اردو کے قدیم شاعروں میں نظیرؔ
اکبرآبادی کو جو انفرادی مقام حاصل ہے وہ شاید ہی ان کے دور کے کسی دوسرے
شاعر کو ملا ہو ۔ نظیرؔ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی عام
شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں بے طرح کام
یاب و کامران بھی رہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے
کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کرکے پیش کیا ۔
انھوں نے اپنے کلام میں سماجی ، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و
موضوعات کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع عوا م اور عوامی
زندگی کو بنایا ۔ ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں
حددرجہ نمایاں ہیں ۔ نظیرؔ کی شاعری میں ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاو نے
انھیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا۔
بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ نظیرؔ جدید نظم کے بنیاد گزار ہیں۔ نظم نگاری
میں نظیرؔ نے ممتاز مقام حاصل کیا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے یہاں غزلیں بھی
موجود ہیں لیکن یہ غزلیں بھی موضوعاتی ہیں۔ غزل کے تمام اشعار میں نظیرؔ نے
ایک ہی مضمون کو بیان کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں بھی نظم کا مزہ ملتا ہے۔
حالیؔ اور آزادؔ نے جس جدید نظم کی تحریک چلائی اس کی بنیادنظیرؔ نے بہت
پہلے ہی رکھ دی تھی۔ اردو ادب کے اولین نقادوں نے نظیرؔ کی شاعری کو اہمیت
نہیں دی۔ حتیٰ کہ شیفتہؔ جیسے صاحبِ نظر ادیب و شاعر نے نظیرؔ کی عوامی
زبان اورلب و لہجے پر سوقیانہ پن کاا لزام لگاکر انھیں دنیاے شاعری سے شہر
بدر کردیااور محمد حسین آزادؔ نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن یہ ایک
حقیقت ہے کہ آج کے ناقدین انھیں نظم نگاری کا امام تصور کرتے ہیں۔
نظیرؔ کے دور میں غزل گوئی کا رجحان غالب تھا۔ شاعری عشق و محبت، عشوہ و
غمزہ، ناز و ادا، وفا و جفا، رخسار و قد، گل و بلبل، نالہ و فریاد، شراب و
کباب جیسے موضوعات کے گرد گردش کررہی تھی۔ نظیرؔ ہی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں
نے اس طرزِ شاعری سے ہٹ کر اپنی جداگانہ راہ ڈھونڈ نکالی اور نظم نگاری کی
طرف اپنے اشہبِ قلم کو موڑا۔ اپنی شاعری کا موضوع عوامی زندگی کے مسائل اور
ہندوستانی رسم و رواج اور ان کے جِلو میں فروغ پانے والے بے جا تصورات کو
بنایا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی سماج کی اصلاح کی کوشش کی ۔
نظیرؔ کی پیدایش دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد کانام فاروق تھا۔ ان کی پرورش و
پرداخت بڑے لاڈ پیار سے ہوئی۔ جب نظیرؔ نے آنکھ کھولی تو دہلی طرح طرح کے
مصائب و آلام کا شکار تھی۔ دہلی ایک پُرآشوب دور سے گذررہی تھی۔ نادر شاہ
اور احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں کی وجہ سے دہلی بالکل تباہ و برباد
ہوچکی تھی۔ یہاں کے باشندے دوسرے محفوظ علاقوں میں اپنی جان کی حفاظت کے
لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نظیرؔ اکبرآبادی کی والدہ بھی اس دورِ
ابتلا و آزمایش سے تنگ آکر آگرہ کوچ کرگئیں ۔ جہاں نظیرؔ نے ابتدائی
تعلیم حاصل کی ۔
آگرہ میں نظیرؔ نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور جوانی بڑے ہی ناز و نعم سے بسر
کی ۔ وہ دنیا کی ہر فکر سے بے نیاز اپنے زمانے کی جملہ تفریحات میں دل کھول
کر حصہ لیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بچپن کے کھیل تماشوں کا
تذکرہ بھی ملتا ہے۔ پتنگ بازی ، کبوتر بازی، بٹیر بازی، کبڈی ،شطرنج ،
وغیرہ کھیل تماشوں سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے۔
نظیر کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے بے حد ذہین تھے۔ اردو اور
فارسی میں انھیں دسترس تھی۔ ساتھ ہی انھوں نے عربی ، پوربی ، ہندی، پنجابی
اور مارواڑی جیسی زبانوںمیں بھی ادیبانہ مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ بہترین
خوش نویس تھے۔ درس و تدریس کے میدان کے بھی شہ سوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ
کتابوں میں ان کے کئی نام ور شاگردوں کے نام ملتے ہیں ۔ بعض ناقدین انھیں
غالبؔ کے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
نظیر ؔ کا مسلک تصوف تھا۔ وہ صوفی منش آدمی تھے۔ صوفیہ کے نظیریۂ وحدۃ
الوجود کے قائل تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام ،اہل بیت
اطہار، اولیاے کرام اور بزرگانِ دین سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے
اپنی شاعری کونعتیہ کلام سے بھی آراستہ کیا ان کی نعتوں میں ایک خوش گوار
کشش اور احترام و ادب ملتا ہے۔ چند اشعار بہ طورِ نمونہ ؎
تم شہِ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
حاکمِ دینِ متیں ہو یا محمد مصطفیٰ
قبلہِ اہلِ یقیں ہو یا محمد مصطفیٰ
رحمۃ للعالمیں ہو یا محمد مصطفیٰ
ہیں جو یہ دونوں جہاںکی آفرینش کے چمن
جس میں کیا کیا کچھ عیاں ہیں صنعِ خالق کے چمن
باعثِ خلق ان کے ہو تم یا حبیبِ ذوالمنن
اوراک مطلع پڑھوں میںیمن سے جسکے سخن
سو سعادت کے قریں ہو یا محمد مصطفیٰ
مخبرِ صادق ہو تم یا حضرتِ خیر الورا
سرورِ ہر دوسرا اور شافعِ روزِ جزا
ہے تمہاری ذاتِ والا منبعِ جود و سخا
کیا نظیرؔ اک ، اور بھی سب کی مدد کا آسرا
یاں بھی تم واں بھی تمہیں ہو یا محمد مصطفیٰ
نظیرؔ بڑے خوش اخلاق اور اچھی عادات و اطوار حامل شخص تھے۔ ان کے مزاج میں
تکدر نہ تھا۔وہ دوراندیش ، خوددار اور استغنا جیسی صفات سے متصف تھے۔ زندگی
بھر کسی کے دست نگر نہ رہے۔ محنت و مشقت کے عادی تھے۔
نظیرؔ اردو زبان کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کانام اردو شاعری کی تاریخ میں جلی
حرفوں سے لکھا جارہا ہے۔ نظیرؔ فطری شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعر ی
میں فطری عناصر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ روز مرہ مناظر قدرت ، عوامی زندگی ،
سماج کے دبے کچلے لوگوں کے مسائل اور ان کا حل ، ہندوستانی موسم اور تہوار
اور ہندوستانی معاشرے کے رسم و رواج کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں رچی بسی
ہوئی ہے۔ یہاں کے میلوں ، ٹھیلوں اور تہواروں کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور
طرزِ نگارش میں نظیرؔ نے جس خوش اسلوبی اور رنگارنگی سے پیش کیا ہے وہ
انھیں کا حصہ ہے۔
دیوالی، ہولی، عید ، شبِ برات، بسنت ، راکھی، تیراکی، سلیم چشتی رحمۃ اللہ
علیہ کا عرس، وغیرہ تقریبات کا بیان بڑے پُرلطف اور دل چسپ انداز میں کیا
ہے۔ برسات کا تذکرہ ، جاڑے کی بہاریں اور دوسرے موسموں کا ذکر بھی نظیرؔ نے
دل کو موہ لینے والے پیرایے میں کیا ہے۔ ان کے یہاں تصویریت کے حُسن اور
منظر کشی کے جمال کا رچاو بڑی گہرائی سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں
مناظر قدرت کی جو امیجری ابھاری ہے اور پیکریت کا جو انداز اپنایا ہے وہ
قابل دید ہے۔ شاعری سے انھوں نے مصوری کا جو کام لیا ہے عہد جدید کے شعرا
اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہوسکتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری جدید شاعری
کی خوبیوں سے ہم رشتہ ہوگئی ہے۔ نظیرؔ کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے
حادثات و واقعات ہیں۔ برسات کی بہاریں نظم میں انھوں نے اپنی قوتِ متخیلہ
کو بروے کار لاتے ہوئے برسات میں ہونے والے ہر عمل اور منظر کی بھرپور
عکاسی کی ہے۔ گویا انھوں نے لفظوں سے برسات کے موسم کی ایک دل کش اور خوش
نما تصویر اتاردی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے کھیتوں میں سبزہ اور ہریالی،
پھول پتے، کانٹے ، بدلیاں ، پھوار ، تیتر ، بٹیر ، فاختہ ، قمریاں ، پپیہے
، بگلے وغیرہ کا ذکر شاعرانہ فن کاری سے کیا ہے۔ اس نظم کو فن کے لحاظ سے
ایک شاہ کار نظم کا درجہ دیا گیا ہے۔
نظیرؔ کی کئی نظموں میں ظرافت اور طنز و نشتریت کے کاٹ دار وار بھی ملتے
ہیں ۔ حقائق و معارف ، مسائل تصوف ، وحدۃ الوجود ، اخلاقیات ، پند و نصائح
وغیرہ موضوعات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔کلیاتِ نظیرؔ میں غزلیں
بھی ہیں ، بعض نظمیں بڑی طویل ہیں جن کے مطالعہ سے مثنوی کا گمان گذرتا ہے۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کرامات، خیبر کی لڑائی، لیلیٰ مجنوں ، فاختہ
وغیرہ نظمیں مثنوی کی خصوصیات سے ہم آہنگ طویل نظمیں ہیں۔ نظیرؔ نے اپنی
نظموں کے حوالے سے اخلاقی موضوعات کا احاطہ بھی کیا، مذہب، دنیا ، مکافاتِ
عمل ، خوابِ غفلت وغیرہ نظمیں اخلاقیات پر عمدہ اور نفیس نظمیں ہیں۔
’’بنجارہ نامہ‘‘ نظیرؔ کی مشہور ترین نظم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے بنجارہ
کو تمثیل بناکر دنیا کی بے ثباتی و ناپائداری کو نہایت سادگی ، سلاست و
روانی سے پیش کیا ہے ۔ دنیا کی رنگینی ، مال و متاع، دولت و ثروت ، جاہ و
حشم ، عزت و شوکت ، ٹھاٹ باٹ اور اپنے پراے سب کچھ فانی ہیں ، یہ سب چیزیں
دنیا میں رہنے والی نہیں ہیں۔ ’’بنجارہ نامہ‘‘ بہ ظوہر ایک عام سی نظم ہے
لیکن اس میں نظیرؔ کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ موجود ہے۔ تصوف و معرفت کی
ریاضتوں کا اظہاریہ بھی اس نظم کی زیریں رَو میں پنہاں دکھائی دیتا ہے ۔
نظیرؔنے اپنی اس نظم میں دنیا کی بے ثباتی کے بیان کا جو طرز اپنایا ہے وہ
بڑا ہی عمدہ ہے ؎
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے د ن رات بجا کرنقارا
کیا بِدھیا بینسا بیل شتر کیا گوئیں پِلّا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
دنیا کی شان و شوکت ، جاہ و منصب ، دولت و ثروت یہ سب اسی وقت تک ہیں جب تک
کہ سانس چل رہی ہے ۔ جیسے ہی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی یہ سب ٹھاٹ
باٹ ختم ہوگئے۔ یہ دنیا فانی ہے اور اس کی جملہ اشیا بھی فانی ؎
جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی بھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
اسی طرح نظیرؔ کی نظموں میں ’’شہر آشوب‘‘ کا ایک بلند مقام ہے۔ یہ نظم
آگرے کی تباہی و بربادی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ آگرہ ایسا تاراج ہوا ہے
اور بے کاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کوئی
بھی زندہ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ، بات نہیں کرتا، آگرے کا روزگار بند
ہوہونے کی وجہ سے زبان بھی بار بار بند ہوجاتی ہے۔
آگرہ میں ہر کوئی ہر طرح کی پریشانی کا شکار ہے۔ صرّاف ، بنیے ، جوہری ،
سیٹھ ، ہنر مند، دست کار، سنار، دکان دار، کوتوال ، چوکیدار، ملاح ، سب
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ جوکل تک لوگوں کو ادھار دیتے تھے وہ آج خود
ادھار کھارہے ہیں۔ حُسن کے پجاری اور عاشق و معشوق بھی اپنی ادائیں بھول
گئے ہیں ۔ غرض یہ کہ ’’شہر آشوب‘‘ میں نظیرؔ نے بڑی فن کا ری سے آگرے کی
بربادی اور پریشاں حالی کا نقشہ کھینچا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عبرت بھی دلائی
ہے۔
علاوہ ازیں ’’روٹی نامہ ‘‘نظیرؔ کی ایک ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے روٹی
ملنے پر یعنی رزق کی فراوانی ہونے سے انسان کی عادات و اطوار میں جو فرق
پیدا ہوجاتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے طنز و نشتریت کے ہلکے ہلکے وار بھی کیے
ہیں ۔ نظیرؔ کے مطابق مفلسی انسان کو ذلیل و رسوا بنا کررکھ دیتی ہے۔ اور
جیسے ہی اس کو پیٹ بھر روٹی مل جاتی ہے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور اپنی
اوقات بھول جاتا ہے۔ اچھلتا کودتا ہے ، ہنستا کھیلتا اور قہقہے لگاتا ہے ۔
نظیرؔ کے مطابق ہر کوئی روٹی کمانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ نظیرؔ نے موضوعاتی نظموں میں موضوع کا انتخاب کرکے اس پر سیر
حاصل روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عوامی زندگی کے تقریباً
ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع عوام ہی
کو بنایا اور عوام کا دل جیتنے میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ انھوں نے صحیح
معنوں میں عوامی شاعر کہلانے کا حق ادا کیا۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن، یہاں
کے رسم و رواج اور عناصر کا اس خوبی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے جس
کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ نظیرؔ کے کلام میں ہندوستانیت کا دل دھڑک رہا ہے
۔ زبان و بیان میں کہیں کہیں ابتذالی انداز اور سوقیانہ پن آگیا ہے ۔ویسے
مجموعی اعتبار سے سادہ گوئی ، سلاست و روانی ، برجستگی و شگفتگی، شوخی و
ظرافت اور طنز و نشتریت نے آپ کے کلام کو مقبولِ عام بنادیا اور آپ کو
عوامی مقبولیت کا پسندیدہ شاعر۔ |