی میں ٹنگے کپڑوں میں لپٹ چکے تھے۔ میں
نے شاید دو یا تین بالکونیوں میں خواتین کو اپنا سامان بچانے کی کوشش کرتے
ہوئے بھی دیکھا۔
بہرحال۔عاشقانِ رسول کا ہجوم آگے بڑھتا گیا۔ ایک چوک میں پھر سے سب اکٹھا
ہوئے امریکہ کا ایک بہت بڑا جھنڈا نذرِ آتش کیا گیا۔ ہمارے کسی دوست نے ایک
بہت بڑی تصویر گستاخانہ فلم بنانے والے شخص ٹیری جونز کی پرنٹ کروائی تھی۔
اس کو پہلے زمین پہ رکھ کر سب نے جوتے رگڑے اُس کی خوب رسوائی کرنے کے بعد
اُس کو نذرِ آتش کردیاگیا۔وہ دن طویل تھا۔ بہت سارے سائن بورڈز بس
اسٹاپس،پٹرول پمپس نذر آتش ہوئے ۔ مختصراً آپ اور آپ کے قارئین میرے مزاج
سے واقف ہو گئے ہوں گے ۔
یہ تھا میرا تعارف۔ میں نے آپ کو جس لئے خط لکھا ہے وہ یقینا میرا تعارف
نہیں ہے بلکہ میرا خط لکھنے کا مقصد دراصل ایک خواب کا قصہ سنانا ہے۔ یومِ
عشقِ رسول کے کچھ دنوں بعد میں ایک خواب دیکھا۔ دیکھا کہ ایک بہت بڑا اور
بہت پرشکوہ دربار ساہے۔ شاید ہزاروں لوگ دائیں بائیں دست بدست کھڑے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے کچھ لوگوں کے بارے میں کسی قسم کا انصاف ہورہا ہے۔ ایک
ایک کرکے کوئی شخص سامنے آتا ہے اُس کے بارے میں کچھ باتیں ہوتی ہیں پھر
حکم ہوتا ہے جس کے تحت اُس شخص کو دائیں اور بائیں موجود دو دروازوں میں سے
ایک میں داخل کردیا جاتا ہے۔ دائیں ہاتھ کے دروازے کا رنگ سبز سا محسوس
ہوتا ہے جبکہ بائیں کا سرخ۔ سبز دروازے کو دیکھ کر کچھ فرحت کا احسا س ہوتا
ہے اور بائیں کو دیکھ کروحشت کا۔ بلکہ سخت وحشت کا۔
کچھ دیر یہی سماع رہا۔ پھر یوں لگا کہ کوئی مجھے پکار رہا ہو۔ عبدالحق حاضر
ہو! عبدالحق حاضر ہو! میں اچانک گویا کسی بہت بڑے بادشاہ کے روبرو پہنچ
گیا۔ ایسا لگا کوئی حساب مانگا جارہا ہو۔ مجھے احساس ہے کہ شاید میں نے
اپنی عبادات کا تذکرہ کیا، روزے نماز، حج اور اپنے عشقِ نبی ﷺ کا ذکر کیا۔
وغیرہ وغیرہ۔ کچھ یاد نہیں کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے لگا کہ مجھے سرخ دروازے کی
طرف لے جایا جارہا ہے جس کو دُور سے دیکھ کر ہی مجھے وحشت ہورہی ہے۔ دہشت
طاری ہے مگر شاید کسی نے مجھے جکڑ رکھاہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دروازہ
دہشت قریب آتا جارہا ہے۔مجھے محسوس ہوا کہ شاید میرے ساتھ کوئی اور شخص بھی
ہے جسے سرخ دروازے کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ میں نے نظر گھما کے دیکھا تو
اُس شخص کی شکل جانی پہچانی سی لگی۔ کون تھا وہ!
میں نے اُس کو کہاں دیکھا تھا!
اسی اثناءمیں سرخ دروازہ بہت قریب آگیا تھا اب اُس سے نکلنے والی آگ کے
شعلوں کی گرمی بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔
اچانک مجھے یاد آگیا کہ وہ آدمی کون تھا۔
وہ آدمی.... وہ....
ٹیری جونز تھا.... |