پاک فضاؤں کے شاہین

پائلٹ کاک پٹ میں تھا اچانک وہ بولا یہ کیسا ہوگیا؟ میری گنیں جام ہوگئیں؟ میری گنیں کام نہیں کررہیں اب تم کمان سنبھال لو! تاریکی گہری تھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا ایسی گہری تاریکی تھی کہ لگتا تھا ایسا وحشت ناک منظر دیکھ کر چاند بھی کہیں جاچھپا ہو جنگی اصولوں کے تحت ایسی صورتحال میں کمانڈروں کو وآپسی کی راہ لینی چاہئے تھی لیکن وطن کے محبت کے جذبے سے سرشار فلائٹ لیفٹیننٹ جہاز لے کر اگلی پوزیشن پر پہنچ گیا تھا کہ یہ اُس کے کمانڈر کا حکم بھی تھا اور معاملہ جان بچانے سے زیادہ ملک کی سلامتی کا تھا جرات اور بہادری کے مظاہرے عروج پر تھے فلائٹ لیفٹیننٹ نے دیکھا بائیں جانب چار ہنٹر تھے اور دائیں جانب دو ہنٹر عقب خالی تھاہمیں ان کو نشانہ بنانا چاہئے دوسرے فلائٹ لیفٹیننٹ کی آواز وائرلیس پر گونجی نیوی گیشن کی سہولت اِس جنگی جہاز کو اُس وقت میسر نہ تھی اورکاک پٹ میں بیٹھے ہوئے پائلٹ کو اپنی قوتِ بصارت پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑتا تھا فلائٹ لیفٹیننٹ کی طرف سے فوری فیصلہ آیا اور اُس نے دائیں جانب کے دو ہنٹروں پرفائر کھول دیا دشمن کا پہلا ہنٹر پسپا ہوکر بھاگ نکلا اور دوسرا آگ کا گولہ بن گیا فلائٹ لیفٹیننٹ نے اپنے ساتھی کو پکارا مگر دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا جہاز ڈیڑھ سو فٹ سے زائد کی بلندی پر تھا تاریکی انتہائی گہری تھی اُسے اپنے اردگرد کچھ نظر نہ آیا اچانک اُسے محسوس ہوا کہ ہنٹر طیارے فائر کھول چکے ہیں جہاز لہرایا اور پھر اُس نے غوطہ لگایا اس کے نیچے دونوں ہنٹر طیارے زمین کے قریب پہنچ گئے دشمن کا ایک ہنٹر لہرانے لگا اور ڈگمگاگیاجب کہ ایک اُس کے عین سامنے آگیا پائلٹ نے فائر کھول دیا دشمن کا ہنٹر شعلوں میں تبدیل ہوگیا فلائٹ لیفٹیننٹ آگ کے بادل کو چیرتا ہوا اوپر نکل گیا اچانک اُسے اپنے سامنے دشمن کا ایک اور ہنٹر نظرآیا فلائٹ لیفٹیننٹ نے لمحوں میں فیصلہ کیا اور فائر کھول دیا پہلے فلائٹ لیفٹیننٹ نے اپنے ساتھی کو آواز لگائی کیا تم نے نشانہ لے لیا اس کا جواب آیا الحمد للہ میں نے مار گرایا اور عین اِسی لمحے وہ ہٹ ہوگیا اسکوارڈن لیڈر کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ نے بھی جان اِس پاک دھرتی پر نثار کردی ایک اور جاں باز وطن پر قربان ہوگیا ہلواڑاہ کے بھارتی اڈے کا میدان اپنے پانچ ہنٹرز کے عبرتناک انجام کا چشم دید گواہ تھا ....

فضاﺅں میں انجام پذیر یہ سانس روک دینے والا معرکہ کسی اینی میٹڈ مووی کا کوئی سین ہرگز نہیں ہے یہ چھ ستمبر کے اُن جاں سوز لمحات کا تذکرہ ہے جو مادرِ وطن کے ماتھے کا جھومرہے اور جس کو یاد کرکے آج بھی دشمن لرز اُٹھتا ہے چھ ستمبر 1965ءکے اس پورے جرات مندانہ معرکے کے دو کردار اسکورڈن لیڈر سرفراز احمد رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن نے تو موقع پر ہی اپنی جان مادرِ وطن کی حرمت پر نثار کردی اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے جب کہ اس معرکے کے تیسرے انمول کردار فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری اس معرکے کے واحد چشم دیدگواہ کے طور پر وطنِ عزیز کی مزید خدمت کے جذبے سے سرشار اس کی خدمت پر مامور ہوگئے۔

6ستمبر1965ءکو گروپ کیپٹن سیسل چوہدری ہلواڑہ کے بھارتی اڈے کو تباہ کرنے والے فارمیشن کا حصہ تھے اور معرکے کے اختتام پر واحد زندہ بچ جانے والے چشم دیدگواہ بھی تھے جنہوں نے 12اپریل 2012ءکو CMHمیں داخل ہوتے ہوئے کہا کہ ”میرا یہ پیغام دنیا کو پہنچا دینا کہ سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے میں پیدائشی مسیحی ضرور ہوں مگر میرا مذہب انسانیت ہے ہم سب سے پہلے انسان ہیں اور بعد میں کچھ اور اس پر میرا پختہ ایمان ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو گروپ کیپٹن سیسل چوہدری ستارئہ جرات نے CMHلاہور میں داخل ہوتے وقت اداکئے اسی فوجی ہسپتال میں پھیپھڑوں کے کینسر کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے کہ اس ظالم موذی عارضے کی تکلیف دہ شدت کے باوجود وہ اِس سے لڑکر جئے اور وقت ِ آخر تک نہ تو کبھی کوئی مایوسی کی بات کی نہ ہی کبھی دل برداشتہ ہوئے۔ 24گھنٹے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی ہارگئی اور گوراقبرستان لاہور میں ایک ایسے مکین کا اضافہ ہوگیا جس کی جرات کو ستارئہ جرات دے کر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ 1965ءکے وقت کی جوان نسل تو اپنے اِن ہیروز سرفراز رفیقی شہد یونس حسن شہید او ر سیسل چوہدری سے واقف ہے مگر ہماری آج کی جوان ہونے والی نسل اپنے ان ہیروز کے نام اور کارناموں سے ہرگز واقف نہیں ہے ہماری نئی پود سنگرز اسٹارز اور فلمی ہیروز کے دائرے کے اندر گردش کرتی ہے اور یہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا فرض ہے کہ وہ صرف سنسنی خیز خبروں اور ریٹنگ بڑھانے والے فحش ٹاپکز کو چھوڑ کر قوم کی نئی نسل کو اپنے اصلی ہیروز سے متعارف کروائے۔ سیسل چوہدری 1965ءکے ہیرو کی وفات 4سطری کالم سے زیادہ کی خبر نہ بن سکی نہ ہی کوئی کالم اور اداریہ نظر سے گزرا مادرِ وطن پر جان بچھاور کردینے والے ہیروز کو فراموش کردینے سے ہی قومیں روبہ زوال ہوتی ہیں جبکہ سیسل چوہدری جیسے سپوتِ وطن جنہوں نے 1986ءمیں فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تمام تر صلاحتیں قوم کے معماروں کے نام کردیں کہ جن کا نام بین الاقوامی سطح پر بھی عزت واحترام سے لیا جاتا ہے ماہر تعلیم کے طور پروہ پہلے تو کئی سال سینٹ انتھونی کالج سے وابستہ رہے اس کے بعد سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی کے پرنسپل بھی رہے مادرِ وطن کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سیسل چوہدری نے مادرِ وطن کی نئی نسل کی آبیاری بھی پوری جانفشانی کے ساتھ کی سیسل چوہدری کا ایک اور کارنامہ 20اپریل 2009ءکو سینٹ میریز گرلز اکیڈمی کاقیام بھی ہے جہاں قوم کی بیٹیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں عسکری دفاعِ وطن کے بعد تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس کا معیار بلند کرکے ہم اقوامِ عالم کی ہمسری کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے سیسل چوہدری پاکستان کے ایک سچے سپاہی تھے اُن کے جذبہ حب الوطنی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ان کے زندہ جاوید کارناموں اور اَن مٹ حب الوطنی کے جذبوں سے دشمن آج بھی لزہ براندام ہے۔۔محترمہ دل آویز شکیل سیسل چوہدری کی قریبی دوست ہیں۔ میری اُن سے ملاقات سینٹ میری اسکول میں ہوئی جہاں وہ ننھے منے بچوں کے ساتھ اس طرح گھلی ہوئی تھیں جیسے وہ خود اُن کا ایک حصہ ہوں ۔ ننھے معصوم پھول جیسے بچوں کو مستقبل کے معمار کے طور پر تیار کرنا اور اُن کو دنیا کی مسابقت کی دوڑ کے لئے تیار کرنا ہی دراصل دفاعِ وطن کی بنیاد ہے کہ یہ ننھی کونپلیں ہی بڑے ہو کر تناور درخت بنیں گی اور مادر وطن کو نہ صرف سایہ فراہم کریں گی بلکہ پھلوں سے بھی فیضیاب کریں گی۔ وہ اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ سیسل چوہدری گروپ کیپٹن آف وار 1965ءستارئہ جرات کے بارے میں بتاتی رہیں اور میرا یہ یقین پختہ ہوتا رہا کہ یقینا انسانیت سب سے بڑا مذہب اور تعلیم (معیاری تعلیم) ہی سب سے بڑی کامیابی ہے اور سیسل چوہدری جیسے سپوت ِ پاکستان دونوں محاذ پر بے جگری سے لڑے ۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 45706 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.