میرے والد بزرگوار اپنی عمر کی
سات دہائیاں گزار چکے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت اُن کا سایہ ہمارے سروں
پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے (آمین)۔ وہ اتنے تعلیم یافتہ تو نہیں ہیں مگر
حالاتِ حاضرہ سے مکمل آگہی رکھنے کے ساتھ ساتھ دُنیا کے مختلف ممالک، مذاہب
اور تاریخی مقامات بارے معلومات کا بیش بہا ذخیرہ پاس ضروررکھتے ہیں۔
روزانہ مقبول ترین عالمی ریڈیو اسٹیشنوں بی بی سی، وائس آف امریکا، ریڈیو
صدائے روس، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، ڈوچے ویلے اور ریڈیو تہران کی اُردو،
ہندی اور پشتو نشریات سننا اُن کا معمول ہے جبکہ اخبارات کا مطالعہ اور
مختلف تاریخی کتب پڑھنے کا شغف بھی رکھتے ہیں۔ جب بھی میرا کسی تاریخی
موضوع پر اُن سے تبادلہ خیال ہوتا ہے تو اس گفتگو کے دوران جہاں میں بہت
ساری مفید معلومات اکٹھی کر لیتا ہوں وہیں مجھے اپنے ناقص علم و فہم کا
ادراک بھی ہو جاتا ہے۔ اپنے والد بزرگوار کے ایک سوال نے مجھے ورطہ حیرت
میں ڈال دیا ہے اور اس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے میں نے بہت سی تاریخی کتابیں
تک کھنگال لیں مگر گتھی پھر بھی نہ سلجھی تاہم اس حوالے سے قرآن کریم کے
بیان کردہ نظریئے پر اتفاق ممکن ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ
السلام روئے زمین پر پہلے انسان ہیں۔ ہمارے اور تمام انسانیت کے باپ حضرت
آدم علیہ السلام ہیں تو دُنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانیں الگ الگ
کیوں ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی قوم ایک ہی زبان بولتی تھی
تاہم کچھ عرصے بعد انسان نے ایک مینار بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کی
جسے مینارِ بابل کہا جاتا ہے۔ یہ سمیری تہذیب کی قدیم ترین یادگاروں میں سب
سے اونچی عمارت تھی۔ اس عمارت کو شینار (موجودہ عراق) کے میدانی علاقہ میں
تعمیر کیا گیا تھا اور پتھر کی بجائے پختہ اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ مخروطی
شکل کی یہ سات منزلہ عمارت تین سو یا تین ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس مینار کی
بنیادیں سب سے پہلے ایک یورپین نے 1914ءمیں دریافت کیں لیکن مدت تعمیر کا
اندازہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ بعض روایات کے مطابق یہ برج یا مینار حضرت نوح
علیہ السلام کے بعد کی نسلوں نے بنایا تھا اور اس زمانے کا بادشاہ اس کے
ذریعے آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا۔ خدا نے اس گستاخی کی سزا یہ دی کہ مینار
کی مختلف منزلوں پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کر دیں تاکہ وہ ایک دوسرے
کی بات نہ سمجھ سکیں جبکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ چونکہ اس برج یا مینار کی
منزلیں سات تھیں اور دُنیا کے براعظم بھی سات ہیں یوں ہر منزل پر رہنے
والوں کی زبانیں مختلف کرکے انہیں ایک طوفان کے ذریعے دُنیا کے سات مختلف
براعظموں میں اُٹھا کر پھینک دیا گیا ورنہ ذرائع آمدورفت کی ایجاد سے قبل
ہی ان براعظموں میں انسانی زندگی کے آثار ہرگز نہ ملتے کیونکہ زمین کا جو
ٹکڑا براعظم کہلاتا ہے وہ چاروں طرف سے سمندر میں ڈوبا ہوتا ہے اور زمین کے
اس خطہ میں انسانی زندگی کا وجود تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب سمندری اور فضائی
ذرائع آمدورفت موجود ہوں۔
تاہم جدید ماہرین لسانیت کا خیال ہے کہ زبانوں میں عقل کو چکرا دینے والا
صوتی اور نحوی تنوع ہزاروں سال کے دوران رونما ہوا جبکہ چند ماہرین لسانیت
ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس تمام تر رنگا رنگی یا انتشار کے باوجود
ساری کی ساری زبانوں کے ڈانڈے ایک ہی زبان سے ملتے ہیں۔ 1859ءمیں چارلس
ڈارون نے ایک انتہائی خطرناک نظریہ پیش کیا جسے ”نظریہ ارتقائ“ کہا جاتا ہے۔
اس نظریہ کے مطابق انسان بن مانس (بندر) کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی
وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ نظریہ ارتقاءکے حامی ابھی
تک اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ حیات کی ابتداءکیسے ہوئی جبکہ اس کے
برعکس ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل اسی حلیئے
سے بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔قرآنی نظریہ کے مطابق بھی ابتداءمیں
تمام انسان ایک اُمت اور ایک زبان تھے پھر وہ مختلف ہو گئے یعنی اللہ نے
اُمت واحدہ میں سے مختلف اُمتیں بنا کر انہیں جدا جدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے
حضرت آدم علیہ السلام سے انسان کی نسل کو آگے بڑھایا مگر تمام انسانوں کی
شکلیں آدم علیہ السلام جیسی نہیں بنائیں۔ قد و قامت، رنگ، آواز، عقل وغیرہ
سب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا کیوں ہے اس بارے میں قرآن کریم کی
سورة الروم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں
اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف
(بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کیلئے نشانیاں ہیں۔“
یہ تو ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ اگر سب انسانوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتیں تو
پھر حسن و جمال کا کوئی قصہ کہانی نہ ہوتی۔ اگر پوری دُنیا کا موسم ایک
ہوتا اور پوری زمین ایک جیسی ہوتی، سب لوگوں کی عقل اور سمجھ بوجھ ایک جیسی
ہوتی تو کوئی علمی اختلاف نہ ہوتا بلکہ یوں کہہ لیں کوئی علمی شغف نہ ہوتا۔
تمام اشیائے خورد و نوش کا ذائقہ ایک جیسا ہوتا تو ایک علاقے میں ضرورت سے
زائد اشیاءکی پیداوار کی خرید و فروخت ممکن نہ ہوتی لہٰذا معلوم ہوا یہ
مختلف زبانیں، لہجے، اسلوب وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ سورة رحمن
میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی نعمت خداوندی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ
اس کے نطق و بیان کی قوت ہے یعنی زبانوں کا ظہور بھی انسانی معاشرے کے
ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ قرآن کے نظریہ کی روشنی میں یہ قیاس آرائی غلط ثابت
ہو جاتی ہے کہ بابل کے مینار پر خدا نے انسانوں کو زبان کے اعتبار سے الگ
کرنے کیلئے بگاڑ پیدا کیا جبکہ یہاں ڈارون کے نظریہ ارتقاءکی بھی نفی ہوتی
ہے۔ سننے میں تو یہ نظریہ ارتقاءبڑا ہی دلچسپ ہے اور اسی لئے اس پر نہ صرف
سینکڑوں کہانیاںاور کتابیں لکھی جا چکی ہیں بلکہ متعدد فلمیں بھی بن چکی
ہیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس وقت دنیا میں ایک محتاط اندازے کے
مطابق چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر زبان اپنے مطالب اور
گرائمر رکھتی ہے اور ہر زبان کی ادائیگی اور لہجہ بھی مختلف ہے۔ یہ زبانیں
زیادہ تر قوموں اور خطوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں مگر کچھ زبانیں ایسی
ہیں جو ایک سے زیادہ قوموں اور خطوں میں بولی جاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔
زبان جو بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ وہ خاص صفت ہے جو انسان کو دوسرے زندہ عالم
سے نمایاں کرتی ہے۔ آج انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں زبان کا ایک بڑا
حصہ ہے۔ اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ روئے زمین پر جس قدر مختلف زبانیں
بولنے والے لوگ، قبائل اور قومیں رہتی ہیں اگر سب ایک انسان کی اولاد ہیں
تو ان اولین انسانوں کی پہلی زبان کونسی تھی؟ عبرانی، سریانی، عربی اور
سنسکرت زبانوں کا شمار دُنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے مگر بنی نوع
انسان کی پہلی زبان کے بارے میں تاریخ کی کتابیں اختلافات سے بھری ہوئی
ہیں۔ قرآن کے مطابق آدم علیہ السلام کو جو چیز دوسروں سے نمایاں کرتی تھی
وہ زبان کا علم تھا جس کی برتری نے آدم علیہ السلام کو خلافت تک
پہنچایا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جنت میں
حضرت آدم علیہ السلام کی زبان عربی تھی لیکن جب انہوں نے اس درخت کا پھل
کھا لیا جس کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا تو عربی زبان ان سے
چھین لی گئی اور وہ سریانی زبان بولنے لگے پھر جب اللہ نے ان کی توبہ قبول
کر دی تو عربی زبان بھی انہیں دوبارہ عطاءکر دی گئی اور وہ جنت سے دنیا میں
آئے تو ان کی زبان عربی تھی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرتِ انسان نے
ابتداءسے ہی ایک سے زائد زبانیں بولنا شروع کر دی تھیں اور پھر جب حضرت آدم
علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد سے دُنیا آباد ہونی شروع ہوئی اور اللہ
تعالیٰ نے انسانوں کی نسل پروان چڑھائی جو دنیا میں چہارسُو پھیل گئی تو ان
کو مختلف قبیلوں اور گروہوں میں بھی بانٹ دیا گیا۔
ان قبیلوں اور گروہوں میں جب دیگر زبانوں نے جنم لیا تو پھر ہر قوم اور ہر
زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءو رسل بھیجے تاکہ وہ اپنی قوم کو ان کی
اپنی ہی زبان میں احکام الٰہی کی تعلیم دے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے جو صحیفے اور کتابیں اپنے نبیوں پر نازل فرمائیں یہ صحیفے اور کتابیں
بہت سی ہیں جن کی گنتی یقینی طور پر معلوم نہیں البتہ ان میں جو چار کتابیں
مشہور ہیں ان میں توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی
گئی، زبور حضرت داﺅد علیہ السلام پر سریانی زبان میں نازل کی گئی، انجیل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل ہوئی جبکہ قرآن مجید حضرت
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عربی زبان میں نازل کی گئی۔ قرآن
کریم میں مختلف قوموں اور قبیلوں کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبر بھیجے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ یقینا ان میں بیشتر انبیاءکی زبانیں
بھی مختلف ہوں گی اور اُن پر جو آسمانی صحیفے نازل ہوئے وہ بھی کسی ایک
زبان تک محدود نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مذاہب، گروہوں اور قوموں
کی زبانوں میں تفریق پیدا کر دی ہے تاکہ ہر ایک کی الگ پہچان اور شناخت
ممکن ہو سکے۔ آج مسلمانوں کی سب سے بڑی زبان عربی ہے لیکن ساتھ ہی مختلف
چھوٹی زبانیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح عبرانی اگر اہلِ کتاب کی زبان ہے تو
ساتھ ہی انگریزی، سپینش اور فرنچ وغیرہ بھی بولی جاتی ہیں۔ سنسکرت ہندوستان
کی قدیم ترین زبان ہے۔ اہلِ ہنود کے قدیم مذہبی، فکری، تاریخی ادب کا بڑا
حصہ اسی زبان میں لکھا گیا ہے۔ فی زمانہ گو کہ یہ زبان زندہ نہیں رہی تاہم
اس سے ہندی ، پراکرت اور پالی برج نے جنم لیا۔ حقیقت میں ہندی انیسویں صدی
کے اوائل میں اُردو سے بنائی گئی بس صرف فرق یہ ہے کہ ہندی کا جھکاﺅ سنسکرت
کی طرف بہت زیادہ ہے جبکہ پالی بودھوں کی زبان تھی تاہم اس کے ادب کو
پراکرت کہا جاتا تھا۔ بدھ مت کی بیشتر مقدس کتب بھی اسی زبان میں لکھی گئی
ہیں۔ دُنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کرنا یقینا اللہ کی قدت کی ایک بہت بڑی
نشانی ہے۔ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے لہجے
سے پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک اور علاقہ کا ہے۔ صرف زبان ہی اس
کا مکمل تعارف کرا دیتی ہے۔ |